کینسر۔۔۔۔30 سے 50 فیصد بچاؤ ممکن ہے

12

جیسے جیسے دنیا ترقی کرتی جا رہی ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی میں اضافے کے ساتھ ساتھ ایک طرف انفیکشنز پر قابو پایا جا رہا ہے تو دوسری جانب کچھ ایسے عوامل بڑھنا شروع ہو گئے ہیں جو کینسر میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صنعتی ترقی کے بعد دنیا بھر میں کینسر ایک بہت بڑی بیماری کی صورت میں دیکھا جا رہاہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اعداد وشمار کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ ایک کروڑ 93 لاکھ کینسر کیسوں کی تشخیص کی جا رہی ہے۔ اگر کنٹرول نہ کیا گیا تو ممکن ہے کہ 2040ءمیں یہی تعداد بڑھ کر 3 کروڑ 2 لاکھ سالانہ پر چلی جائے گی۔ دنیا بھر میں عورتوں میں سب سے زیادہ چھاتی کے سرطان کے اس وقت سالانہ 22 لاکھ 60 ہزار نئے کیسز تشخیص کئے جا رہے ہیں اور اگر اسی رفتار سے ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا تو 2040ءمیں سالانہ 31 لاکھ 90 ہزار کیسز دیکھے جائیں گے۔ ہر سال اوسطاً 4 لاکھ بچے کینسر میں مبتلا ہوتے ہیں۔ سالانہ 116 کھرب ڈالر سے زیادہ خرچہ کینسر کے حوالے سے کیا جاتا ہے۔ جیسے جیسے کینسر کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ویسے ہی کینسر سے ہونے والی اموات ہولناک صورت اختیار کر چکی ہےں۔ عالمی ادارہ صحت کے اعداد وشمار کے مطابق صرف 2018ءمیں 96 لاکھ افراد کینسر کی وجہ سے لقمہ اجل بن گئے۔ یہاں تک کہ دنیا بھر میں کینسر موت کی دوسری بڑی وجہ بن چکا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان کینسر میں سے 30 سے 50 فیصد سے بچا جا سکتا ہے۔ کینسر کا مرض مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں میں بھی موت کی بڑی وجہ بنتا جا رہا ہے۔ مردوں میں پھیپھڑوں کا کینسر جبکہ خواتین میں چھاتی کا کینسر موت کی ایک بڑی وجہ ہے۔ دنیا بھر میں کینسر کے عالمی دن کے حوالے سے آگاہی پیدا کی جاتی ہے تاکہ جس کینسر کی روک تھام کی جا سکتی ہو اس کو بروقت تشخیص اور حفاظتی تدابیر اختیار کرتے ہوئے روکا جائے۔ کینسر بیماریوں کا ایک ایسا گروپ ہے جس میں سیل بغیر کسی روک ٹوک کے تیزی سے بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں اور اپنی حدود سے باہر نکل کر دوسرے اعضاءکو بھی متاثر کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ سیل جسم کے دوردراز اعضاءمیں خون کے ذریعے پھیل جاتے ہیں اور اس طرح کینسر کی جڑیں مضبوط ہوتے ہوتے سارا جسم یا اعضائے رئیسہ اس کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ کینسر گلٹیوں کی صورت میں بھی نمودار ہو سکتا ہے لیکن یہاں یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ تمام گلٹیاں کینسر نہیں ہوتیں بلکہ بہت ساری گلٹیاں صرف اپنے لوکل حصے تک محدود ہیں اور یہ جسم میں کہیں نہیں پھیلتیں۔ جیسے جیسے دنیا ترقی کرتی جا رہی ہے، کینسر کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں اور یہ صحت عامہ کا ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ کینسر کی وجہ سے انسان
