قرآن اور تصوف

71

فی زمانہ تصوف ایک ایسی اصطلاح کی صورت اختیار کر گیا ہے اور اس کے متعلق ایسا ابہام پیدا کر دیا گیا ہے کہ اتفاق کم اور اختلاف زیادہ واقع ہو چکا ہے۔ اتفاق سے اختلاف تک کے اس سفر میں غیروں سے زیادہ اپنوں نے حصہ ڈالا ہے۔ تصوف کے پُرجوش حامی ان نادان دوستوں کی طرح واقع ہوئے ہیں جو حقِ دوستی کچھ یوں ادا کرتے ہیں کہ نادانستگی میں تصوف کے مقصد اصلیہ ہی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ دوسری طرف بائیں بازو والے، لبرل مزاج کے لوگ ہیں جو تصوف کے کسی ایسے انٹرنیشنل ایڈیشن کی تلاش میں ہیں جو کلمے کے بندھن اور شریعت کے اوامر و نواہی کی قید سے یکسر آزاد ہو۔ متصوف لوگ بالعموم اپنے مزاج میں غیر متشدد ہوتے ہیں، وہ بحث مباحثہ کم کرتے ہیں، قال سے زیادہ حال کی فکر کرتے ہیں اور حال سے زیادہ اپنے خیال کی فکر انہیں دامن گیر رہتی ہے۔ شاید اسی وجہ سے عوام الناس کے سامنے تصوف کی وہ تعریف اور تعبیر عیاں نہ ہو سکی جو راہِ تصوف پر چلنے والے یعنی سالکینِ طریقت کے ہاں رائج ہے۔ یعنی جو اس راستے پر چلتے ہیں، وہ بولتے نہیں اور جو اس پر تبصرہ کناں رہتے ہیں وہ اس راستے پر چلنے والے نہیں ہوتے۔ مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں کہ راستہ جاننے اور راستہ طے کرنے میں فرق ہوتا ہے۔
عام عوام نے تصوف کے متعلق ان لوگوں سے سنا جو اپنی ذات میں صوفی نہ تھے۔ تصوف کے موضوع پر بولنے اور لکھنے والے یا تو مستشرق تھے، یا پھر مستصوف۔ کشف المحجوب کی تعریف کے مطابق مستصوف وہ شخص ہے جو صوفی ہوتا ہے نہ صوفیوں کے نقشِ قدم پر ہوتا ہے، بلکہ وہ صرف صوفیوں کا بہروپ دھارے رکھتا ہے اور خود کو عوام میں صوفی مشتہر کیے رکھتا ہے تاکہ دنیاوی مال و منصب سمیٹنے میں اسے آسانی رہے۔
تصوف پر بات کرنے میں وہ لوگ بھی پیش پیش تھے جو ظاہر پر اکتفا کرتے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو سرے سے تصوف کا انکار کرنے والوں میں شامل تھے۔ ان کے نزدیک دین کی ظاہری ہیئت کافی ہوتی ہے، یہ عبادت کی رسم کے تو قائل ہیں لیکن روحِ عبادت یعنی عبادت برائے قربِ حق کے ذوق و وجدان سے محروم ہیں۔ ان کے نزدیک عالم ہونا کافی ہے، اور عارف ہونا شاید اضافی ہے۔ یہ محض جاننے اور ماننے پر اکتفا کرتے ہیں اور پہچاننے کے ذوق و شوق سے میلوں دور ہیں۔ ان کے ہاں رسم اور اسم تک پہنچنا ہی کمال ہے اور مسمیٰ تک رسائی اور شناسائی کی جستجو گویا امرِ ممنوع ہے۔ یہ لوگ شریعت کے حکم کو تقلید کی حد تک مانتے ہیں، اس میں پوشیدہ حکمت تک رسائی کے ہنر سے محروم ہیں۔ تفکر و تدبر ان کے ہاں بدعت قرار پاتا ہے۔ بدعتِ حسنہ اور سیّیہ میں فرق کرنا ان کے
لیے محال ہے۔ یہ لوگ شرک، بدعت اور تصوف کو ایک ہی سانس میں کہنے اور لکھنے کے عادی ہیں۔
