!معاملہ خطرناک ہے

26

بلا شبہ کسی شہر کی ترقی کا معیار کا اندازہ وہاں پر موجود گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد، کثیر المنزلہ عمارات نئی نئی اور ماڈرن ہاوسنگ سوسائٹیز اور سڑکوں کے جال کے سے لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن ترقی کو پرکھنے کے لیے کچھ اور پیمانے بھی ہیں جو ہمارے شہروں میں بالکل ہی ناپید ہیں اور افسوس اور فکر مندی کی بات یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت، بیوروکریسی اور این جی اوز حتیٰ کہ عام شہری بھی ان سے بالکل لاعلم اور غافل ہیں۔
سیاستدان اگرچہ نعرہ تو عوامی خدمت کا لگاتے ہیں لیکن شائد یہ آخری چیز ہوتی ہے جس پر ان کی توجہ ہو۔ لاکھوں روپئے تنخواہوں کی مد میں بٹورنے والے اور اس سے کہیں زائد کی مراعات حاصل کرنے والے بیوروکریٹس کی تو شائد توجہ اس طرف رہتی ہے کہ مزید فوائد کس طرح حاصل کیے جائیں۔ ہمارے شہروں اور دیہاتوں کی بہتری کے نام پر اربوں روپئے کی فنڈنگ حاصل کرنے والی این جی اوز کا کردار بھی کوئی ڈھکا چھپا نہیں۔ لیکن سب سے زیادہ افسوس اور فکر کی بات یہ ہے کہ ان عوام جن کا جینا مرنا یہیں پر ہے وہ بھی اس تباہی سے مکمل طور پر بے پرواہ ہیں جس کے دھانے پر وہ پہنچ چکے ہیں یا ان کو پہنچا دیا گیا ہے۔
ہوا، پانی اور خوراک وہ حقیقتیں ہیں کہ جن کے بغیر زندگی ہی ممکن نہیں لیکن جانے کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں یہاں کے صاحب اختیار کہ یہ چیزیں بھی ہمارے ہاں ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ ہمارے حکمران جس لاہور شہر کی ترقی کا کریڈٹ لیتے ہوئے نہیں تھکتے اس کی فضائی آلودگی کا یہ عالم ہے کہ حیرانی ہوتی ہے کہ یہاں زندگی کیونکر ممکن ہے۔ ہر قسم کی خوراک کو بالواسطہ یا بلا واسطہ صحت کے لیے ناموزوں قرار دیا جاتا ہے اور پانی جسے زندگی کی علامت سمجھا جاتا ہے اس کا عالم یہ ہے کہ وہ خطرناک بیماریاں پھیلانے کا
سبب ہے۔پانی کے شدید طور پر آلودہ اور زہریلا ہونے کے اثرات تو اپنی جگہ موجود ہیں لیکن انتہائی فکرمندی کی بات یہ ہے کہ زیر زمین پانی کا لیول بدستور گرتا چلا جا رہا ہے لیکن کوئی بھی اس بڑھتے ہوئے خطرے کی طرف توجہ دینے کے لیے تیار نہیں۔
ایک سروے کے مطابق لاہور، ملتان، ساہیوال، فیصل آباد اور گوجرانوالہ سمیت پنجاب کے کئی شہروں میں 95فیصد دستیاب پانی زہریلے پن کی حد تک آلودہ ہے جبکہ دیگر چھوٹے شہروں میں بھی یہ تناسب کم از کم 37فیصد ہے اور اس کی سب سے بڑی وجہ زیر زمین ٹینکوں (سیپٹک ٹینک) میں گھریلو فضلہ پھینکنا اور انجکشن ویل (injection well)کے زریعے صنعتی آلودہ پانی کو ٹھکانے لگانا ہے۔ ماہرین کے مطابق صرف ایک لیٹر زہریلا پانی زیر زمین سینکڑوں لیٹر صاف پانی کو آلودہ کر دیتا ہے۔ سروے کے مطابق گھریلو اور صنعتی فضلے کو گندے نالوں میں بہانے کے بجائے پچاس سے ساٹھ فٹ گہرے زیر زمین ٹینکوں میں ڈال دیا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں زیر زمین پانی بہت تیزی سے آلودہ ہوتا چلا جا رہا ہے بلکہ کئی شہروں میں تو گہرے بور کے بعد بھی پینے کے قابل پانی دستیاب نہیں۔
