مریم نواز کا بیانیہ

56

ہماری سیاست میں کسی بھی بیانیے کی اوقات ایک بیان سے زیادہ نہیں ہوتی جو ہر انٹرویو میں بدل جاتے ہیں، آج کچھ کل کچھ، ایسے بیانیوں کی پرواز ایک برجستہ جملے یا ہم کافیہ نعرے کی گونج سے زیادہ نہیں ہوتی، ”ووٹ کو عزت دو“ کا نام نہاد بیانیہ بھی بس ایک نعرہ ہی ثابت ہوا ہے جو لگانے میں جوش دیتا ہے اور اسکے بعد نعرہ بلند کرنے والے سمیت سب ہوش میں آ جاتے ہیں، دنیا بھر میں سیاستدانوں کے قول و فعل میں تضاد ہونا کوئی نئی بات نہیں، ہر اپوزیشن کے سیاستدان اپنے بیانات کے ذریعے مقبول بیانیہ بنا کر عوام سے ووٹ مانگتے ہیں کہ حکومت میں آ کر اس پر عمل کرینگے۔ مگر ایسا ہوتا نہیں، براسرِ اقتدار سیاسی جماعتوں کو ان کے بیانیے پر نہیں پالیسیوں اور فیصلوں پر پرکھا جاتا ہے، عمران خان کا نیوٹرل انالمنکر سے متعلق بیانیہ تو دفن ہوا ہی مگر اس کے فوراً بعد ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ بھی منوں مٹی تلے جاتا دکھائی دے رہا ہے باوجود اس کے کہ اس کی خالق ن لیگ کی قیادت میں بنا حکمران اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کو حکومت بنائے 9 ماہ کا عرصہ بیت چکا ہے، ووٹ کی عزت لوٹنے والوں کے احتساب کے آثار نظر نہیں آ رہے۔
مریم نواز شریف کا سلیم صافی کو دیئے گئے حالیہ انٹرویو سے لگتا ہے کہ ووٹر کو اب اپنی عزت بچانے کی ذمے داری کسی سیاسی جماعت کو نہیں دینی چاہئے، آئی ایم ایف کی جابرانہ ڈیل سے پہلے مریم نواز کو پارٹی کی کمانڈ دینے کا مقصد ن لیگ کو شہباز حکومت سے الگ ظاہر کرنا تھا۔ مگر ایسا ہو نہیں سکا، ووٹر کی عزت معاشی طور پر ہی نیلام ہو گئی اور مریم نواز کے پاس آئی ایم ایف ڈیل کو گناہ قرار دے کر اس کا الزام بھی عمران خان پر ڈالنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ملا، ایسی تباہ کن معاشی صورتِ حال میں آئین اور جمہوریت یا ووٹ کو عزت دو کے متعلق بیان یا بیانیہ ایک بے وقت کی راگنی محسوس ہوتی ہے تاہم ”قمیض“ پھٹی اور جیب کٹی اس جنتا کا اتنا حق تو بنتا تھا کہ اس کے اصل مجرم پکڑے جاتے، آپ کے خلاف”جعلی مقدمات“ تو ختم ہو گئے اور آپ کو اقتدار کی سواری بھی مل گئی عوام کو کیا ملا؟ کیا وہ یہ جاننے کے حقدار بھی نہیں کہ پچھلے چھ سال میں ان کے مینڈیٹ کا بلادکار کرنے والوں کے خلاف کیا کاروائی ہو گی؟ اپنی نا اہلی، قید اور سزاو¿ں کو بھلا کر جنرل باجوہ اور جنرل فیض کو قدرت کے رحم و کرم پر چھوڑنے والے اپنی بزدلی اور سیاسی ڈیل کو اپنے بڑھے پن کا نام کیسے دے سکتے ہیں، نوجوان نسل کو کیا پیغام دیا جا رہا ہے کہ آئین سے غداری کے مجرموں کو مریم نواز یا نواز شریف نے ایک بار پھر اقتدار کی لالچ میں معاف کر دیا ہے، ایسا کرنے سے سیاسی اور جمہوری اقدار سیاسی بحث سے نکل جائیں گے جو خود ہمارے سیاسی نظام، آئین اور جمہوریت کے لئیے زہر قاتل ثابت ہو گا، باجوائی دور میں اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور چند مہرے سیاستدانوں کے گھناو¿نے کردار متعلق نوجوان نسل کے بیچ گفتگو بھی نہ ہو نا عمران خان جیسے سیاست اور جمہوریت دشمن عناصر کو تقویت دے گا، مریم نواز کے انٹرویو سے بھی یہ لگتا ہے کہ انہیں بھی نوجوان نسل کو ایسی سیاسی بحث کی طرف لانے میں کچھ زیادہ دلچسپی نہیں، عمران خان کے دور میں نوجوان نسل کو اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے جس طرح جمہوری نظامِ حکومت سے ہٹا کر شخصیت پرستی کی طرف راغب کیا گیا اس کے بعد تو اس نام نہاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا پہلا مقصد ہی عوام اور نوجوانان کو آئین سے کھلواڑ کرنے والے سازشی کرداروں کو بے نقاب کرنا ہونا چاہئیے تھا، اور کچھ نہیں تو کم از کم ایسے کرداروں کے کڑے احتساب کے لئیے رائے عامہ تو ہموار کرنا فرض تھا، مگر اس کے برعکس نواز شریف اور مریم نواز یہ تاثر دے رہے ہیں کہ سیاستدانوں کو اقتدار مل جائے تو وہ عوام کا مینڈیٹ چرانے والوں کو بھی ایسے معاف کر سکتے ہیں کہ جیسے آئین کے غداروں نے راو¿نڈ سے کوئی سائیکل ہی تو چرائی تھی اور ”میں انتقامی کاروائی پر یقین نہیں رکھتی،“ مریم نواز کہتی ہیں کہ جنرل فیض، جنرل ظہیر السلام جنرل پاشا اور جنرل باجوہ جیسے ”ان کرداروں کے خلاف کچھ بھی کرنے کی ضرورت نہیں“ اور یہ کہ قدرت نے ان کا احتساب کر لیا ہے۔ انسان کو اقتدار کی چمک کس طرح تبدیل کر دیتی ہے اس کا مظاہرہ ”ووٹ کو عزت دو“ کا نعرہ لگانے والے اس حکمران اتحاد کو دیکھ اور سن کر لگایا جا سکتا ہے، پھر بھی یہ دعوہ ہے کہ ”ن لیگ اور پی ٹی آئی کے ڈی این اے“ میں فرق ہے، مریم نواز فرماتی ہیں کہ ”میں وہ نہیں کہ جسے عیش میں یادِ خدا نہ رہا جسے طیش میں خوفِ خدا نہ رہا“۔
یہ ”میں“ کیا ہوتا ہے؟ عوام کے مجرموں کو معاف کرنے والے آپ کون ہوتے ہیں؟ اگر آپ آئین کے مطابق قوم کے مجرموں کے خلاف کارروائی نہیں کرینگے تو آپ بھی ان کے اعانت کار کہلائیں گے، خدا تعالی کو عوام کے حقوق پر سمجھوتا کرنے والے ایسے مصلحت پسندوں کی عبادت کی بھی ضرورت نہیں، اور رہی بات انتقامی سیاست پر یقین نہ رکھنے کی تو آپ کو انتقامی سیاست اور آئین کا دفاع کرنے میں فرق معلوم ہونا چاہئے، کسی خوش فہمی میں نہ رہیں اور یاد رکھیں کہ کسی وقت میں عمران خان بھی کہتا تھا کہ فوج کے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے اور ویسے بھی انتقام وہ لیتے ہیں جو اختیار رکھتے ہیں- آپ سے یہ کس نے کہہ دیا کہ آپ جنرل باجوہ، جنرل فیض یا ان کے پیش روو¿ں کو پھانسی پر لٹکا دیں، بائیس کروڑ عوام کے ووٹ اور مینڈیٹ کی توہین کرنے والوں کو کم از کم اپنا ذاتی مجرم سمجھ کر سرِ عام معافی تو نہ دیں، آپ کی جماعت نے پہلے بھی اسٹیبلشمنٹ کے معاملات قدرت کے نام پر مصلحت کے تحت نمٹائے اور آج اپنا اور قوم کا حال دیکھ لیں، جنرل مشرف کیخلاف نیم دلانہ کارروائی کا انجام بھی دیکھ لیا اور آج پھر آپ سب کچھ بھولنے کو تیار ہیں؟ پھر یہ دعویٰ کہ جنرل باجوہ آج کمزور ہوئے تو عمران خان نے ان پر حملہ کر دیا؟ آپ کا عمران خان کی دشمنی میں جنرل باجوہ کا دفاع کرنا ظاہر کرتا ہے کہ آپ کا مسئلہ صرف آپ کے خلاف بنائے گیے ”جعلی مقدمات“ اور اقتدار تھا اور جنرل باجوہ اینڈ کو کی آئین سے سنگین غداری اور بائیس کروڑ عوام کے مینڈیٹ سے ان کرداروں کی اجتماعی زیادتی نہیں، اللہ تعالی بھی حقوق اللہ معاف کرنے کا کہتا ہے مگر حقوق العباد نہیں تو آپ کون ہوتے ہیں کہ بائیس کروڑ عوام کے حقوق سلب کرنے والوں کو کسی تقریر یا انٹرویو میں معاف کر دیں؟ اقتدار کی لالچ میں ماضی میں آپ کی ایسی مصلحت پسندی نے ہی ایک ایسی نسل کو جنم دیا ہے جس کو آپ لوگ یوتھیا کہتے ہیں، اب ایک بار پھر شریف خاندان اسٹیبلشمنٹ کے خاندان سے صلح کرنے کو تیار ہے؟ اگر مریم نواز واقعی نئی نسل کی ترجمان ہیں اور ایوولوشن یعنی ارتقا پر یقین رکھتی ہیں تو انہیں خود کو عمران خان سے الگ ثابت کرنا ہو گا، وگرنہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ عمران خان اب جنرل باجوہ کا احتساب چاہتے ہیں اور آپ تب جنرل باجوہ کا احتساب چاہتی تھی یا آپ جب
جنرل باجوہ کا احتساب چاہتی تھی تو عمران خان تب جنرل باجوہ کا احتساب نہیں چاہتے تھے، عمران خان نئی اسٹیبلشمنٹ کو خوش کرنا چاہ رہے ہیں اور آپ انہیں ناراض نہیں کر سکتی، اگر نوجوان نسل نے اپنا انتخاب کرنا ہی ہے تو مریم نواز اور عمران خان میں سب سے بڑا فرق یہ ہونا چاہئے کہ مریم نواز پورے باجوائی دور کے اسٹیبلشمنٹ کے ان کرداروں اور ان کے عدالتی مہروں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے حق میں ہے جنہوں نے اس عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا۔ جنرل باجوہ کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کرنے والے عمران خان کی منافقت اس سے بھی عیاں ہو جائے گی کہ جب وہ جنرل فیض کے احتساب کی مخالفت میں آواز اٹھائیں گے، مریم نواز کا یہ کہنا کہ ان کی حکومت اٹھائیس نومبر دو ہزار بائیس کو نئے آرمی چیف کی تقرری کے ساتھ آئی تھی کوئی باعث فخر بات نہیں کیونکہ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ عدم اعتماد کے بعد شہباز شریف نے جنرل باجوہ کے دور میں بطور کٹھ پتلی وزیر اعظم بننے پر اتفاق کیا اور ان کے بارے میں عمران خان اتنے غلط بھی نہیں، ہم جیسے تجزیہ کار مریم نواز کو ایک نئے قومی لیڈر کی صورت میں اس لئے دیکھتے ہیں کہ شاید یہ شہباز شریف سے مختلف ہوں گی، اس کے لئے مریم نواز کو اپنے بیانات اور بیانیے پر محنت کرنا ہو گی اور اسٹیبلشمنٹ سے متعلق اس شکست خوردہ سوچ کو بدلنا ہو گا، ایسا نہ کیا تو ن لیگ اور پی ٹی آئی میں اتنا ہی فرق رہ جائے گا جتنا پاکستان کی دو بڑی مذہبی سیاسی جماعتوں میں ہوتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.