مشرقی پاکستان ،ٹوٹا ہوا تارا

157

پاکستان کا دو ٹکڑے ہونا کسی فوری واقعہ کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ واقعات کی ایک کڑی تھی جس کا ایک مکمل پس منظر تھا ۔ اس حوالے کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ہر طرح کی آرا سامنے آئیں لیکن چند نکات ایسے ہیں جن کو کوئی بھی فراموش نہیں کرسکتا ۔ حمود الرحمن کمیشن رپورٹ کو اسی لیے جامع دستاویز مانا جاتا ہے کہ اس سے پہلے جو لکھا اور بولا گیا وہ سب اس رپورٹ میں شامل ہے ۔ واقعات کی تفصیلات اور قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اس رپورٹ کو قلمبند کرنے والوں نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت کا بھرپور مظاہرہ کیا یوں یہ ایک رہنما دستاویز بن گئی بشرطیکہ کہ کوئی ایسا سمجھنے کو تیار ہو ۔ سال 1971 کے دوران ، اس سے پہلے اور بعد میں تمام عوامل کا براہ راست مشاہدہ کرنے اور متعلقہ شخصیات سے رابطے اور انٹرویو کرنے والے معروف صحافی الطاف حسن قریشی نے اپنی تصنیف ”مشرقی پاکستان ، ٹوٹا ہوا تارا“ ایسی ہی ایک جامع دستاویز مرتب کرکے قوم کو نہ صرف واقعات سے بھرپور آگاہی دی ہے بلکہ اسے مستقبل میں وطن عزیز کو سنگین خطرات سے بچانے کے لیے صائب مشورے بھی دئیے ہیں ۔ سقوط ڈھاکہ میں پوشیدہ اسباب کے عنوان سے باب میں لکھا گیا ہے کہ “سقوط مشرقی پاکستان سے پہلا سبق یہ ملتا ہے کہ ملک کے مختلف حصوں کو جمہوری خطوط یہ منظم ہونے والی سیاسی جماعتیں ہی متحد اور ایک دوسرے سے پیوست رکھ سکتی ہیں۔قومی یکجہتی کے لیے لوگوں کی نفسیات اور ان کی خواہشات سے آگہی اوران کی مسلسل تکمیل ازبس ضروی ہے۔یہ راز بھی آشکار ہوا کہ زمینی حقیقتوں تک پہنچنے کے لیے سیاسی جماعتوں کے اندر مختلف طبقات کی نما ئندگی اور باقاعدہ انتخابات کا انعقاد لازم ہے۔ یہ بھید بھی کھلا کہ سیاسی سطح پہ مسائل کو قالین کے نیچے چھپانے کے بجائے ان پہ کھل کر تبادلہ خیال کرتے رہنے سے اصلاحی عمل جاری رہتا ہے۔مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوا ، اس کے ذمے دار زیادہ تر سیاسی ،معاشی اور انتظامی اسباب ہیں جو دونوں منطقوں کے درمیان تاریخی ،تہذیبی اور لسانی بعد سے پیدا ہوئے جن میں سیاست دانوں ،اعلیٰ سرکاری افسروں اورجرنیلوں کے رویوں نے غیرمعمولی حصہ لیا۔ ایسا معلوم ہوتا کہ آل انڈیا مسلم لیگ جس کی بنیاد ڈھاکہ میں رکھی گئی ، اس کا دوبارہ اجلاس اس عظیم تاریخی شہر میں نہ ہوا۔ یو پی کی اشرافیہ اس جماعت پہ چھائی رہی اور اس کی مرکزی قیادت کو معلوم ہی نہ ہوسکا کہ بنگال کے مسلمان کن ذہنی تبدیلیوں سے گزررہے ہیں “یقینی طور پر یہ نکتہ آج بھی پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔اگر سیاسی جماعتیں اپنی جماعتوں کو تنظیمی حوالے سے مضبوط اور متحرک نہیں رکھیں گی تو اس کے منفی اثرات خود ان پر ہی بلکہ پورے ملک پر پڑیں گے۔
المیہ ہے آج ہماری زیادہ تر جماعتیں اس حوالے سے سنگین کوتاہی کی مرتکب ہورہی ہیں۔ مسلم لیگ ن کے حوالے سے یاد آیا کہ ان دنوں تنظیمی کمزوریوں کے حوالے سے سب سے زیادہ ذکر مسلم لیگ ن کا ہورہا ہے اور اس نے1990 سے اب تک اس کوتاہی کا خمیازہ بار بار بھگتا ہے۔ مصنف کے مطابق “سانحہ مشرقی پاکستان سے دوسرا سبق یہ حاصل ہواکہ زبان اور ثقافت کو انسانی معاملات میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اور ان کا احترام اور تحفظ اہل سیاست پہ لازم آتا ہے۔ برصغیر کے مسلمان جب ایک جداگانہ وطن کی جدوجدکررہے تھے ، تو ان کے مد مقابل ہندو قوم اور ہندی زبان تھی۔