عمران دار

57

وطن عزیز کو بے آئین سر زمین بنانے والے آج کل آئین پکار رہے ہیں۔ 1973 کا آئین توڑنے والوں سے 20 سال آئین بحال کرنے کا مطالبہ کرنے والے ہی ملک دشمن ٹھہرے۔ ضیا الحق کی ہلاکت کے بعد جمہوریت بحال ہوئی مگر یرغمال جمہوریت یہ سلسلہ کچھ عرصہ چلا پھر مشرف آ گئے۔ صدر زرداری کے دور حکومت میں آئین بحال ہوا۔ اس بحالی جس میں شق 58-B-2 صدر کے اسمبلی توڑنے اختیارات صدر زرداری نے خود پارلیمنٹ کو واپس کیے۔ اس شق کی عدم موجودگی کے بعد مولانا فضل الرحمن کے بقول مورچہ عدلیہ میں فٹ ہو گیا۔ سید یوسف رضا گیلانی اور میاں نوازشریف کو اسی مورچے سے نشانہ بنایا گیا۔ شوکت عزیز صدیقی نے اپنے عہدے کی قربانی دے دی مگر قوم کو پہلے سے معلوم شدہ حقائق کا اقرار کر گئے۔
جب عمران نیازی، شیخ رشید جو رشید الحق بھی رہے رشید شریف بھی اور رشید مشرف بھی رہے۔ آئین کی بات کریں عمران نیازی جن کی پہلی سفارش ضیا الحق کو ایک خاتون دوست نے کی، اس کے بعد آئی جے آئی بنانے والے حمید گل کی انگلی پکڑ کر دشت سیاست میں آئے۔ جن، کا تاثر یہ تھا کہ یہ سیاست دان نہیں سماجی ورکر ہے، کو جرنیلوں کی گود سے گود کا سفر شروع ہوا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت سے پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کی ناکام کوشش ہوئی۔ سرتوڑ کوششوں، غیر آئینی اور غیر سیاسی ہتھکنڈوں کی محنت سے بالآخر جنرل باجوہ نیازی صاحب کو حکومت دلانے میں کامیاب ہوئے۔ جس پر صدر زرداری نے کہا کہ ہم نہیں گرائیں گے تم اپنے وزن سے خود گرو گے۔ نیازی صاحب سمجھ بیٹھے کہ وہ سلیکٹڈ نہیں الیکٹڈ ہیں۔ سیاسی میدان میں بلاول بھٹو اور محترمہ مریم نواز نے ہی نیازی صاحب کو خاک چٹوا دی۔ آج آئین کی بات کرتے ہیں اپنے پونے چار سالہ دور کو دیکھ لیں کہیں آئین کی عملداری نظر نہیں آئے گی۔ جنرل باجوہ، نیازی صاحب، فیض حمید اور صاحبان کے دوسرے ادارے میں ہمنوا اپنے اقدامات کا جو صریحاً غیر آئینی تھے ایک دوسرے پر الزام رکھ رہے ہیں۔ بھارتی فلم کانٹے کے ایک منظر میں پانچ لوگ جو جرائم کرتے ہیں۔ ان میں ہمت اور اہلیت تھی جس کو منفی سرگرمیوں میں استعمال کرتے ہیں، پھر مال بنا لیتے ہیں مگر اتنے عیار، مکار اور یار مار ہوتے ہیں کہ ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتے۔ ایک دن ایک کمرے میں ایک دوسرے پہ پستول تان لیتے ہیں اور سب سے پہلے فائر کرنے کی کوشش میں پانچوں ڈھیر ہو جاتے ہیں۔ وطن عزیز میں بھی سابق دور کے سہولت کاروں اور اقتدار والوں کو ایک دوسرے پر اعتماد نہ تھا مگر غیر آئینی کاموں میں مصروف تھے یہاں تک کہ اپنی اپنی زبان کی پستول سے ایک دوسرے کو ڈھیر کر دیا۔ ایک کہاوت سب جانتے ہیں، جس میں چور کی چھترول پر وہ ماں ماں پکارتا ہے اور ماں تھانیدار کو شکریہ کہتی ہے کہ تم نے آج اس کو ماں یاد دلا دی۔ قوم شکر گزار ہے کہ حالات نے نیازی، شیخ رشید اور ان کے ہمنواو¿ں کو آئین یاد دلا دیا۔ یہ توقع رکھتے ہیں کہ قوم 2018 سے 2022 تک ان کا اقتدار بھول جائے گی اور موجودہ حکومت کے 10 ماہ یاد رکھے گی۔ حالانکہ موجودہ حکمران اتحاد ان کا بویا کاٹ رہا ہے۔ یہ موروثی سیاست کی نفی کرتے تھے ان کے اقدامات کی بدولت محترمہ مریم نواز اور بلاول بھٹو حقیقی قیادتیں بن کر سامنے آئے ہیں۔ میاں نوازشریف کی یقیناً کوئی نیکی ہے جو محترمہ مریم نواز ایک مسلم رہنما کے طور پر سامنے آئی ہیں۔ عمران دار جج کی اصطلاح نے بڑے بڑے جغادری گھما کر رکھ دیئے۔ شیخ رشید تو اپنی بد تمیزی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں، عمران نیازی یو ٹرن، فیک نیوز کی وجہ سے شہرت پا گئے مگر دوسری جانب بلاول بھٹو اور مریم نواز جو اس وقت سب سے زیادہ مقبول قیادت ہیں، نے فیک نیوز اور فیک باتیں کبھی نہیں کیں۔ یہ سب صورت حال اپنی جگہ مگر عوام کا سوال یہ نہیں کہ کون آتا ہے کون نہیں۔ ابھی وہ سوال کرتے ہیں کہ ہمیں ریلیف چاہئے، زندہ رہنے کا سامان چاہئے۔ جیل بھرو تحریک کے لیے عمران نیازی کو پیپلز پارٹی سے رجوع کر کے حوصلہ مستعار لینا چاہئے اور ویسے بھی جو کردار ہیں، جیل گئے تو جیلوں میں ایڈز اور نشہ پھیلنے کا خطرہ ہے۔
میرے سابقہ کالم ”حل کیا ہے؟ آزاد اقتدار اعلیٰ“ پر ایک دوست رحمن عمر (مانی چودھری) نے ریمارکس میں پورا کالم لکھ دیا۔ حل کیا، حل یہ کہ ریاست و حکومت اپنے عوام کو جان و مال کا تحفظ دیں۔ ہر خاص و عام کے لیے قانون ایک جیسا ہو۔ عوام پر ٹیکسوں کی بھر مار کے بجائے ریلیف دیا جائے۔ حل یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عوامی حکومت کو چلنے دیا جائے استحکام دینا چاہیے ملک کو چلنے دینا چاہیے یہ نہیں کہ کبھی کسی کا کوئی سکینڈل نکال لاو¿ کبھی عدم اعتماد لاتے رہو کبھی دھاندلی کا رونا رو کے احتجاج دھرنے ایسا کرنے سے ملک برباد ہی ہو گا۔ عوام کا فائدہ کرو صرف بھاشن کی حد تک نہ رکھو طرز حکومت کوئی بھی ہو لیکن کھل کے کیاجائے۔ عوام کو کچھ غرض نہیں بیچارے ایک وقت کے کھانے کے واندے ہوئے پڑے ہیں۔ ملک کو پُرامن بنایا جائے یہی حل ہے۔ ہماری فوج بہت تگڑی فوج ہے یہ کچھ بھی کر سکتی ہے یہ تو اس کے لئے کام ہی نہیں۔ انڈیا ہم سے سو گنا معاشی تگڑا ہو جائے پاک فوج کے ہوتے وہ خطے کا مصلی ہی رہے گا ڈرا ہوا ہی رہے گا۔ جہاں Terrorism ہو گا وہاں Tourism نہیں ہو گا۔ کچھ بھی کیا جائے لیکن عوام کا فائدہ کیا جائے یہی حل ہے۔ گھریلو روزانہ ضروریات کو بہت سستا کر دو خدارا رحم کرو۔ V8 والے کو چاہے 500 کا لیٹر دو لیکن عام عوام کا سوچو۔ چلے ہوئے کارتوسوں کو بوری میں ڈال کے کباڑیے کے سپرد کیا جائے، نئی قیادت کو لایا جائے، نئی نسل کو بھٹو کا اقتدار اور طرز حکومت دلایا جائے دکھایا جائے، بلاول بھٹو کو لایا جائے۔ اور صدر و گورنر کے عہدے ختم کیے جائیں۔ محترمہ مریم نواز کا شکریہ جنہوں نے موجودہ حالات میں عمران دار کی اصطلاح دے کر بہت سے لوگوں کے متعلق ایک لفظ میں تعریف بیان کرنے میں آسانی کر دی۔ سلیکٹڈ کے بعد عمران دار۔۔۔ مگر محترم بلاول بھٹو اور محترمہ مریم نواز عوام کو ریلیف کا بندوبست کریں قوم کو نئی قیادت فراہم کریں۔ لوگ آپ کے لیے ووٹ دے سکتے ہیں مگر مقامی سطح پر اپنی مکروہ اور ناپسندیدہ قیادت کی جگہ نئے لوگوں کو موقع دیں۔

تبصرے بند ہیں.