بگڑی ہوئی معیشت کی کایا پلٹنے کے ازخود ماہر اور اس حوالے سے پارس سمجھے جانے والے اسحاق ڈار بھی پاکستان کی معیشت کے گنجل سلجھا نہ سکے اور تمام تر پھرتیوں اور قلابازیوں کے باوجود پاکستان ایک ایسی معاشی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے جس کا انجام سوچ کر بھی خوف آتا ہے۔ ان کا پارس جسے چھوتا ہے سونا بھی پتھر اور ڈالر بھی بپھرے ہوئے سونامی کی طرح بے قابو ہوا جا رہا ہے۔ اب متحدہ حکومتی پارٹیوں کے علاوہ مسلم لیگ ن کے اندر سے بھی ان کی معاشی ناکامی پر آوازیں اٹھ رہی ہیں لیکن ان کی انٹری نواز شریف کے ”سمدھی کارڈ“ سے ہوئی ہے۔ جس کی وجہ سے ان کو ہٹانا تو ایک طرف تنقید بھی نہیں کی جا سکتی۔ اور تو اور برادر خورد شہباز شریف نہ چاہتے ہوئے بھی اسحاق ڈار کو با امر مجبوری برداشت کر رہے ہیں۔ مفتاح اسماعیل بے ”wildcard“ انٹری تھا اس لیے دودھ سے مکھی کی طرح نکال باہر کیا گیا۔ اسحاق ڈار میں تھوڑا بہت مولا جٹ کا عنصر بھی ہے۔ جو انہیں قریب سے جانتے ہیں انہیں علم ہے کہ وہ بہت جذباتی ہیں جس کے بارے میں ان کے افسران اکثر ذکر کرتے ہیں۔ اور تو اور چشم فلک نے ان کے سابقہ دور میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک رپورٹر پر محض ایک سوال پر باہر جانے کو کہا۔ اسی ذہن میں انہوں نے IMF کو بھی دھمکی دے ڈالی کہ آنا ہے تو آؤ وگرنہ بھاڑ میں جاؤ۔ جس کا جواب یہ آیا کہ IMF اب ہماری کمٹمنٹ پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ اور قرض دینے سے پہلے وہ اس کی واپسی کو یقینی بنانے کے لیے ایڈوانس اقدامات کے بعد پیسے دینے کا کہہ رہا ہے۔ ڈار صاحب نے معیشت کی اتنی سرجری کر ڈالی ہے کہ بقول مفتاح اسماعیل کے بعد میں آنے والے سوچیں گے اسے سئیں گے کیسے۔ گو کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بادشاہ (نوازشریف) کے بہت قریب ہیں لیکن لگ رہا ہے کہ اب ان کا معیشت درست کرنے کا فارمولا نہیں چلے گا اب بادشاہ سلامت کو کسی اور کو موقع دینا ہو گا۔ متحدہ حکومت اسحاق ڈار کی پیدا کردہ معاشی بدحالی سے اتنی خوفزدہ ہے کہ وہ سوچ رہے ہیں کہ اگر سپریم کورٹ کے حکم کے تحت پنجاب اور خیبر پختونخوا کے انتخابات کرانا پڑے تو عبرتناک شکست سے بہتر ہے ان انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا جائے۔ قومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات کے بائیکاٹ کے لیے اتحادیوں پر دباؤ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
سچی بات ہے کہ اگر 170 ارب روپے کا ٹیکس لگا کر، ریکارڈ مہنگائی کر کے اور پٹرول 270 کر کے بھی حالات کنٹرول نہیں ہو پا رہے تو الیکشن کا بائیکاٹ تو چھوڑیں ان کے لیے از خود جلاوطنی کا اعلان بھی بھی ممکنات میں سے ہو گا۔ میں تو ڈار صاحب سے کہوں گا اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے یہ کام چھوڑ دیں اور ”مولا خوش رکھے “ کی تھیوری پر عمل کریں۔
ان کی آسانی کےلئے مولا خوش رکھے تھیوری درج ذیل ہے۔
