جناب عمران خان ۔۔۔جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے!

46

تحریک انصاف کے قائد جناب عمران خان پچھلے چند ماہ سے تقریباً روزانہ ہی زمان پارک لاہور میں اپنی رہائش گاہ پر پارٹی کے سینئر رہنماﺅں سے خطاب کرتے ہیں وہاں سینئر صحافیوں سے ملاقات کر کے ان تک اپنے خیالات پہنچانے ، کسی ٹی وی چینل یا میڈیا کے نمائندوں کو انٹرویو دینے یا پھر ویڈیو لنک کے ذریعے عوام بالخصوص اپنے پارٹی ورکرز سے خطاب کرنے کے معمولات بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جناب عمران خان کی ہمت ، حوصلے اور سخت جانی کی داد دینی چاہئے کہ وہ اپنی زخمی ٹانگ جس پر کئی ماہ سے پلستر چڑھا ہوا ہے ، کے ساتھ "تکلیف "کی حالت میں اتنی بھرپور اور تھکا دینے والی مصروفیات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جناب عمران اس بنا پر بھی داد اور تعریف و تحسین کے مستحق گردانے جا سکتے ہیں کہ وہ "رجیم چینج”(اپنی حکومت کے خاتمے) کے اپنے روز مرہ کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے جہاں سابقہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ہدفِ تنقید بنانے اور اور تضحیک آمیز انداز میں ان کا ذکر کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں وہاں وہ یوٹرن لینے کی اپنی روایت کو بھی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اگلے دن جناب عمران خان نے اپنے ویڈیو لنک خطاب میں جو کچھ کہا ہے اسے ایک طرف اگر جنرل باجوہ پر ان کی نئی یلغار کا ابتدائیہ سمجھا جا سکتا ہے تو دوسری طرف اسے ان کے ایک نیا یو ٹرن لینے کی نادر مثال بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔
جناب عمران خان فرماتے ہیں کہ مجھے نکالنے کی سازش امریکہ سے امپورٹ نہیں بلکہ ایکسپورٹ ہوئی تھی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ سپر کنگ تھے اور سارے اختیارات ان کے پاس تھے۔ شہباز شریف ان کا فیورٹ تھا اور شہباز شریف کو وزیر اعظم بنانے کا فیصلہ جنرل باجوہ نے کر لیا تھا۔ باجوہ کے شہباز کے ساتھ قریبی تعلقات تھے، باجوہ شہباز کے تعلقات کے نتیجے میں رجیم چینج کی راہ ہموار ہوئی۔ باجوہ چاہتے تھے کہ پی ٹی آئی کی حکومت چوروں کی کرپشن معاف کر کے ان کے ساتھ مل کر کام کرے۔ آئین کسی جنرل کو بھی اختیار نہیں دیتا کہ قوم کے پیسے کی چوری کو معاف کرے۔ میرے پیچھے یہ ساڑھے تین سال لگے رہے کہ انہیں این آر او دو۔ بد قسمتی سے جنرل باجوہ نے انہیں این آر او دیا۔ جنرل باجوہ نے اب خود تسلیم کیا ہے کہ ملک کو عمران خان سے بچانا تھا، اس طرح انہوں نے میری حکومت گرائی۔
ویڈیو لنک پر جناب عمران خان کے یہ نکات اس لحاظ سے قابل غور سمجھے جا سکتے ہیں کہ گزشتہ سال مارچ میں اپنے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد وہ مسلسل یہ کہتے چلے آ رہے تھے کہ ان کی حکومت کو گرانے کی سازش امریکہ میں تیار ہوئی۔ اس ضمن میں وہ امریکہ میں تعینات سابق سفیر ڈاکٹر اسد مجید (موجودہ سیکرٹری خارجہ ) کے ایک سائفر کو بطور ثبوت پیش کرتے رہے کہ کیسے امریکی وزارت خارجہ کے ایک اہلکار
نے ایک ملاقات میں ہمارے سفیر سے میری حکومت کے بارے میں نا پسندیدگی ظاہر کرتے ہوئے امریکی ناراضی کا اظہار کیا۔ جناب عمران خان کا اپنی حکومت کے خاتمے کا امریکی سازش کا یہ موقف کب تک قائم رہا ، اس کی تفصیل میں نہیں جاتے۔ یہ سب کچھ تاریخ کا حصہ ہے تاہم اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ملک کے ایک سابق وزیر اعظم اور ملک کی ایک بڑی قومی جماعت کے سربراہ کے طور پر کیا انہیں یہ زیب دیتا تھا کہ وہ اس طرح غلط بیانی سے کام لیتے ۔ انہیں کم از کم اس بات کا ہی احساس کر لینا چاہئے تھا کہ ان کے امریکی سازش کے بر خود اختیار کر دہ اس موقف کو قومی سلامتی کمیٹی کے ایک سے زیادہ اجلاسوں میں رد ہی نہیں کر دیا گیا تھا بلکہ مقتدر حلقوں نے جناب عمران خان کے اس موقف کے بارے میں انہیںاپنے تحفظات اور خدشات سے بھی آگاہ کر دیا تھا کہ ان کے اس سازشی موقف سے قومی مفاد کو کیا کیا نقصانات ہوسکتے ہیں۔ اس کے باوجود جناب عمران خان کئی مہینوں تک اس موقف پر ڈٹے رہے اور اب وہ اس سے انحراف کر رہے ہیں تو اس کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ”جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے“۔