سیاسی جنگ میں اردو ، مسلمانوں کے تشخص کی علامت بن کر ابھری ، جبکہ ان کی دوسری علاقائی زبانیں پس منظر میں چلی گئیں “ ۔ ہمیں آج کھلے دل سے دیکھنا ہوگا کہ خود ہمارے ہاں اس حوالے کیا ماحول ہے ؟ اگرچہ گاہے گاہے اس حوالے سے کچھ نہ کچھ فیصلے ہوتے رہتے ہیں لیکن بہت کچھ مزید کرنے کی گنجائش باقی ہے۔ اور اس عمل کو آگے بڑھانے میں کسی قسم کی سستی یا تاخیر کرنا سود مند نہیں۔ اسی باب میں نشاندہی کی گئی ہے کہ سقوط ڈھاکہ سے تیسرا سبق یہ ملا کہ انسان غربت اور و افلاس برداشت کرلیتا ہے مگر عزت نفس کی پامالی پر شدید اور فوراحتجاج کرتا ہے۔ ہمارا مشرقی بازو۔ جو فلاکت زدہ ( غربت اور مفلسی کا مارا ہوا ) تھا اور جسے مغربی بنگال نے صنعت، کاروبار اور انتظامی امور میں غلام بنا رکھا ہوا تھا۔وہ مغربی پاکستان کی طرف سے غیر معمولی توجہ اور فیاضانہ رویوں کا مستحق تھا۔ بنگال میں اکثریت مسلمانوں کی تھی ، مگر بیشتر و مسائل ہندوﺅں کے قبضے میں تھے جنہوں نے مسلم آبادی کو ہر میدان میں ذلیل و خوار کررکھا تھا۔ مشرقی بنگال پٹ سن پیدا کرتا ، مگر جوٹ تیار کرنے کے سارے کار خانے مغربی بنگال میں تھے۔ پاکستان بنا ،تو بنگال کے مسلمانوں میں امید پیدا ہوئی کہ انہیں عزت کا مقام حاصل ہوگا اور مغربی خطے کے مسلمان ان کے زخموں پہ مرہم رکھیں گے اور ان کی ترقی و خوش حالی میں بھر پور حصہ لیں گے۔مگر ان کے ابتدائی تجربات نے انہیں ا حساس دلایا کہ وہ تو مغربی پاکستان کی ایک کالونی ہیں۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ مغربی پاکستان سے زیادہ تر سرکاری افسر ایسے گئے جن کے طور طریق انگریزوں جیسے تھے اور وہ بنگالیوں سے اہانت آمیز سلوک روا رکھتے تھے۔
اس اہم ترین نکتے کو اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہمارے ہاں تمام قومیتوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔ یہاں تو ہر شہری یہ گلہ کرتا ہے کہ اشرافیہ نے بائیس کروڑ عوام کو یرغمال اور غلام بنا رکھا ہے ۔ اگر آج بھی اس حوالے سے بے تحاشا شکایات موجود ہیں تو یہ لمحہ فکریہ ہے ۔ مشرقی پاکستان کے المیے سے چوتھا سبق ابھر کر سامنے آیا کہ دستور کا اانحراف اور اس کا عدم احترام ، قومی زندگی میں بہت فساد پیدا کرتا ہے اور ایسے خطرناک موڑ آجاتے ہیں جہاں حالات قابو سے باہر ہوجاتے ہیں “ یوں تو پاکستان روز اوّل سے مختلف بحرانوں کا شکار رہا مگر آئین کی پامالی کو وتیرہ ہی بنا لیا گیا۔ مارشل لا ، نیم جمہوری حکومتیں اور آخر میں پی ٹی آئی کی شکل میں ہائبرڈ نظام کے تباہ کن تجربے کا جائزہ لیں تو اٹل حقیقت سامنے آتی ہے کہ اگر آئین پر عمل کیا جاتا تو ملک کو اس پیچیدہ صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑتا جو آج درپیش ہے ۔ ہمیں یہ بھی تسلیم کرلینا چاہیے کہ اس تباہی کے ذمہ دار افراد نہیں ، ادارے ہیں جو اپنی حاکمیت برقرار رکھنے کے لیے کسی قاعدے ، قانون کو ماننے پر تیار نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ہی نہیں ، عدالتوں نے بھی ملک کو کھائی کی جانب دھکیلنے میں کوئی کسرباقی نہیں چھوڑی ۔دعا کی جانی چاہیے کہ ہائیبرڈ تجربے کے دونوں پارٹنرز اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر باقی اداروں کو بھی گنجائش فراہم کریں کہ وہ آئین کے مطابق اپنا کام آزادی سے خود کر سکیں اور ہم خود کو معمول کا معاشرہ بنا سکیں ۔ اس حقیقت کو جتنی جلد تسلیم کرلیا گیا اتنا ہی بہتر ہوگا ورنہ ملک کا آگے بڑھنا تو دور کی بات ، سمت بھی درست نہیں ہوسکتی ۔

تبصرے بند ہیں.