”مولا خوش رکھے“
بادشاہ کا ایک عزیز ترین حجام تھا۔ حجام روزانہ بادشاہ کے پاس حاضر ہوتا تھا اور دو تین گھنٹے اس کے ساتھ رہتا تھا، اس دوران بادشاہ سلطنت کے امور بھی سرانجام دیتا رہتا اور حجامت اور شیو بھی کراتا رہتا تھا۔ ایک دن نائی نے بادشاہ سے عرض کیا ”حضور میں وزیر کے مقابلے میں آپ سے زیادہ قریب ہوں، میں آپ کا وفادار بھی ہوں، آپ اس کی جگہ مجھے وزیر کیوں نہیں بنا دیتے“۔ بادشاہ مسکرایا اور اس سے کہا ”میں تمہیں وزیر بنانے کیلئے تیار ہوں لیکن تمہیں اس سے پہلے ٹیسٹ دینا ہو گا“۔ نائی نے سینے پر ہاتھ باندھ کر کہا ”آپ حکم کیجئے“۔ بادشاہ بولا ”بندرگاہ پر ایک بحری جہاز آیا ہے مجھے اس کے بارے میں معلومات لا کر دو“۔ نائی بھاگ کر بندرگاہ پر گیا اور واپس آ کر بولا ”جی جہاز وہاں کھڑا ہے“۔ بادشاہ نے پوچھا ”یہ جہاز کب آیا“۔ نائی دوبارہ سمندر کی طرف بھاگا، واپس آیا اور بتایا ”دو دن پہلے آیا“۔ بادشاہ نے کہا ”یہ بتاؤ یہ جہاز کہاں سے آیا“۔ نائی تیسری بار سمندر کی طرف بھاگا، واپس آیا تو بادشاہ نے پوچھا ”جہاز پر کیا لدا ہے“۔ نائی چوتھی بار سمندر کی طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ قصہ مختصر نائی شام تک سمندر اور محل کے چکر لگا لگا کر تھک گیا۔ اس کے بعد بادشاہ نے وزیر کو بلایا اور اس سے پوچھا ”کیا سمندر پر کوئی جہاز کھڑا ہے“۔ وزیر نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا ”جناب دو دن پہلے ایک تجارتی جہاز اٹلی سے ہماری بندرگارہ پر آیا تھا، اس میں جانور، خوراک اور کپڑا لدا ہے، اس کے کپتان کا نام یہ ہے، یہ چھ ماہ میں یہاں پہنچا، یہ چار دن مزید یہاں ٹھہرے گا، یہاں سے ایران جائے گا اور وہاں ایک ماہ رکے گا اور اس میں دو سو نو لوگ سوار ہیں اور میرا مشورہ ہے ہمیں بحری جہازوں پر ٹیکس بڑھا دینا چاہئے“۔ بادشاہ نے یہ سن کر حجام کی طرف دیکھا، حجام نے چپ چاپ اُسترا اٹھایا اور عرض کیا ”مولا خوش رکھے کلماں چھوٹیاں رکھاں کہ وڈیاں“۔
سو ڈار صاحب آپ کو بھی مولا خوش رکھے آپ بھی کسی اور کو موقع دیں جو یہ کام کرنے کا اہل ہو۔
مسلم لیگ ن کی نومولود چیف آرگنائزر مریم نواز صاحبہ کا خیال تھا کہ ابا جی نواز شریف کی مضبوط گرپ کی وجہ سے وہ مسلم لیگ کی عمارت کے ساتھ وہ جو چاہے کر گزریں گی اور کوئی چوں نہیں کرے گا۔ لیکن ایسا نہ ہوا اور ان کی چیف آرگنائزر کی کھڑکی پر سب سے پہلا غیر متوقع پتھر سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا پڑا جس سے شیشہ اور دل بھی کرچی کرچی ہو گیا۔ گو کہ بے شمار پارٹی رہنما ہاتھ میں پتھر لیے کھڑکی کا نشانہ لے کھڑے ہیں لیکن ضمیر کی آواز پر بھی ان میں پتھر مارنے کی ہمت نہیں کہ مبادا پارٹی سے نکال نہ دیے جائیں کیونکہ ان سب کا مفاد بھی پارٹی سے