جناب عمران خان ان دنوں جیسے اوپر کہا گیا ہے ، لاہور زمان پارک میں اپنی رہائشی میں قیام پذیر ہیں۔ ”قیام پذیر“ کی جگہ اگر ”قلعہ بند ہیں“ کہا جائے تو شاید زیادہ مناسب ہو گا۔ ایک طرف پولیس کے اہلکار بڑی تعداد میں زمان پارک میں جناب عمران خان کی رہائش گاہ کے نواح میں موجود ہیں تو دوسری طرف تحریک انصاف کے کارکن بھی ہمہ وقت جناب عمران خان کی رہائش گاہ کو اپنے حصار میں لیے ہوئے ہیں کہ پولیس مختلف مقدمات میں ان کی ضمانتوں کی منسوخی یا ان کی حفاظتی ضمانت کے مسترد ہو نے کی بنا پر کوئی کاروائی کرنا چاہے تو وہ اس کے راستے میں رکاوٹ بننے کے لئے آگے بڑھ سکیں۔ یہ صورتحال دیکھ کر تصور میں پرانے زمانے کی جنگوں اور غنیم کے لشکر کی طرف سے قلعہ بند دشمن کو حصار میں لینے کے مناظر گھومنے لگتے ہیں۔ دشمن فوجیں کسی ملک یا شہر پر حملہ آور ہوتیں تو اکثر اوقات میدان جنگ میں لڑی جانے والی لڑائیوں میں فتح یا شکست کے فیصلے ہو جاتے۔ بعض اوقات حملے کا نشانہ بننے والے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے کسی مضبوط قلعے میں قلعہ بند ہو جاتے۔ دشمن کا لشکر قلعے کو محاصرے میں لے کر حملہ آور ہونے کی کوشش کرتا تو قلعہ بند فریق اس کو پسپا کرنے کے لئے آگے سے اسے ایسا ہی جواب دیتا۔ یہ سلسلہ کئی کئی ماہ تک چلتا رہتا ، یہاں تک کہ غنیم کا کوئی لشکر فتحیاب ہو جاتا اور دوسرے کو شکست ہو جاتی۔
اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ دورمیں قلعہ بند ہونے اور قلعے کا محاصرہ کرنے کے ماضی کی اس طرح کی مثالوںکو منطبق نہیں کیا جا سکتا لیکن تحریک انصاف کے قائدین نے زمان پارک لاہور میں جناب عمران خان کی رہائش گاہ کو اپنے حفاظتی حصار لے رکھا ہے اس کے ساتھ جناب عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کی خبریں جو چلتی رہتی ہیں اس سے بہر کیف ماضی میں غنیم کے لشکروں کی طرف سے قلعوں کو محاصرے میں لینے اور مقابلے کرنے کا کچھ نہ کچھ تصور ضرور ابھرتا ہے۔
حکومت جناب عمران خان کی گرفتار ی کا فیصلہ کرتی ہے یا نہیں اور اگر ایسے کرتی ہے تو حکومت کا یہ اقدام کس حد تک دانشمندانہ یا نا عاقبت اندیشانہ ہو گا اس بحث میںنہیں پڑتے۔ تاہم اس حوالے سے تازہ پیش رفت یہ ہے کہ جناب عمران خان نے اپنی ممکنہ گرفتاری سے بچنے کے لئے بدھ 22 فروری سے ”جیل بھرو تحریک“ شروع کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ جناب عمران خان کا کہنا ہے کہ لاہور سے اس تحریک کا آغاز ہو گا اور پھر پاکستان کے ہر بڑے شہر تک اس کو پہنچایا جائے گا۔ حکومت کا شوق پورا کریں گے، یہ ہمیں ڈراتے ہیں کہ جیلوں میں ڈال دیں گے۔ ہم اتنی گرفتاریاں دیں گے کہ ان کے پاس جیلوں میں جگہ نہیں رہے گی۔
جناب عمران خان کی ممکنہ جیل بھرو تحریک کا کیا انجام ہوتا ہے اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن اس سے پہلے گزشتہ برس 25مئی کو ان کے لانگ مارچ کے اسلام آباد پہنچنے کا جو حشر ہوا اور بعد میں اکتوبر میں انہوں نے لاہور سے اسلام آباد تک جو لانگ مارچ شروع کیا اور وزیر آباد پہنچ کر اس کا جو المناک انجام ہوا ان سب کو سامنے رکھا جائے تو یہی کہا جا سکتا ہے،”فاعتبرو یا اولی الابصار“۔

تبصرے بند ہیں.