کے جسم اور نفسیات پر اثر پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کا بہت بڑا اثر معیشت پر بھی آ جاتا ہے۔ کینسر نہ صرف کسی فرد کے لئے بلکہ اس کی فیملی، معاشرے،ملک کے ہیلتھ سسٹم یہاں تک کہ پوری دنیا کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے اور کھربوں ڈالر سالانہ کینسر پر خرچ کرنا پڑ رہے ہیں۔ کم آمدنی والے ممالک جہاں فی کس آمدن بہت کم ہے، وہ لوگ اپنا علاج اور تشخیص کرانے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں کینسر ابتدائی طور پر پکڑ میں نہیں آتا بلکہ جب بیماری کی تشخیص ہوتی ہے تو مرض بہت آگے بڑھ چکا ہوتا ہے اس لئے اس کا علاج کرنا کافی حد تک مشکل ہو جاتا ہے۔ کچھ قسم کے کینسر نسل در نسل منتقل ہو سکتے ہیں، خاص طور پر پھیپھڑے اور چھاتی کا کینسر کچھ خاندانوں میں زیادہ دیکھا جاتا ہے اس لئے ایسے لوگ جن کے خاندان میں کینسر کا مرض دیکھا جائے، انہیں بہت احتیاط کرنی چاہئے اور اپنا معائنہ متواتر کراتے رہنا چاہئے تاکہ ابتدائی مرحلے پر اس کی تشخیص کی جا سکے۔ کینسر پھیلنے کی رفتار ابتدائی طور پر بہت ہی سستی سے ہوتی ہے اس لئے اگر شروع میں اس کی تشخیص کر لی جائے تو چند کینسرز میں تو اس کا مکمل علاج بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
کینسر کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا اور ابتدائی مرحلے پر اس کی تشخیص کرنا بھی بے حد ضروری ہے۔کینسر سے ہونے والی 30 سے 50 فیصد اموات کو روکا جا سکتا ہے، کچھ عوامل ایسے ہیں جو کینسر کا باعث بن رہے ہیں اس لئے ان عوامل کو روکنا یا تبدیل کرنا ضروری ہے مثلاً سگریٹ نوشی سے پرہیز کرنا۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ سگریٹ کا استعمال اور اس سے نکلنے والے دھوئیں سے پھیپھڑے اور جسم کے دیگر حصوں میں کینسر پیدا ہو سکتا ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اگر دھوئیں کے بغیر تمباکو نوشی کی جائے تو اس سے کینسر نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ دھوئیں والا سگریٹ یا دھوئیں کے بغیر استعمال کیا جانے والا تمباکو، دونوں کینسر کا باعث بن سکتے ہیں۔ سگریٹ پینے کے بعد اگلے چار گھنٹے تک منہ سے ایسے کیمیائی مرکبات نکلتے ہیں جو نہ صرف سگریٹ پینے والے کو بلکہ اس کے قریب بیٹھنے والے لوگوں کو بھی متاثر کر سکتے ہیں اور کینسر کا باعث بن سکتے ہیں۔ اپنے وزن کو مناسب رکھنا۔ اس لئے کہ جب وزن ایک خاص حد سے بڑھ جاتا ہے تو جسم کے بہت سارے ہارمون اپنا اثر چھوڑ دیتے ہیں۔ صحت مند خوراک انسانی صحت کے لئے بے حد مفید ہے اور کینسر سے بچاو¿ کے لئے ضروری ہے کہ تازہ پھل اور سبزیوں کا استعمال زیادہ کیا جائے۔ تازہ پھلوں اور سبزیوں میں اینٹی آکسیڈنٹ موجود ہیں جو کہ کینسر سیلز کو ختم کرتے ہیں اور کینسر میں کمی کا باعث بنتے ہیں۔ ورزش۔ ہر شخص کو اپنی عمر اور جسامت کے حساب سے روزانہ کی بنیاد پر ورزش کرنی چاہئے۔ ورزش کے دوران خون کا بہاؤ بہتر ہوتا ہے اور خون جسم کے ہر حصے میں پہنچ کر جسم کو تر و تازہ رکھتا ہے اور کینسر سے بچاؤ کا بھی باعث بنتا ہے۔ الکوحل کے استعمال سے ممانعت۔ الکوحل کا استعمال بھی انسانی صحت کے لئے نقصان دہ ہے اور جگر سمیت بہت سارے دیگر اعضاءمیں کینسر کا باعث بن سکتا ہے۔ جگر کی ویکسی نیشن۔ ہیپاٹائٹس سے بچاؤ کے لئے ہیپاٹائٹس بی کی ویکسی نیشن ضروری ہے۔ اسی طرح خواتین کے لئے HPV کی ویکسی نیشن کرائی جائے جو خواتین میں سروکس کے کینسر سے بچاؤ کے لئے مفید ثابت ہوتی ہے۔ ایکسرے کراتے ہوئے احتیاط برتی جائے کہ شعائیں کم سے کم جسم پر اثرانداز ہوں۔ ایکسرے کراتے ہوئے لیڈ شیلڈ اور لیڈ اپریل کا استعمال کیا جائے تاکہ جسم کا ہر وہ حصہ جہاں ایکسرے کی ضرورت نہیں، اس کو شیلڈ کے ذریعے کور کر دیا جائے۔ گھروں، فیکٹریوں سے نکلنے والے ہر قسم کے دھوئیں سے بچا جائے کیونکہ اس میں ایسے کیمیکل موجود ہوتے ہیں جو کینسر کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایسے خاندان جن میں کینسر کا مرض پایا جاتا ہو، انہیں مسلسل معالج سے رابطے میں رہنا چاہئے تاکہ کینسر کی بروقت تشخیص کی جا سکے۔ کچھ ایسے ممالک ہیں جہاں خاص قسم کے انفیکشنز کی وجہ سے بھی کینسر ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اس لئے ان انفیکشنز کا بروقت علاج کیا جانا بہت ضروری ہے۔ جب کینسر کی تشخیص ہو جائے تو اس کا علاج بے حد ضروری ہے۔ کینسر کو جتنی جلدی تشخیص کیا جائے، اتنا ہی علاج آسان ہو جاتا ہے۔ ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ کینسر کی سٹیج ون پر ہی تشخیص کر لیں اور اسی سٹیج پر اس کا علاج شروع کر دیا جائے اس لئے کہ سٹیج II، سٹیج III اور آخر میں سٹیج IV پر اس کا علاج مشکل ہوتا جاتا ہے اور بعض اوقات تو تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کو کینسر کی آگاہی میں شامل کیا جائے اور ملک بھر میں ایسے مراکز قائم کئے جائیں جہاں کینسر کی تشخیص اور علاج حکومتی وسائل پر کیا جائے اس لئے کہ کینسر کا علاج مشکل ہونے کے ساتھ ساتھ مہنگا بھی ہے جسے عام آدمی برداشت نہیں کر سکتا۔
کینسر کے علاج کے لئے مختلف طریقہ کار استعمال کئے جاتے ہیں۔ ان میں سرجری کے ذریعے کینسر کی گلٹی کو نکالنے کے علاوہ ادویات کے ذریعے کینسر کا علاج کرنا جسے کیموتھراپی کہا جاتا ہے، اس کے علاوہ شعاعوں کے ذریعے کینسر کا علاج کرنا جسے ریڈیوتھراپی کہا جاتا ہے۔ کینسر کے علاج کے لئے بسااوقات تینوں طریقہ علاج ملا جلا کر استعمال کئے جاتے ہیں یعنی سرجری کے بعد کیموتھراپی اور ریڈیوتھراپی۔اس لئے علاج کے لئے ٹیم اپروچ کی ضرورت ہے۔ اگر بروقت علاج کر لیا جائے اور مستقل بنیادوں پر میڈیکل ریویو کے لئے رکھا جائے تو کینسر کے باوجود مریض ایک اچھی زندگی گزار سکتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.