کنج قفس کا فواد حسن فواد

133

”کنج قفس“خود نوشت ہے نہ آپ بیتی،یہ دراصل نوحہ ہے،ایک ایسے پاکستانی کا جس نے زندگی کے حسین ترین، خواہشوں آرزوؤں تمناؤں کے شب و روز اس ملک اور قوم کی خدمت میں گزار دیے ،فواد حسن فواد جیل کی منظوم داستان لکھ کر حسرت موہانی اور شورش کاشمیری کی صفوں میں شامل ہو گئے ہیں ،وہ ادب سے لگاؤ تو رکھتے ہی تھے مگر وہ خود بھی اس قدر نستعلیق شعر کہتے ہیں اس کا اندازہ ان سے جیل میں ملاقاتوں کے دوران ہوا،وہ ایک حساس طبیعت کے علم دوست انسان، محب وطن،ادب نواز،اپنے کام میں مہارت تامہ رکھنے اور دلجمعی سے ہر کام کرنے کے عادی ہیں۔ میں ”کنج قفس“ کی تقریب رونمائی میں شامل نہ ہو سکا جس میں ملک کی ادبی،صحافتی،سیاسی شخصیات اوربیوروکریسی کی کریم کے علاوہ عام شہریوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور اپنے اپنے انداز میں انہیں خراج تحسین پیش کیا،اس شہ پارے کی تقریب رونمائی میں اتنی تعداد میں ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کی شرکت سے اندازہ ہوا کہ ایک دنیا فواد حسن فواد کی صلاحیتوں کی معترف اور ان سے قلبی لگاؤرکھتی ہے۔
”کنج قفس“ کو کچھ بھی نام دے لیں مگر یہ دراصل ایک ایسے انسان کی داستان پا بجولاں ہے جس کے لب سی دئیے گئے،زباں بند کر دی گئی،یہاں تک کہ سوچ پر بھی پہرے بٹھا دئیے گئے،تو اس مرد جری نے ہر حلقہ زنجیر کو نطق سے آشنا کر دیا،پا بجولاں رقص کر کے خود کو مولائے روم کا پیروکار ثابت کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی،قید خانے کی پابندیاں،تنہائی کا زہر،اور فراغت میسر آئی تو ایک ”تزک“ کی ترتیب و تدوین آسان ہو گئی،وہ بھی اس عالم میں جب جرم بے گناہی میں قیدو بند طویل ہو جائے،جب روزانہ الزامات کی بارش ہو رہی ہو،تفتیشی افسروں کے ایک جیسے سوالات کی بار بار بوچھاڑ ہو رہی ہو،عدالت میں آئے روز پیشیاں،وکیلوں کی جرح،سوال در سوال کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ دراز تر ہو جائے تو آزاد منش انسان قفس کو ہی وسعت دیکر کنج کو گنج بنا لیتا ہے۔
تقریب رونمائی کے شرکا نے اپنے اپنے انداز سے اس ادبی شہ پارے کی خوبصورت الفاظ میں تحسین کی مگر ان میں سے شائد ہی کوئی ایسا ہو جس نے کنج قفس میں پیش کئے گئے محسوسات کو فواد حسن فواد کی آنکھوں میں پڑھا ہو ان کی جبین بے نیاز پر لکھی تحریر کو شائد ہی کوئی معانی و مطالب دے سکا ہو،ہاں مجھے یہ موقع ملا کہ میں نے ڈیڑھ سالہ قید کے ایام میں کنج قفس کے حالات کو باقاعدہ دیکھا اور سنا۔
جبر کے موسم میں لکھی اس تحریر کو فواد حسن فواد نے فیض احمد فیض کی نیرنگی عطا کی”قفس اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو“مگر فواد نے صبا کے ترانے سننے کے بجائے صبائے قفس کو اپنی واردات قلب سننے پر مجبور کر دیا اور آخر کار قفس کو بھی کہنا پڑا کہ”لو سنو میراآفسانہ“فواد حسن فواد حادثاتی نہیں فطری ادب نواز ہیں مگر حادثات نہ ہوتے تو شاید اردو ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کو ایسی کتھا کہانی نہ میسر آتی جس میں خود نوشتی کو منظوم انداز میں پیش کرنے کا تجربہ بھی ہو،جو خود پر گزری ہے اس سے زیادہ د و ستوں کی بیوفائی،اپنوں کی بے اعتنائی اور حکمرانوں کی نا رسائی کا ذکر ہو اور ایسے دلنشیں انداز میں۔
