گاﺅں کولوگ جنت اس لئے کہتے ہیں کہ گاﺅں میں جسم کے ساتھ روح بھی خوش رہتی ہے۔اب توگاﺅں اوردیہات پربھی ترقی اورشہری ماحول کاکچھ زیادہ اثرہواہے لیکن پھربھی شہرکے مقابلے میں گاﺅں آج بھی گاﺅں ہے۔تازہ اب وہوا،میٹھے چشمے،دلکش پہاڑ،سبزکھیت اورکانٹوں میں کھلکھلاتے پھول یہی تو گاﺅں و دیہات کاحسن ہے۔شہروں میں توگاڑیوں کے شوروغوغا،ٹینشن پریشانی اورآلودگی سے ہروقت واسطہ پڑارہتا ہے مگر گاﺅں میں ایسانہیں ہوتا۔ماناکہ شہرمیں ملنے والی سہولیات گاﺅں ودیہات میں نہیں ہوتی لیکن گاﺅں ودیہات میں تازہ ہواکے ایک جھونکے سے جسم جس طرح تروتازہ ہوتاہے اس طرح شہری سہولیات سے کبھی نہیں ہوتا ۔شہروں جیسی سہولیات اگر گاﺅں میں میسر ہوں پھر تو یہ گاﺅں اوردیہات واقعی دنیامیںکسی جنت سے کم نہیں۔ کچھ دن پہلے جب شہرکے شوروغوغا، گاڑیوں کی پاں پاں اورآلودگی سے دل ودماغ اورجسم کچھ بھاری ہواتوہم اچانک گاﺅں کے سفرپرنکل پڑے۔ ایبٹ آبادسے بٹگرام تک گاڑی میں پہلے تقریباً ڈھائی تین گھنٹے لگتے تھے،سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی ہزارہ کے عوام سے محبت،خلوص اور ہزارہ موٹروے کی برکت سے اب وہ ڈھائی تین گھنٹوں کاسفرہزارہ موٹروے المعروف (سی پیک) پر تقریباًڈیڑھ گھنٹے میں طے ہو جاتا ہے۔ مانسہرہ سے آگے سی پیک کی تعمیرمیں بٹگرام، شانگلہ اورکوہستان کے عوام سے بڑاہاتھ ہوا ہے لیکن اس میں میاں صاحب کاکوئی قصور نہیںکیونکہ نوازشریف نے توہزارہ موٹروے بنانے کااعلان کیا تھامعلوم نہیں پھر مانسہرہ سے تھاکوٹ تک کس نے اسے موٹروے کابچہ بنادیا۔سی پیک نامی موٹروے کے اس بچے پراب تک کافی حادثات ہوچکے ہیں اورجب تک اس کودوبارہ موٹروے طرزپرتعمیرنہیں کیاجاتاحال کے ساتھ مستقبل میں بھی اس شاہراہ پرحادثات کے خطرات موجودرہیں گے۔ ویسے اس سی پیک سے بھی بٹگرام،شانگلہ اور کوہستان تک کے عوام کوکافی فائدہ پہنچا ہے۔ جوسفرپہلے تین چارگھنٹوں میں طے ہوتاتھاوہ اب دوڈھائی گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ ہزارہ موٹروے جیسے ایسے ہی تاریخی منصوبوں اورکام کی وجہ سے تو لوگ آج بھی میاں نوازشریف کواچھے الفاظ سے یادکرتے ہیں۔ نوازشریف کے بارے میں عمران خان جیسے لوگ چاہے جوبھی کہیں لیکن ایک بات کاکریڈٹ تو نوازشریف کودیناہی پڑے گاکہ انہوں نے لاہور اور اسلام آبادسمیت پورے ملک میں موٹرویزکاجال بچھا کر غریب عوام پرایک بہت بڑااحسان کیاہے۔ اگلے دن بٹگرام شہرمیں قائم بڑے دینی مدرسے جامعہ کوثرالقرآن میں ختم بخاری شریف کی پررونق اوربابرکت محفل تھی جس کاہمیں پہلے سے علم تھا۔مانسہرہ میں برادرم مولاناقاضی محمد اسرائیل گڑنگی کے مدرسے میں منعقدہ ختم بخاری شریف کی محفل سے محرومی والے دکھ اورافسوس کوہم بٹگرام کی سرزمین پر دہرانانہیں چاہتے تھے اس لئے ہماری کوشش بھی تھی اورخواہش بھی کہ کسی نہ کسی طریقے سے اس پروگرام میں شرکت کاشرف حاصل کرلیا جائے۔