وابستہ ہے اور پتھر مارنے کی ہمت کر بھی لی تو وہ پھر گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جو مسلم لیگ ن سے نکل جاتا ہے رُل جاتا ہے اور چس بھی نہیں آتی۔ جاوید ہاشمی کی مثال سامنے ہے۔ یہ نہیں کہ مسلم لیگ کوئی نظریاتی جماعت بلکہ اس لیے کہ اس لڑی میں سب کے مفاد بندھے ہوئے ہیں اور اس حمام میں سب ننگے ہیں اور ایک دوسرے کی ایچی بیچی جانتے ہیں۔ جبکہ باہر نکل کر پیپلز پارٹی رہ جاتی ہے بدقسمتی سے غلط یا صحیح اس کی ساکھ اور (Perception) ہی کرپشن ہے، دوسرے یہ سندھ کے چند اضلاع تک محدود ہے اور باقی پاکستان میں اس کا وجود رائی سے بھی کچھ کم ہے۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف ہے جس میں شاید ن لیگ کے پلرز سمجھے جانے والوں کی گنجائش نہ ہو۔ اس کے لیے بھی جاوید ہاشمی ہی بہترین مثال ہیں۔ لے دے کے پارٹی کے اندر اپوزیشن ہی ہو سکتی ہے لیکن ہر کوئی شاہد خاقان عباسی نہیں ہو سکتا اس لیے باغیوں کی بڑی تعداد ہونے کے باوجود بھی سب چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ اختلاف رکھنے والوں کاخیال تھا کہ شاید شہباز شریف ہی کوئی ہمت دکھائیں لیکن ان کی زندگی کا شاید واحد مقصد اپنے نام کے ساتھ وزیر اعظم کا سابقہ لگانا تھا جو بعد میں چاہے سابق ہی ہو جائے تاحیات ان کے نام کے ساتھ رہے گا۔ مریم نواز گروپ کے کچھ مسلم لیگی پارٹی میں مخالف آوازوں کو پارٹی کا کُوڑا کہتے ہیں لیکن جب کوڑا ڈھیر میں تبدیل ہو جائے تو اس کے تعفن سے باغ اجڑ جاتے ہیں۔ ٹوٹی کھڑکی بھی کسی شکستہ حال عمارت کی پہلی ٹوٹنے والی کھڑکی سے شروع ہوتی ہے۔ کچرے کے ڈھیر بھی ان جگہوں پر بنتے ہیں جہاں پر سب سے پہلی بار کچرا پھینکا جائے۔ ایک بلڈنگ میں کھڑکی کا شیشہ ٹوٹتا ہے لیکن اس کی مرمت نہیں کرائی جاتی اور سمجھا کہ سب اچھا ہے کیا فرق پڑتا ہے ایک شیشہ ٹوٹنے سے اس سے ایک نادانستہ پیغام گیا کہ یہ ایک معمول کی بات ہے۔ لیکن کچھ اور کھڑکیاں توڑ دی جاتی ہیں۔ اس طرح کوئی باہر والے گھس بیٹھیے اندر گھس آتے ہیں لیکن اصل مکین در بدر ہو جاتے ہیں۔ اگر ان ناراض اراکین کو کوڑا سمجھ کر باہر پھینک دیا گیا تو یاد رکھیں اگر کوئی سڑک ہے جہاں پر کچرا پھینک دیا گیا ہے اور اٹھایا نہیں گیا تو کوئی اور اس کو کچرے کی جگہ سمجھ کر کچھ اور کوڑا پھینک دے گا۔ ایم کیوایم، پی ایس پی اور ق لیگ کی مثال سامنے ہے۔ ایسی صورتحال کا آغاز پہلے غیر اہم واقعے کو نظر انداز کرنے سے ہوتا ہے اور پھر یہ ہجوم بڑھتا جاتا ہے۔ اس کا آسان حل یہ ہے کہ ٹوٹی کھڑکی کی مرمت کر دی جائے۔ کوڑا نہ بننے دیا جائے اور روز صاف ستھرائی کی جائے۔ اس سے مسئلہ بڑھے گا نہیں اور عزت دار لوگ ایسے علاقے چھوڑیں گے نہیں۔
مریم نواز کو چاہیے کہ اب بھی وقت ہے کہ ٹوٹی کھڑکیاں جوڑ دیں اور کوڑا سمیٹ لیں کیونکہ نہ تو وہ بے نظیر بھٹو ہیں اور نہ ہی ان کے ناراض ارکان پیپلز پارٹی کے انکلز۔۔۔ آپ تو ”مولا خوش رکھے“ کا آپشن بھی نہیں آزما سکتیں۔ کیونکہ ابا کی آخری امید ہے اس لیے ہوش کے ناخن لیں۔
قارئین کالم بارے اپنی رائے 03004741474 پر وٹس ایپ کر سکتے ہیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.