اگر صرف لاہور شہر کی مثال لی جائے تو بلا شبہ یہاں سڑکوں، پلوں، پلازوں اور ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی حد تک تو بہت ترقی ہوئی ہے لیکن تشویش کی بات ہے کہ اس شہر میں شائد ہی کوئی ایسی جگہ ہو جہاں زیر زمین پانی کو انسانی استعمال کے معیار کے مطابق قرار دیا جا سکے۔ لاہور کے علاقوں، ٹھوکر نیاز بیگ، موہلنوال، چوہنگ، شاہ پور کانجراں، راوی روڈاور بند روڈ میں قائم چھوٹی بڑی فیکٹریاں پانی کو آلودہ کرنے میں سب سے زیادہ کردار ادا کر رہی ہیں۔ کیونکہ ان میں زیادہ تر صنعتی فضلہ کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانے کے بجائے انجکشن ویل کا طریقہ ہی اختیار کیا جاتا ہے۔ جبکہ متعدد ہاؤسنگ سوسائٹیز کا حال بھی یہ ہے کہ انہوں نے سیوریج کو کوئی باقاعدہ نظام بنانے کے بجائے انجکشن ویل کے ذریعے ہی سیوریج کو ٹھکانے لگانے کا انتظام کر رکھا ہے۔
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ پانی کی آلودگی کے باعث پولیو، ہیپاٹائٹس اور دیگر خطرناک قسم کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ اس کے علاوہ انتہائی خطرناک بات جس پر حکمرانوں کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے وہ زیرزمین پانی کا گرتا ہوا لیول ہے۔ ماہرین کے مطابق لاہور شہر میں زیر زمین پانی کا لیول اڑھائی سے تین فٹ سالانہ گر رہا ہے۔ اس وقت لاہور شہر میں زیر زمین پانی کا لیول 160فٹ تک گر چکا ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ 2025 تک یہ لیول 230 فٹ تک چلا جائے۔
یہ وقت ہے کہ ہمارے حکمران، سیاستدان، بیوروکریٹس، این جی اوز اور عام لوگ مل کر واٹر ایمرجنسی نافذ کریں کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو اس بات کا بھر پور خطرہ موجود ہے کہ 2040 تک لاہور شہر میں استعمال کے لیے زیر زمین پانی دستیاب ہی نہ ہو۔ زیر زمین پانی کو ری چارج کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ دریا ہیں اور ہم نے ان میں گندے نالوں کا پانی اور صنعتی فضلہ پھینک پھینک کر ان کو بھی برباد کر دیا ہے، بارشوں کا سلسلہ بھی کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے اس ساری صورتحال کی سنگینی کسی بھی سطح پر محسوس نہیں کی جارہی۔ حکمران سب اچھا ہے کہ رپورٹ دے رہے ہیں، اپوزیشن کو اس بات کے علاوہ کسی بات میں دلچسپی نہیں کہ حکومت بدلے اور وہ مسند اقتدار پر براجمان ہو جائیں۔ غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور علاج معالجہ کی سہولتوں سے محروم عوام تو جیسے سوچنے سمجھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت ہی کھو چکے ہیں۔
اب تک جو ہو چکا سو ہو چکا لیکن اب چاہے عوام ہوں یا حکمران سب پر یہ بات واضع ہو جانی چاہیے کہ ملک کی ماحولیات کی ترجیح اول نمبر پر ہو گی۔ اور اگر ایسا نہ ہوا اور ہم اس سلسلہ میں بدستور مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوتے رہے تو پھر ہمیں کوئی بھی کسی بڑی تباہی سے نہیں بچا سکے گا۔

تبصرے بند ہیں.