عالم انسانیت فتنہ دجالیت کی زد میں

100

ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ قیامت کا دن حق ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ انسان و حیوان، زمین و آسمان سمیت سارا جہان اور اس کائنات میں موجود ہر چیز فنا ہو جائے گی، صرف اور صرف اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ذات باقی رہے گی۔ روزِ قیامت پر ایمان رکھنا ہر مسلمان کا بنیادی عقیدہ ہے۔ قیامت کے بارے میں رسولِ خدا حضرت محمد مصطفیﷺ کی بتائی گئی نشانیوں اور علامتوں میں سب سے خطرناک علامت فتنہ دجال کے متعلق عرض کرنا ہے۔ جتنے بھی نبی تشریف لائے ہر ایک نے اپنی امت کو اس فتنے سے ڈرایا۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اس کی داہنی آنکھ بالکل سپاٹ ہو گی اور بائیں آنکھ انگور کی مانند ابھری ہوئی ہو گی، بال بڑے ہی گھنگھریالے ہوں گے، انتہائی بدشکل ہو گا۔ اس کی ہر چیز اس بات پر دلالت کر رہی ہو گی کہ یہ خدا نہیں، حتیٰ کہ اس کا گدھا بھی اس سے زیادہ خوبصورت ہو گا۔ تمام یہودی اس کے گرویدہ ہو جائیں گے اور اس پر ایمان لائیں گے، اللہ تعالیٰ اس کو غیر معمولی اختیارات بھی دے دے گا۔ وہ زمین سے بے حساب خزانے نکال دے گا، بارش برسائے گا اور حضرت عیسیٰ ؑ کے سوا کوئی بھی شخص اس کو قتل کرنے کی طاقت و قدرت نہیں رکھے گا۔ پوری کائنات میں وہ فساد برپا کرے گا، جنت اور دوزخ کو وہ اپنے ساتھ لیے پھرے گا، اپنے ماننے والوں کو جنت اور نا ماننے والوں کو وہ جہنم میں ڈال دے گا، لیکن درحقیقت وہ جس کو جہنم میں ڈالے گا وہ جنتی ہو گا اور جس کو جنت میں ڈالے گا وہ جہنمی ہو گا۔ اس کے فتنے سے وہی شخض بچ سکے گا جس کے ساتھ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی مدد شامل ہو گی۔ حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالیٰ اولین ہجرت کرنے والوں میں سے تھیں وہ بیان فرماتی ہیں کہ ایک روز رسولِ خدا حضرت محمد مصطفیﷺ نے سب کو نماز کے لیے جمع کیا، میں اس صف میں تھی جس میں عورتیں لوگوں کے پیچھے تھیں۔ جب آپﷺ نے نماز پڑھ لی تو منبر پر بیٹھ کر فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ میں نے تمہیں کیوں اکٹھا کیا ہے؟ صحابہؓ بولے کہ اللہ اور اس کا رسولﷺ خوب جانتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں نے تمہیں رغبت دلانے یا ڈرانے کے لیے جمع نہیں کیا بلکہ اس لیے جمع کیا کہ تمیم داری ایک نصرانی تھا، وہ آیا اور اس نے بیعت کی اور مسلمان ہوا اور مجھ سے حدیث بیان کی جو اس حدیث کے موافق ہے جو میں تم سے دجال کے بارے میں بیان کیا کرتا تھا۔ اس نے بیان کیا کہ وہ یعنی تمیم سمندر کے جہاز میں تیس آدمیوں کے ساتھ سوار ہوا جو لخم اور جذام کی قوم میں سے تھے، پس ان کے ساتھ ایک
مہینہ تک سمندر کی لہریں کھیلتی رہیں۔ پھر وہ لوگ سمندر میں ڈوبتے سورج کی طرف ایک جزیرے کے کنارے جا لگے۔ پس وہ جہاز پلوار (یعنی چھوٹی کشتی) میں بیٹھے اور جزیرے میں داخل ہو گئے وہاں ان کو ایک جانور ملا جو کہ بھاری دم، بہت بالوں والا کہ اس کا اگلا پچھلا حصہ بالوں سے معلوم نا ہوتا تھا۔ لوگوں نے اس سے کہا کہ اے کمبخت تو کیا چیز ہے؟ اس نے کہا کہ میں جساسہ ہوں۔ لوگوں نے کہا کہ جساسہ کیا؟ اس نے کہا کہ اس مرد کے پاس چلو جو دیر (عبادت گاہ) میں ہے، کہ وہ تمہاری خبر کا بہت مشتاق ہے۔ تمیم نے کہا کہ پھر ہم دوڑتے ہوئے دیر میں داخل ہو گئے۔ دیکھا تو ایک بڑے قد کا آدمی ہے کہ ہم نے اتنا بڑا آدمی اور ویسا سخت جکڑا ہوا کبھی نہیں دیکھا۔ اس کے دونوں ہاتھ گردن کے ساتھ بندھے ہوئے تھے اور دونوں زانوں سے ٹخنوں تک لوہے سے جکڑا ہوا تھا۔ ہم نے کہا کہ اے کمبخت! تو کیا چیز ہے؟ اس نے کہا تم میری خبر پر قابو پا گئے ہو، تم اپنا حال بتاؤ کہ تم کون ہو؟ لوگوں نے کہا کہ ہم عرب لوگ ہیں، سمندر میں جہاز میں سوار ہوئے تھے، لیکن جب ہم سوار ہوئے تھے تو سمندر کو جوش میں پایا پھر ایک مہینے کی مدت تک لہریں ہم سے کھیلتی رہیں، پھر ہم اس جزیرے میں آ لگے تو چھوٹی کشتی میں بیٹھ کر جزیرے میں داخل ہو گئے۔ پھر اس نے کہا کہ تم مجھے بیسان کے نخلستان کی خبر دو کہ کیا وہ پھلتا ہے؟ ہم نے کہا کہ ہاں پھلتا ہے۔ اس نے کہا کہ خبردار رہو عنقریب وہ نہ پھلے گا۔ اس نے کہا کہ مجھے طبرستان کے دریا کے بارے میں بتاؤ کہ کیا اس میں پانی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں اس میں اب بھی بہت سا پانی ہے۔ اس نے کہا کہ عنقریب اس کا پانی ختم ہو جائے گا۔ اس نے کہا کہ مجھے زغر کے چشمے کی خبر دو کہ کیا اس چشمہ میں پانی ہے اور وہاں کے لوگ اس پانی سے کھیتی کرتے ہیں؟ ہم نے کہا کہ ہاں وہاں کے لوگ اس کے پانی سے کھیتی کرتے ہیں۔ اس نے کہا کہ مجھے امین کے پیغمبر کے بارے میں خبر دو وہ کیا کر رہے ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ وہ مکہ سے نکلے ہیں اور مدینہ میں گئے ہیں۔ اس نے کہا کہ کیا عرب کے لوگ ان سے لڑے؟ ہم نے کہا، ہاں۔ اس نے کہا انہوں نے عربوں کے ساتھ کیا کیا؟ ہم نے کہا کہ وہ اپنے گرد و پیش کے عربوں پر غالب ہو گئے۔ اس نے کہا کہ یہ بات ہو چکی؟ ہم نے کہا کہ ہاں۔ اس نے کہا کہ خبردار رہو یہ بات ان کے حق میں بہتر ہے کہ وہ پیغمبر کے تابعدار ہوں۔ اور البتہ میں تم سے اپنا حال کہتا ہوں کہ میں مسیح (دجال) ہوں۔ اور البتہ وہ زمانہ قریب ہے کہ جب مجھے نکلنے کی اجازت ہو گی۔ پس میں نکلوں گا اور سیر کروں گا اور کسی بستی کو نہ چھوڑوں گا جہاں چالیس رات کے اندر نا جاؤں گا، سوائے مکہ اور طیبہ کے، کہ وہاں جانا مجھ پر حرام ہے یعنی منع ہے۔ جب میں ان دونوں بستیوں میں سے کسی کے اندر جانا چاہوں گا تو میرے آگے ایک فرشتہ بڑھ آئے گا اور اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار ہو گی، وہ مجھے اندر جانے سے روک دے گا۔ سیدہ فاطمہ ؓ نے کہا کہ پھر نبی کریمﷺ نے اپنی چھڑی منبر پر مار کر فرمایا کہ طیبہ، طیبہ یہی ہے۔ خبردار رہو بھلا میں تم کو اس حال کی خبر دے نہیں چکا ہوں؟ تو اصحاب نے کہا کہ ہاں۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ مجھے تمیم کی یہ بات اچھی لگی جو اس چیز کے موافق ہوئی جو میں نے تم لوگوں سے دجال اور مدینہ اور مکہ کے حال سے فرما دیا تھا۔ خبردار رہو کہ وہ شام اور یمن کے سمندر میں ہے؟ نہیں بلکہ وہ مشرق کی طرف ہے، وہ مشرق کی طرف ہے، وہ مشرق کی طرف ہے۔ مدینہ کے مشرق میں بحیرہ موجود ہے جس میں بنیادی طور پر چار بڑے جزیرے موجود ہیں، پہلا جزیرہ یمن میں سکوٹرا، دوسرا عمان میں مصیرہ، انڈیا میں لکشدویپ جزیرہ اور چھوتھا جو پاکستان میں آتا ہے وہ استولا جسے جزیرہ ہفت تلار بھی کہا جاتا ہے، ہفت تلار بلوچی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ایسی سات چوٹیاں ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ جڑی ہو ئی ہیں۔ اب نبی کریمﷺ کے ارشاد کے مطابق دجال نا تو شام میں ہے اور نا ہی یمن میں موجود ہے اب باقی دونوں جزیروں میں یہ بات دیکھنا پڑے گی کہ یہاں پر کوئی ایسی عبادت گاہ موجود ہو جو نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس کی جلوہ گری سے بھی پہلے کی ہو۔ تحقیق کے مطابق انڈیا کے لکشدویپ جزیرے میں کسی بھی مذہب کی کوئی بھی عبادت گاہ موجود نہیں ہے، جبکہ پاکستان کے جزیرے استولا پر حضرت خضر ؑ کی بنائی گئی مسجد اور ہندو مذہب کی دیوی کالی ماتا کا تقریباً دو ہزار سال پرانا مندر موجود ہے۔ ہندوؤں کی سب سے خوفناک اور خطرناک دیوی، جس کے جسم پر بھی بہت زیادہ بال ہیں۔ تمیم داری نے جس عجیب سی مخلوق کی بات کی تھی وہ بالکل ہندوو¿ں کی اس دیوی سے ملتی جلتی ہے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا دجال آزاد ہو چکا ہے؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ بے شک میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے گھروں کی جگہوں میں فتنے ایسے گریں گے جیسے بارش کے قطرات گرتے ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ دنیا ایک خطرناک معرکہ کی طرف رواں دواں ہے، جسے اسلام اور اہلِ کتاب میں ہرمجدون کہا گیا ہے۔ مسلمانوں اور اہلِ کتاب کے درمیان ہونے والی یہ لڑائی تاریخ کی سب سے تباہ کن اور بدترین لڑائی ہو گی۔

تبصرے بند ہیں.