بری خبریں، خطرناک کا خطرناک ترین یوٹرن

11

گزشتہ دنوں سے اوپر تلے بُری خبریں آ رہی ہیں، دو عدالتوں نے عدم پیشی پر کپتان کی حفاظتی ضمانت کی درخواستیں مسترد کر دیں، پہلی درخواست بنکنگ کورٹ کی خاتون جج نے مسترد کی۔ انہوں نے کپتان کو پیشی کے لیے سہہ پہر ساڑھے تین بجے کا وقت دیا۔ انہیں آنا تھا نہ آئے ضمانت منسوخ کر دی گئی، کپتان کے وکلا بھاگم بھاگ اسلام آباد ہائیکورٹ پہنچے خوش قسمت ہیں کہ دس منٹ میں 22 فروری تک ریلیف مل گیا۔ بھاگ دوڑ کا کچھ تو فائدہ ہوا۔ دوسری درخواست لاہور ہائیکورٹ کے تین رکنی بینچ میں زیر سماعت آئی۔ وہی سوال کپتان پیش کیوں نہیں ہوئے، رٹا رٹایا جواب، ٹانگ زخمی ہے، سکیورٹی کا مسئلہ ہے، فاضل جج نے کہا ایمبولنس میں آ جائیں، آئی جی سے کہہ دیتے ہیں شام ساڑھے چھ بجے کا وقت دیا گیا۔ وکیل نے آخر وقت تک ایک ہی موقف دہرایا فیصلہ لکھتے وقت کہا ”وہ آ رہے ہیں وہ آئیں گے ان کو آنا ہے“ کپتان راستے میں ہیں صبح سے انتظار کرتے ججوں کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ انہوں نے درخواست مسترد کر دی۔ ضمانت گئی پر اَنا نہ گئی۔ یہاں بھی وکلا بھاگ کر دوسرے کمرے میں گئے دوبارہ اپیل کی جسٹس طارق سلیم نے اس بار بھی پیر (آج) کو پیشی کا حکم دے دیا۔ ”وہ اپنی خُو نہ بدلیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں“ لاہور ہائی کورٹ نے گیارہ بار عدم پیشی پر درخواست مسترد کی۔ باہر بیٹھا دل کا مریض سابق وزیر اعظم سو سے زیادہ پیشیاں بھگت کر بھی سرخرو نہ ہو سکا۔ بُری خبریں پیچھا نہیں چھوڑ رہیں۔ کپتان کے زخم 28 فروری سے قبل مندمل نہیں ہوں گے لیکن 22 فروری کے بعد کیا کریں گے۔ چنانچہ انہوں نے 22 فروری کو جیل بھرو تحریک کا اعلان کر دیا۔ چار ماہ سے زخمی ٹانگ کے ساتھ گرفتاری دیں گے یا ”اپنی قوم“ کو آگے بڑھائیں گے۔ سوچنے کے لیے دوچار دن باقی ہیں، وزیر آباد حملے میں ٹانگ ہی زخمی نہیں ہوئی اقتدار سے محرومی نے دل پر بھی چرکا لگایا ہے جو انتخابات میں دو تہائی اکثریت ملنے تک نہیں بھرے گا۔ قدیم دور کے شاعر مصحفی نے کہا تھا۔ ”مصحفی ہم تو یہ سمجھے تھے کہ ہو گا کوئی زخم، تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا“حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ رفوگر سچ بولنے پر مجبور ہوئے۔ 4 سال ملکی آئین سے کھلواڑ کرنے والوں نے کپتان کو ملک کے لیے خطرہ قرار دیتے ہوئے بیساکھیاں ہٹا لیں، پی ٹی آئی اور اس کے قائد مجروح دل کے ساتھ گھر میں بیٹھ گئے۔ محبت
کے ٹرائیکا نے انہیں آسمان اول پر پہنچا دیا تھا تاہم وقت نے کروٹ لی محبت نے نفرت کا روپ دھار لیا اور سرپرستوں نے زمین پر دے مارا، مریم نواز نے کہا بلنڈر کا اعتراف کافی نہیں حساب دینا ہو گا۔ حساب یا احتساب نہیں ہو گا۔ والد محترم بھگت چکے ہیں۔ اسلام آباد والوں کو نتائج کا ادراک ہے۔ بُری خبروں سے کپتان کی مشکلات میں اضافہ ضرور ہوا ہے۔ لیکن وہ عدالتوں میں حاضر نہیں ہوں گے۔ ان کے حامی چاہتے ہیں کہ عدالتیں زمان پارک چلی جائیں، ان کے مطابق کپتان عام آدمی نہیں، سب سے بڑی پارٹی کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔ خوش نصیب ہیں کہ عدالتیں ان کی پیشی کے لیے دو دو دن صبح سے رات تک انتظار کرتی ہیں۔ حبیب جالب نے کہا تھا ”میں ہوں آدمی زمیں کا مجھے کام ہے زمیں سے، یہ فلک پہ رہنے والے مجھے چاہیں یا نہ چاہیں“ یہاں فلک پر رہنے والے بھی انتظار کے عادی ہوتے جا رہے ہیں، پتا نہیں سیانے کہتے ہیں آئین اور قانون کپتان کے گھر کا ہے۔ آئین وہ جو کپتان کہے قانون وہ جو عالی جاہ کو سہولت دے ورنہ 20 ایف آئی آر کٹنے اور آدھی درجن یقینی قید اور نا اہلی والے مقدمات کے باوجود گزشتہ 9 ماہ سے ان کا بال بیکا نہیں ہوا۔ یعنی رول آل لا فار کپتان 20 لاکھ مقدمات ایک طرف ہمارا کپتان سب پر بھاری، کیوں نہ انہیں مستقل استثنیٰ دے دیا جائے چاہے وہ کتنے ہی سیاسی، اخلاقی یا کرپشن کے جرائم میں ملوث ہوں ایک نکتہ قابل غور، جو شخص ہولڈر (وزیر اعظم) رہا اب نہیں کیا وہ شرعی حدود سے بھی مستثنیٰ ہے؟ علما کرام اس مسئلہ پر ابھی تک مہر بلب ہیں۔
ساری کھڑکیاں بند ہو گئیں، ایک کھڑکی کھلی ہے، چنانچہ ریلیف کے لیے ہر روز وہیں دستک دیتے ہیں، وہ بھی بند ہو گئی بند ہونے جا رہی ہے۔ تب کیا کریں گے ہر راستہ گم ہو جائے گا۔ ”پھر کہاں جائیں گے اپنا کچھ ٹھکانہ کر لیں“ اہم سوال، جیل بھرو تحریک کی کال دے دی تو ضمانتوںکے لیے درخواستیں کیوں، معمولی سے خطرے پر زمان پارک کے ارد گرد فدائین کا جمگھٹا۔ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب گویا قیامت کی رات تھی صبح تک 4 کالیں دے کر کارکنوں کو بلایا گیا۔ پولیس کے فلیگ مارچ پر حکومت مخالف نعرے پورا علاقہ بند یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے۔ ”موت کا ایک دن معین ہے نیند کیوں رات بھر نہیں آتی“ کارکنوں کے ہمراہ ہار پھول پہن کر گرفتاری دیں اور سیاست کا باقی ماندہ تجربہ جیل میں حاصل کر لیں۔ یقین ہے رانا ثنا اللہ تمام سہولتیں
فراہم کریں گے۔ تصوف کی منازل طے کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ ان کی قوم بھی پیچھے نہیں رہے گی 60 سے زائد جلسوں اور لانگ مارچ کے بعد کوئی ایک تحریک تو کامیاب ہو، آئین اور قانون کی بالادستی کا درس دینے والے سابق وزیر اعظم عدالتوں میں عدم پیشی کو اپنا حق سمجھے بیٹھے ہیں، بات بات میں اسلامی ٹچ اور رول آف لا کے حوالے لیکن جب اپنے اوپر افتاد پڑی تو نبی رحمتﷺ کا قول یاد نہیں رہا کہ پچھلی امتیں اسی لیے تباہ ہوئیں کہ ان کے غریب پکڑے جاتے تھے جبکہ با اثر اور امیر اپنے اثر و رسوخ سے قید و بند سے آزاد رہتے۔ یعنی چھوٹا بند بڑے کو چھوٹ قرآنی حکم ”ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں(مفہوم) “۔ لمحہ فکریہ، کیا ہم بھی ان ہی امتوں کے راستے پر گامزن نہیں ہیں۔ ”سڑکوں پر ناچتی ہیں کنیزیں بتولؓ کی، اور تالیاں بجاتی ہے امت رسول کی“ ریاست مدینہ کی طرز پر مملکت بنانے چلے تھے ماضی کے گناہ چھپانے مشکل ہو گئے۔ ٹیریان کیس جان کو آ گیا سابق اہلیہ جمائمہ کی گواہی سامنے آ گئی۔ انہوں نے ڈیلی میل کے مضمون میں ٹیریان کو کپتان کی بیٹی تسلیم کر لیا۔ کیس کو ٹیکنیکل بنیادوں پر کب تک تاخیر کا شکار کرنے کی کوشش کی جاتی رہے گی۔ وکلا حضرات خواہ مخواہ گہنگار ہو رہے ہیں۔ شریعت میں کوئی استثنیٰ نہیں سب کو اپنے اعمال کا بوجھ خود اٹھانا پڑے گا۔ کپتان اپنے کسی عمل کو گناہ نہیں سمجھتے انہیں صرف خود مختار وزیر اعظم بننے کی خواہش ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں توڑنے کی جلدی تھی اب ان پر انتخابات کی جلدی ہے۔ 57 دن باقی رہ گئے انتظامات صفر صدر، گورنر، چیف الیکشن کمشنر چپ، سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کیس میں ضمنی انتخابات کا ذکر خیر، چیف جسٹس کے سخت ریمارکس چیف الیکشن کمشنر کو طلب کر لیا۔ چیف الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ حکومت 40 ارب دینے سے انکاری، پاک فوج کی اہلکار اور وزارت داخلہ کا اہلکار دینے سے معذرت انتخابات کیسے کرائیں، ہر طرف سے لال جھنڈی، قوت نافذہ نہیں الیکشن کیسے ہوں گے، تازہ خبر سننے کو ملی کہ 43 کے بجائے 70 ارکان کے استعفوں کی منظوری کے خلاف درخواست دائر لیکن جن سیٹوں پر الیکشن ہونے تھے پی ٹی آئی کے ارکان نے ان پر الیکشن لڑنے سے انکار کر دیا۔ قلیل مدت کے لےے چھ سات کروڑ خرچ کرنے سے فائدہ البتہ ”اتوں رولا پائی جاؤ“ یہی سیاست کا سنہری فارمولا ہے، اس سے ملک میں افراتفری، بے یقینی اور عدم استحکام میں اضافہ ہو گا، عدم استحکام پر یاد آیا کہ آئی ایم ایف کے حالیہ مذاکرات کے دوران بھی ادھر ادھر سے مذاکرات کی ناکامی کی کوششیں کی گئیں، خفیہ کالیں، رابطے کیے گئے لیکن جب حکومت نے 170 ارب کے ٹیکسوں پر مشتمل منی بجٹ پیش کیا تو اس پر کپتان آپے سے باہر ہو گئے۔ اپنی قوم سے خطاب میں فرمایا، ”گھی ہمارے دور میں 380 ارب اب 600 ارب کلو تک پہنچ گیا ہے۔ اپنے دور حکومت میں عربوں سے بنی نہیں، اب اربوں کی خواہش چین نہیں لینے دیتی۔ خدشات بجا کہ مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر دی ہے ہر چیز غریب کی پہنچ سے باہر ہو گئی لیکن اس مہنگائی میں 70 فیصد حصہ کپتان اور ان کے وزرائے خزانہ کا ہے۔ آئی ایم ایف کی 7 شرائط پر دستخط کس نے کیے تھے۔ خلاف ورزیاں کس کے دور میں ہوئیں، مہنگائی کا گراف، 2022ءمیں نہیں 2018ءمیں بلند ہونا شروع ہوا۔ پھر وہی سوال کہ قرضے اتارنے کے لیے نئے قرضے لیے گئے 47 ہزار ارب کے قرضے نہیں اترے صرف سودا کیا گیا ساڑھے تین پونے چار سال حکومت کرنے والے اب تک نہ بتا سکے کہ 24 ہزار ارب کے قرضے کہاں لگائے گئے۔ پول کھل رہے ہیں۔ آڈیوز لیک ہو رہی ہیں۔ فائلیں بن رہی ہیں انہیں پہیے لگ گئے تو مقدمات درج ہوں گے۔ ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ ادھر صدر مملکت نے منی بجٹ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔ صدر پارلیمنٹ سے منظور شدہ بجٹ کو 14 دن تک رکھ سکتے ہیں اس عرصہ میں آئی ایم ایف سے معاہدے میں تاخیر ہو گی اور ملک کی روز مرہ مشکلات میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ کسی کو پروا نہیں، برادر ملک ترکی اور شام میں حالیہ زلزلے اور آفٹر شاکس سے 37 ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے۔ ہم بغیر زلزلوں کے مہنگائی اور معاشی تباہی کے ہاتھوں مر رہے ہیں۔ دہشت گردی کا خطرہ بھی ہر لمحے سر پر منڈلاتا رہتا ہے کسی دور میں ہتھوڑا گروپ کا بڑا چرچا تھا۔ گروپ کے ارکان سوئے لوگوں کو کسی آہنی آلہ سے ضربیں لگا کر قتل کر دیا کرتے تھے۔ ہتھوڑا گروپ پر تو کسی نہ کسی طرح قابو پا لیا گیا لیکن تیس پینتیس سال بعد مہنگائی کے ہتھوڑے سے غریبوں کو ختم کیا جا رہا ہے۔ قتل کرنے والے کوئی اور نہیں اپنے ہی ہیں اور پھر وہی حالات پیدا کرنے کے لیے بغیر وسائل انتخابات کے لیے جیل بھرو تحریک سمیت مختلف نعرے دے رہے ہیں۔ کہا بھوک سے لوگ مر رہے ہیں جواب ملا الیکشن کراؤ پوچھا الیکشن کے بعد مہنگائی کے خاتمہ کے لیے کیا کریں گے۔ فرمایا الیکشن کرائیں ہمیں اقتدر میں لائیں تالی بجانے والا دوسرا ہاتھ متحرک ہو جائے، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ دوسرا ہاتھ غیر جانبدار ہے، تالی نہیں بج رہی تو غربت کہاں ختم ہو گی اقتدار کی خواہش زور پکڑ رہی ہے۔
ملک میں امڈتے سارے خطرات تشویشناک لیکن اقتدار سے محرومی کے بعد خطرناک نے پچھلے دنوں خطرناک ترین یو ٹرن لیا ہے کہ امریکا رجیم چینج میں ملوث نہیں تھا۔ بلکہ تبدیلی کی سازش اندر سے امریکا برآمد کی گئی۔ سارا بوجھ جنرل (ر) باجوہ پر ڈالتے ہوئے تحقیقات کے لیے صدر کو خط لکھ دیا۔ تحقیقات کی بات چلی تو دور تلک جائے گی۔ حضور والا پھر کیا کریں گے۔ کپتان کو خبریں دیر سے ملتی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں ان کا صابن سلو ہے۔ مگر سیانوں کا کہنا ہے کہ سائفر لہراتے ہوئے بھی انہیں علم تھا کہ امریکی سازش کا بیانیہ غلط اور مفروضہ ہے لیکن اس سازش کا انکشاف قوم یوتھ کا لہو گرم رکھنے کے لیے ضروری تھا۔ شومئی قسمت اس بیانئے نے ملک کی خارجہ پالیسی اور پاک امریکا تعلقات کو جو نقصان پہنچایا اس کا خمیازہ آئی ایم ایف کی شکل میں پورا ملک اب تک بھگت رہا ہے۔ جنرل (ر) باجوہ کا ذکر چلا تو موجودہ حالات کے تناظر میں سیانے تجزیہ کار ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے غیر جانبدار ہونے کے بعد کیا طاقت کا مرکز بدل گیا ہے یا بدل رہا ہے۔ طاقت کا گرز کس کے ہاتھ میں ہے۔ اصولاً یہ گرز پارلیمنٹ یعنی مقننہ کے پاس ہونا چاہیے لیکن پارلیمنٹ نے بقول رضا ربانی اپنے آپ کو اتنا کمزور کر لیا ہے کہ ارکان اسمبلی نئے مرکز کا خیال آتے ہی کانپنے لگتے ہیں۔ حکومت بے بس ہے۔ کپتان نے ساڑھے تین سال تک طاقت کے ایک مرکز کی سرپرستی میں حکومت کی لیکن اس کی جانب سے غیر جانبداری کے اعلان کے بعد طاقت کے ابھرتے مرکز کا سہارا لے لیا کپتان کے کارندے اور دست راست دن رات اسی مرکز کے گرد گھوم رہے ہیں۔ شاید اسی لیے پولیو زدہ حکومت کپتان پر اب تک ہاتھ ڈالنے کا فیصلہ نہیں کر سکی۔ گرفتار کر بھی لیا تو وہ ایک رات بھی جیل میں نہیں گزاریں گے۔ ملک میں افراتفری اور تباہی کا جو دور 22 فروری سے شروع ہو رہا ہے وہ اس سال ستمبر کے آخر تک جاری رہے گا۔ اس وقت تک ملک کہاں کھڑا ہو گا۔ حکم صادر ہو گیا تو الیکشن ہوں گے تاہم کھیل بگڑ رہا ہے، آنے والے دنوں کے دوران بعض ڈرامائی تبدیلیوں کا امکان ہے بہت سے نقاب اتریں گے اس کے بعد کیا ہو گا انتظار ہی کیا جا سکتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.