ظاہر ہے اسلام ظاہر و باطن میں ایک مکمل دین ہے۔ حضرتِ انسان جو روح، بدن اور نفس کا ثلاثہ ہے، اس کی ہدایت کے لیے اسلام ہی کو پسند کیا گیا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ اسلام صرف بدنی احکامات پر اکتفا کرے اور نفسِ انسانی کے تزکیے اور روحِ انسانی کے تجلیے کی بابت خاموش رہے۔ اگر دل صنم آشنا رہے تو بقول اقبال:
تیرا دل تو ہے صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں
عبادت قالب اور قلب کی یکسوئی مانگتی ہے۔ سجدہ تسلیم کی علامت ہے اور تسلیم دل کا فعل ہے۔ سجدہ تعظیمی بھی ہو تو دل سے ہوتا ہے، وگرنہ منافقت اور دھوکا سمجھا جاتا ہے۔ عبادت کا سجدہ دل کی حضوری کے بغیر کہاں تک قابلِ قبول ہے، یقیناً قابلِ غور ہے۔ حاضری اگر حضوری کے ہمراہ نہ ہو تو نامکمل ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کا ارشاد ہے کہ وہ عبادت کوئی فایدہ نہیں دیتی جو تمہاری معرفت میں اضافہ نہیں کرتی۔ باب العلم سے یہ بھی روایت کی جاتی ہے کہ یقین کی نیند شک کی نماز سے بہتر ہے۔
القصہ! دینِ اسلام چونکہ دینِ فطرت ہے، اس لیے یہ عین فطرت ہے کہ دین میں جسم کے ساتھ ساتھ روح اور نفس کو پاکیزہ کرنے کی ہدایت دی جائے۔ اگر دیگر مذاہب میں روحانی درویش اور سینٹ موجود ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے، اسلام کا دامن روحانی انسانوںسے خالی پایا جائے۔ اگر ایک لمحے کے لیے بھی یہ ظاہر پرستانہ رویہ قبول کر لیا جائے اور یہ طے کیا جائے کہ دینِ اسلام میں صوفیاءکی کوئی گنجائش نہیں اور یہ کہ روحانیت اور تصوف کا راستہ ایک بدعت کے سوا کچھ نہیں تو یہ بات دینِ فطرت میں ایک سقم پیدا کر دے گی۔ دیگر مذاہب کے عوام اسلام کو فقط رسومِ عبودیت کا مجموعہ سمجھیں گے یا پھر محض کوئی نظامِ سلطنت جس میں روحانی سرگرمیوں کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ اسلام کو محض ایک نظام حکومت و معیشت کے طور قبول کرنا بھی ظاہر پرستی کی ایک قسم ہے، اس طرح ہم ایک الہامی ہدایت کو کسی زمینی ازم، سوشلزم اور کیپٹلیزم وغیرہ کی سطح پر لے آتے ہیں۔ انسانوں کے بنائے ہوئے تمام زمینی نظام دنیاوی زندگی کامیاب ہونے کی امید تو دلاتے ہیں لیکن مابعد کی فلاح کی ہمیں کوئی نوید نہیں سناتے۔ صاحبِ بصیرت کے نزدیک بحث مباحثے کی حد تک بھی اسلام کا تقابل کسی زمینی نظام کے ساتھ کرنا دراصل توہینِ اسلام کی ذیل میں آتا ہے۔ یہ ایسا ہی جیسے مخلوق کا تقابل معاذ اللہ خالق سے کیا جائے۔ اس بات کی سند میں رسولِ کریم کی حدیثِ مبارکہ ذہن میں رہے، جس میں فرمایا گیا ہے کہ کلام اللہ (قرآن) کو باقی سب کلاموں پر ایسے ہی فضیلت حاصل ہے جیسے اللہ کو باقی سب مخلوق پر۔