یہ شہ پارہ دراصل کیمپ جیل کی بیرک نمبر پانچ کے سیل نمبر ایک کے قیدی کا نوحہ بھی ہے،جس میں شاعر نے شکوہ تو نہیں کیا مگر مصطفیٰ زیدی کے الفاظ اس کے چہرے سے عیاں تھے”میرے وطن تیری خدمت میں لے کے آیا ہوں“،طرح طرح کے طلسمات دیس دیس کے رنگ“سوال مگر یہ تھا کہ میرے وطن زندگی کا زیادہ حصہ تو میں نے اس امید پر شب و روز محنت کرتے گزار دیا وطن کے تاریک کونوں میں روشنی بکھیروں،جن آنکھوں میں امید کے دئیے بجھ چکے ہیں انہیں پھر سے روشن کروں،جس زمین سے زرخیزی چھین لی گئی ہے اس میں سبزہ و گل کے رنگ بھروں،جو بچے غربت اور جہالت کا نصیب لے کر دنیا میں آتے ہیں ان کی زندگی کو مقصد دوں،لیکن یہ کیا ہواسالہا سال کی محنت کے نتیجے میں مجھے نہ صرف وطن سے دور کرنے کی کوشش کی گئی بلکہ میرے ایثار،خلوص،امانت و دیانت پر بھی شک کیا گیا،”ہم خستہ تنوں سے محتسبو کیا مال منال کا پوچھتے ہو،جو عمر سے ہم نے بھر پایا لو سامنے لائے دیتے ہیں“اور زندگی بھر کی تپسیا کا صلہ ملا آمدن سے زیادہ اثاثوں کا الزام،آتش نے کہا تھا”جو گزری مجھ پے مت اس سے کہو ہوا سو ہوا “فواد نے تو یہ کربلا بڑی حوصلہ مندی اور جواں مردی سے بھگت لی مگر وہ جو ان کے پیارے تھے ان پر کیا گزرتی تھی جب صبح اخبارات کی سرخیاں چنگھاڑتی ہوں گی،ٹی وی سکرین پر کوئی اینکر کردار کشی کی ہر حد پھلانگ رہا ہو گا،یہ دکھ بھی راقم نے اپنے دوست اور اس کے اہل خانہ کی آنکھوں میں پنہا ں پایا۔
فواد حسن فواد نے ”کنج قفس“ کے ذریعے معاشرتی ناانصافیوں اور جبرو استبداد کے خلاف آواز بلند کر دی ہے۔فواد حسن فواد کی شاعری ایک باغی کی شاعری ہے جس نے اس نظام کے ساتھ بغاوت کی اور پھر اس کے ساتھ وہی ہوا جو ایک باغی کے ساتھ ہوتا ہے لیکن فواد حسن فواد اپنے نظریے پر کھڑا رہااس نظریے کی جو قیمت تھی وہ اس نے چکا دی اور آج وہ سرخرو ہو کر اس معاشرے میں عزت کے ساتھ کھڑا ہے۔ عام آدمی کی طرح فواد حسن فواد بھی اس کرپٹ اور حق تلفیوں پر مبنی نظام سے چھٹکارے کے خواہش مند ہیں۔ انہوں نے ”کنج قفس“ کے ذریعے اس ملک کے نظام انصاف پر کئی سوالات اٹھائے ہیں، وہ جانتے ہیں اس ملک میں انصاف کا حصول آسان کام نہیں،وہ جانتے ہیں عام آدمی انصاف کے حصول کے لیے عدالتوں کی راہداریوں کے چکر کاٹ کاٹ کر اس دنیا سے چلا جاتا ہے لیکن اسے انصاف نہیں ملتا، خود انہیں جیل سے صرف ضمانت پر رہائی کے لئے اپنی ریٹائرمنٹ تک انتظار کرنا پڑا ، جب 22ویں گریڈ کے ایک افسر کو بے گناہ ہوتے ہوئے بھی 17ماہ قید و بند کی مشکل درپیش آ سکتی ہے تو پھر عام آدمی کےلئے انصاف کا حصول ناممکن ہے۔
”کنج قفس“ میری کہانی ہے، آپ کی کہانی ہے۔ ہم لوگ چائے خانوں، چوپالوں، گھروں اور دفاتر سمیت مختلف مقامات پرملک و قوم کو درپیش مسائل اور معاشی مشکلات کے حوالے سے اندر کی بھڑاس تو نکالتے ہیں لیکن کوئی بھی شخص اس نظام سے بغاوت کرنے کی جرات نہیں کرتا، ہرکوئی دوسرے کی طرف دیکھ رہا ہے۔ فواد حسن فواد جو کر سکتے تھے کر دیا ، اب ہمیں کچھ کرنا ہوگا۔ ہم کب تک یونہی مہنگائی ، بے روز گاری، نا انصافی پر گونگے اور بہرے بن کر بے بسی کا مجسمہ بنے رہیں گے۔ ”کنج قفس“ کی صورت میں فواد حسن فواد نے تو زمینی خداﺅں کی اطاعت کرنے سے انکار کر دیا ہے،اب ہماری باری ہے۔

تبصرے بند ہیں.