جیل بھرو تحریک اور روتا ہوا پاکستان

26

سفر ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ۔ پاکستان وہ شہزادہ ہے کہ ایک جن کو قتل کرتاہے تو وہ دو بن جاتے ہیں ۔ ملک کہاں رہا ہے جنات کا دیس بن چکا ہے ۔ جو روز نت نئے طریقوں سے ہمارے بچوں کو نگل رہے ہیں اور ہم اِن کے کھیل تماشے دیکھ کر مسلسل تالیا ں پیٹتے جا رہے ہیں ۔عمران نیازی کا منجھدار نہ ہوا منیر نیازی کے دریا ہو گئے کہ ایک کے بعد ایک عبور کرنا پڑ رہا ہے ۔یہ کہانی نسیم حجازی کے ناول ”خاک اور خون“ سے شرو ع ہو تی ہوئی قرة العین کے ناول ”آگ کا دریا“سے گزر کر انتظار حسین کے ناول” آگے سمندر ہے “ پر جا ٹھہری ہے ۔ لکھنا تو کراچی میں ہونے والی دہشتگردی کے حوالے سے اپنے تحفظات بارے تھا لیکن جسم میں جان ہوگی تو لڑ بھی لیں گے ۔ سو اپنی بات کا آغاز ”جیل بھرو تحریک “ سے پہلے کے واقعات سے کرنا چاہتا ہوں ۔ دہشتگرد کون سے ختم ہو ئے جا رہے ہیں کہ یہ بلائیں دعاوں اور تعویزوں سے رد ہونے والی نہیں ہیں ۔ لیکن پاکستانیوں کا پیٹ بھرنے کے بجائے ہم جیل بھرنے کی تیاری کر رہے ہیں تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی دانش تو ضرو ر ہو گی ۔2008ءکے انتخابات میں عمران نیازی نے فیصلہ کیا کہ تحریک انصاف بائیکاٹ کرے گی۔ اُس وقت اُنکی عقل داڑھ جناب قاضی حسین احمدہوا کرتے تھے ۔ عمران نیازی نے فیصلہ کیا کہ میں الیکشن کمیشن سے جاری ہونے والے کاغذات ِ نامزدگی پھاڑ کر بائیکاٹ کروں گا ۔ میں نے بتایا جناب چیئرمین بائیکاٹ امیدوار کا ہوتا ہے گھر بیٹھے بائیکاٹ نہیں ہو جاتا آ پ پہلے امیدوار بنیں پھر آپ کا بائیکاٹ تسلیم کیا جائے گا اور اگر آپ نے امیدوار بنے بغیر ہی کوئی ایسی حرکت کی تو یہ سوائے جگ ہنسائی کے اور کچھ نہیں ہو گا۔2008ءکے انتخابات میں جماعت اسلامی نے نہ صرف اپنے امیدواروں کو ٹکٹ الاٹ کیے بلکہ انہوں نے کاغذات ِ نامزدگی بھی داخل کروائے اور پھر بائیکاٹ کا اعلان کرکے کاغذاتِ نامزدگی واپس لے لئے ۔ یہ سارا عمل جماعت اسلامی نے عمران نیازی کے سامنے کیا لیکن اُس نے ہمیشہ کچھ نہ سمجھنے کی قسم کھائی ہوئی ہے ۔ مجھے حیرت ہے کہ قاضی حسین احمد نے انہیں وہ سب کچھ کرنے کا طریقہ کار کیوں نہیں بتایا جو وہ خود کرچکے تھے ۔2008 ءکے انتخابات گزر گئے لیکن اپنے پیچھے محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت سے پیداہونے والا ایسا خلا چھوڑ گئے جو آج تک پُر نہیں ہو سکا ۔2010ءمیں آنے والے سیلاب نے پاکستان کو بنیادوں سے ہلا کر رکھ دیا جس میں عمران نیازی نے میر خلیل الرحمان فاﺅنڈیشن کے ساتھ مل کر جوائنٹ ایڈونچر پکار کے نام سے کیا اور یہی وہ وقت تھا جب آئی ایس ایف کے نوواردوں نے سیاسی
ورکروں اور کچھ صحافیوں کے ساتھ مل کر مال بنایا اوربعد ازاں میرے شکیل الرحمان کے حصے میں صرف ذلت آئی جو ہر اُس شخص کے حصے میں آتی ہے جو عمران نیازی کا محسن بننے کا رسک لے ۔اس سے پہلے زلزلے کے حوالے بھی فنڈ ریزنگ منصفانہ طور پر تقسیم نہ کی جا سکی ۔ میرے جیسے سیاسی ورکر کیلئے عمران نیازی کی دیانتداری کا یہ نیا چہرہ پہلی بار سامنے آیا تھا لیکن میرا خیال تھا کہ عمران نیازی کے
نیچے کچھ نا پسندیدہ لوگ ایسا کر رہے ہیں جب کہ حقیقت یہ تھی کہ انہیں ایسا کرنے کی کھلی اجازت دے رکھی تھی۔ تحریک انصاف لاہور کا پہلا جلسہ بیک وقت تحریک کا نقطہءعروج بھی تھا اور نقطہ زوال بھی ۔ کیونکہ اُس کے بعد تحریک میں آنے والے رش میں عمران خان کے حقیقی ساتھی اُس سے دور ہوتے چلے گئے جو الیکشن 2013ءتک دفن ہو چکے تھے ۔ 2014 ءمیں ایک بار پھر تحریک انصا ف کو ورکرز کی ضرورت پڑ گئی کیونکہ اس بار جرنیلی دھرنے کی آڑ میں عمران نیازی کی ہیرو شپ بنا کر پاکستان کی مستحکم حکومت کو غیرمستحکم کرنا مقصود تھا او ر نواز شریف اپنی تمام تر کوتاہیوں کے باوجود اُس وقت ایک مقبول لیڈر تھا لیکن اس سے بھی انکار نہیں کہ عمران نیازی کی مقبولیت میں اضافہ ہو چکا تھا ۔
مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے کہ جب عمران نیاز ی نے دوہفتوںکے” اہم اعلان “ کے جھانسے میں لوگوں کو اکھٹا کیا اوربجلی کا بل جلا کر ” سول نافرمانی “ کی تحریک کا مطالبہ عوام کے سامنے رکھ دیا ۔ اللہ رب العزت جانتے ہیں کہ میں اُس دن آنسوﺅں سے رو پڑا اور میرے ساتھ تحریک انصاف کے نوجوان حیران تھے کہ عمران نیازی نے ایسا کیا بُر ا کہہ دیا ہے ۔ لاعلمی بھی بسا اوقات رحمت ہوتی ہے ورنہ اگروہ ہجوم جانتا کہ سول نافرمانی کا دوسرا مطلب کیا ہے تو عمران نیازی کی سیاسی دکان اُسی دن بند ہو جانا تھی لیکن عمران کو جس طرح بنا کر پیش کیا جا رہا تھا وہ چی گویرا  لینن اورماﺅزے تنگ کا وارث دکھائی دیتا تھا بلکہ عمران کے دھرنے سے چند گزکے فاصلے پرمحترم طاہر القادری صاحب سینے پر ہاتھ رکھ کر کہہ رہے تھے کہ ” میں لینن ہوں میں ماﺅزے تنگ ہوں۔ اِن حالات میں مجھے یاد ہے کہ بہت سے معلوم اور مانوس چہروں کے بھاگنے کے بعد عبد العلیم خان نے ہی تحریک انصاف کا نان نفقہ اٹھایا اور عمران خان سے مایوس ہونے کے بعد بھی اُس کے ہسپتالوں کو فنڈنگ کرتے رہے لیکن بہت سے جغادری اور رنگ باز میدان چھوڑ کر کھسک چکے تھے ۔ اسلام آباد کے دھرنے میں اکثر ورکرزہفتے کی رات کو آتے اور اتوار کو چلے جاتے لیکن کچھ بد نصیب ایسے بھی تھے جنہیں وہاں سے گھر بچوںمیں جانا بھی نصیب نہ ہو ا ۔ سابق صوبائی وزیر ڈاکٹر یاسمین راشد صاحبہ وہاں سے حج پرچلی گئیں اور اِس کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ اُن کا پروگرام پہلے سے طے تھا جبکہ 2013 ءکا انتخاب ہارنے کے بعد ہی عمران نیازی نے معمول کے مطابق گرم بیانات اور دھرنے کے اشارے دینا شرو ع کر دیئے تھے ۔
اب اقتدار کی لاتعداد حماقتوں کے بعد ایک بار پھر پیش ِ خدمت ہے ” جیل بھرو تحریک“ جس کیلئے شاہ دولہ کے کچھ چوہے دن رات سعئی رائیگاں میں مصروف ہیں ۔ پہلی بات تویہ ہے کہ آئین کے مطابق کسی آزادپاکستانی شہری کو بغیر کسی فوجداری جرم کے فوری گرفتار نہیں کیا جا سکتاجوچیئرمین تحریک انصاف کے مطابق وہ کسی صورت نہیں کریں گے تو پھر سیاسی ورکروں کی بغیرجرم کے گرفتاری کا طریقہ کار کیا ہوگا ؟ہندوستان میں یہ کام گاندھی اور اُس کے ماننے والوں نے کیا  لوگوں نے لمبی لمبی جیلیں اورکالے پانی تک کی سزائیں کاٹیں لیکن ہندوستان 1946 ءکے انتخابات کے مینڈیٹ  دوسری جنگ عظیم کے خاتمے اور تاجدار برطانیہ سے وفاداری کے حلف کے بعد ہی وجود میں آیا۔ پہلے وقتوںمیں تو ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ پولیس ایسے ذہنی مریضوں کو پکڑ کر اُن کی جامہ تلاشی میں جیبیں خالی کر کے دور دراز کے علاقوں میںچھوڑ آتی تھی جہاں سے انہیں پیدل رسوا ہو کر گھر پہنچنا پڑتا تھا ۔ ایم آر ڈی کی تحریک میں سیاسی کارکنوں نے ضیا الحق کے عہد کی ریاست کی رٹ کو سو فیصد چیلنج کیا تھا لیکن عمران نیازی کا کہنا ہے کہ ہمارے ورکرتھانے جا کر ایس ایچ اوکو کہیں گے کہ ہمیں گرفتار کر لو اوروہ گرفتار کر لے گا مگر کس جرم میں کرے گا یہ نہیں بتایا ۔ اس کا آسان طریقہ یہی ہے کہ مقامی ٹکٹ ہولڈرز اورتنظیمی عہدیددار اپنے اپنے علاقوں میں ریاستی رٹ کو چیلنج کریں اورجیل جائیں جبکہ سیاسی ورکر ہر جیل کے باہر اپنا احتجاجی کیمپ لگائیں ۔عمران نیازی اوراُس کے رفقاءفوری طور پر اپنی ضمانتیں منسوح کروایں اور گرفتاریاں پیش کردیں ۔ اس کے بعد کا سارا کام ریاست خود کر لے گی ۔ کہانی ختم ہوچکی ہے صرف آخری کرداروں نے اپنا اپنا رول مکمل کرنا ہے یہی جیل بھرو تحریک کا آغاز اور یہی انجام ہوگا ورنہ زندگی رہی تو پھر لکھ لیں گے ۔

تبصرے بند ہیں.