تصوف کی حقیقت جاننے کے لیے ہمیں قرونِ اولیٰ میں جانا پڑے گا۔ کشف المحجوب میں درج ہے کہ صوفی اسے کہتے ہیں جو اصحابِ صفہ سے نسبت رکھتا ہو یا ان سے محبت رکھتا ہے۔ گویا تصوف اصحابِ صفہؓ کی میراث ہے۔ اصحابِ صفہؓ نے خود کو صحبتِ رسالت مآب کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ اصحابِ صفہؓ کے متعلق ہمیں بالعموم یہ پڑھایا جاتا ہے کہ یہ لوگ شاید بے سر و سامان تھے اور مسجدِ نبوی میں ”پناہ گزین“ تھے، حالانکہ حقیقت اس سے مختلف ہے۔ ان کا فقر اضطراری نہیں بلکہ اختیاری تھا۔ ثبوت اس کا یہ ہے کہ اصحابِ صفہؓ کی فہرست میں ایسے اصحابِ ذی شان بھی ملتے ہیں جو اہلِ ثروت تھے۔ حضرت زیدؓ بن خطاب کی مثال ہمارے سامنے ہے، یہ حضرت عمرؓ بن خطاب کے سگے بھائی تھے، صاحبِ حیثیت خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ تصوف جس اخلاص کا تقاضا کرتا ہے، مقرب اصحاب سب کے سب اس کے عملی پیکر تھے، اس لیے کسی کے لیے علیحدہ سے لفظ ”صوفی“ تجویز نہ کیا گیا۔ مرورِ ایّام سے جب ملوکیت نے خلافت کی جگہ لے لی، عام عوام دین کی اعلیٰ روحانی اقدار سے دور ہو گئے اور جاہ طلبی کی دلدل میں دھنستے چلے گئے، ایسے میں وہ اصحابِ وفا جو دورِ نبوی کے مخصوص اخلاق و اخلاص سے وابستہ رہے، وہ عوام سے جدا نظر آئے، لوگوں نے انہیں صافی اور صوفی کہنا شروع کر دیا۔ دوسری صدی ہجری میں عام گفتگو لفظ ”صوفی“ مستعمل ہو گیا تھا۔
تصوف درجہ احسان ہے۔ معروف حدیثِ جبریل کے مطابق احسان یہ ہے کہ تو اپنے رب کی اس طرح عبادت کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے۔ گویا تصوف مشاہدے سے متصف ہے۔ مشاہدہ روح کا تقاضا ہے۔ دینِ اسلام میں روح اور جسم دونوں کے تقاضے پورے کرنے کا وافر سامان موجود ہے۔ قرآن کریم میں صوفیاءکے لیے جو اصطلاحات موجود ہیں ان میں ”محسنین“ سرفہرست ہے۔ ”عباد الرحمان“ بھی صوفیاءہی کا توصیفی نام ہے۔ وہ تمام اوصاف جو سورة الفرقان میں عبادالرحمٰن کے ساتھ مخصوص ہیں، وہی اوصافِ کردار عاجزی، فروتنی، شب بیداری، دعا میں آہ و زاری اور سجود و قیام سب کے سب تصوف کے سلیبس میں لازم کی حیثیت میں شامل ہیں۔
تصوف کی ہر کتاب بشمول ”کشف المحجوب“ میں راہِ طریقت کا پہلا باب ”توبہ“ بتلایا گیا ہے۔ صوفی تایب بھی ہوتا ہے، منیب بھی اور پھر اوّاب بھی۔ تایب پلٹ آنے والا ہے، یعنی دنیا کے راستے سے پلٹ کر دین کے راستے پر آنے والا…. منیب اپنی رضا سے پلٹ کر رب کی رضا میں داخل ہونے والا ہے، اور اوّاب اپنی ہستی کی فنا سے پلٹ کر اپنے رب کی ہستی کی بقا میں واصل ہونے والا ہے۔ تصوف کی ساری اسناد ہمیں قرآن و حدیث میں اس قدر کثرت سے ملتی ہیں کہ ان کا احاطہ کرنا دشوار ہے۔ مختصراً ہم تصوف کو روحِ دین کہہ سکتے ہیں۔ دین کا ظاہر شریعت ہے اور اس کا باطن تصوف۔ کوئی ظاہر باطن کے بغیر قائم نہیں رہتا اور کوئی باطن ظاہر کے بغیر ظہور میں نہیں آتا۔

تبصرے بند ہیں.