اللہ بھلاکرے ڈاکٹرروح الامین اوررفیع اللہ مندری کاجو اس بابرکت محفل میں ہماری شرکت کا ذریعہ بنے۔ان کے ہمراہ اس پروگرام میں شرکت کرکے ملک کے نامورعلمائے کرام اورمشائخ عظام سے بہت کچھ سیکھنے،سمجھنے اور استفادہ حاصل کرنے کاموقع ملا۔ ہمارے باقی ایام گاﺅں میں ہی مولانا پیرخالدقاسمی کے ہمراہ گزرے،پیرصاحب اس بارہم پر کچھ زیادہ مہربان رہے،برادرم صدرالزمان خان بٹگرام کی سیاست میں جن کا ایک بڑانام ہے اورعلاقے کے اکثرمسائل ومعاملات جو اپنے طورپرحل کراتے ہیں آخری روزواپسی پران سے بھی تفصیلی ملاقات ہوئی۔ گاﺅں میں اس باربھی موبائل چارج نے بہت تنگ کیاکیونکہ گاﺅں بلکہ پورے بٹگرام میں بجلی کامسئلہ اب بھی ویساہی ہے جیساکہ جون جولائی میں تھا۔ایک گھنٹے کے لئے بجلی آتی ہے پھرکئی کئی گھنٹوں تک بجلی کانام ونشان تک نہیں ہوتا۔گیس کی سہولت وہ تو مانسہرہ سے آگے ہے نہیں۔ بٹگرام کے لوگ آج بھی لکڑیاں جلانے یا پھر گھریلو سلنڈر استعمال کر کے گزارا چلانے پر مجبور ہیں۔ نواز شریف، عمران خان، مولانا فضل الرحمن، سراج الحق مطلب ہر پارٹی اور لیڈر کے پروانے اور دیوانے ان گاﺅں اور دیہات میں موجود ہیں۔ مستقبل کیا۔؟ اپنے حال تک کی ان کوکوئی فکرنہیں لیکن زندہ باداورمردہ بادکے نعروں میں یہ آپ کوہروقت مگن دکھائی دیں گے۔ موبائل اور سوشل میڈیا کا اتنا استعمال شہروں میں نہیں ہوتا ہو گا جتنا یہاں کے شہزادے سر جھکا کر دن رات کرتے ہیں۔ گاﺅں میں رہنے والے ہرجوان کے پاس اورکچھ ہو یا نہ۔ موبائل ضرورہوگا۔جہاں کوئی سیاسی جلسہ یاجلسی ہویہ شہزادے یابھگوڑے جھنڈے اٹھائے وہاں لازمی دوڑتے جائیں گے لیکن سڑک، بجلی، پانی اور دیگر بنیادی سہولیات کی فراہمی ومطالبے کے لئے اپنے سیاسی پیروآقاکے سامنے زبان کھولناکبھی یہ گوارانہیں کریں گے۔گاﺅں اوردیہات پراب کافی حدتک شہروں کارنگ چڑھاہواہے لیکن پھربھی کئی چیزیں،کئی عادتیں اورکئی طورطریقے آج بھی ان گاﺅں اور دیہات میں ایسے موجودو باقی ہیں جواب بھی شہری آلودگی اورترقی کے تڑکے سے پاک ہیں۔ یہاں کے لوگوں کی ایک اچھی بات یہ آج بھی عشاءکی نمازپڑھنے کے فوراًبعدسوجاتے ہیں اورصبح فجرکی نمازسے پہلے اٹھ کرنمازکے بعداپنے کام کاج شروع کر دیتے ہیں۔ ان گاﺅں و دیہات میں ہمارے جیسے ایسے بھی ہیں جن کی آنکھیں نواوردس بجے سے پہلے نہیں کھلتیںلیکن اکثریت کامعمول جلد سونے اورپھرجلداٹھنے کاہے۔یہاں کے بچے اور جوان صوم وصلوٰة کے پابندہیں۔ یاسر استاد جیسے مصروف لوگ بھی ہروقت مسجدمیں دکھائی دیتے ہیں۔ گاﺅں میں ایک نہیں کئی چیزیں بدلی ہیں لیکن لوگوں کی ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی عادت ابھی تک نہیں بدلی۔آج بھی جس کودوسرے بھائی کی ٹانگ کھینچنے کاکوئی موقع ملتاہے تووہ پھرایک منٹ بھی ضائع نہیں کرتا۔گاﺅں کی بہت ساری چیزیں جس طرح بدل گئی ہیں دعاہے کہ بغض، حسد، غیبت اور منافقت والی یہ عادتیں بھی جلدسے جلد بدل جائیں تاکہ گاﺅں ودیہات میں واقعی جنت کا سماں ہو۔
تبصرے بند ہیں.