یہ تو ہمیں معلوم نہیں کہ باجوڑ کے اُس بد قسمت خاندان نے سابق صدر اور چیف آف آرمی سٹاف کی طبعی موت پر کیا رد عمل دیا ہوگا، جس کا بیٹا اور نئی نویلی دلہن ڈرون حملہ کی نذر اُس وقت ہو گئے جب وہ اپنی فیملی کے ساتھ صحن میں بیٹھے خوشیاں منا رہے تھے، جن کا کل اثاثہ ایک گائے، بکری تھے، ان کا اکلوتا بیٹا ہی کماﺅ پتر تھا جو کراچی میں محنت مزدوری کر کے اپنے خاندان کا پیٹ پال رہا تھا، وہ شادی کےلئے اپنے آبائی گھر آیا اور ڈرون حملہ کی زد میں آگیا، حملہ کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ اسکی بہن بھی معذور ہو گئی،بچ جانے والے پشاور ہجرت کر گئے، اس طرح کے حملوں کی اجازت مرحوم سپہ سالار نے دے رکھی تھی، یہ ایک گھر کی کہانی نہ تھی عالمی میڈیا نے ایسے بے شمار افراد اور خاندانوں پر مشتمل متاثرین کی ڈاکومنٹری بنائی تھی جو ان ڈرون حملوں کی زد میں آکر معذور ہوئے تھے، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔ بعض ذرائع نے ڈرون حملوں میں شہید ہونے والوں کی تعداد نو سو بتائی ہے۔
مرحوم سپہ سالار کا یہ ذاتی فیصلہ ہر لحاظ سے غیراخلاقی غیر انسانی تھا،موصوف نے ہوائی اڈے امریکہ کے حوالے کرنے کی وفاداری میں انتہائی قدم اٹھا کر اپنے ہم وطنوں بالخصوص قبائلی عوام پر عرصہ حیات تنگ کئے رکھا۔ 2004 میں شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی زد میں سویلین افراد بھی آئے اور یہ آپریشن تمام ایجنسیوں تک پھیل گیا، جس کی بھاری قیمت آج بھی ادا کی جارہی ہے، جو شہری اس سے بچ نکلے انھیں زندہ حالت میں امریکہ کے حوالہ کیا گیا جس کا اعتراف بطور مصنف اپنی کتاب میں موصوف نے کیا ہے، یہ کارستانی دہشت گردی کی جنگ کی پاداش میں کی گئی جو امریکہ کے مفاد میں لڑی گئی تھی، خود کوبہادرسمجھنے والے فوجی جنرل نے انکل سام کے سارے مطالبات فوراً مان لئے جس کی شہادت امریکہ کے سیکرٹری خارجہ کولن پاول نے دی تھی، رچرڈ آرمٹیج بھی حیران تھے کہ ایٹمی ریاست کے سربراہ، جری، بہادر فوج کے سپہ سالار ایک کال پر ڈھیر کیسے ہوگئے ۔
سابق سپہ سالار جس موذی بیماری مبتلا ہوئے ، طبی ماہرین کے مطابق دنیا میں بدقسمت چند افراد ہی اسکا شکار ہوتے ہیں، جن میں سپہ سالار بھی تھے اس بیماری کا خاصہ یہ ہے کہ انسانی گوشت اعضا سے الگ ہو جاتا ہے اور یہ کام کرنا چھوڑ جاتے ہیں، اسکی دوائی بھی لاکھوں روپئے میں ملتی ہے، دونوں ہاتھوں سے مکے لہرا کر اپنی طاقت کامظاہرہ کرنے والا بستر مرگ پر بے بس پڑا تھا، چند دن پہلے دیارغیر داعی اجل ہوا۔حالانکہ انھیں عدالت عالیہ پشاور کے معزز جسٹس کی طرف سے ان کے جرائم کی پاداش میں سزائے موت سناکر انکی لاش کو ڈی چوک میں لٹکانے کا حکم بھی صادر ہواتھا، اسکی سزاکا خیر مقدم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی کیا تھا، ان کے بڑے جرائم میں، آئین شکنی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں، جبری گم شدگیاں شامل تھیں، 2013 میںاقوام متحدہ نے عوامی احتجاج کے نتیجہ میں ایک قراداد کے ذریعہ ڈرون کے استعمال پر پابندی عائد کی، اس کے بعد امریکہ نے اپنی پالیسی تبدیل کی تھی۔
قبائلی علاقہ جات میں جنگ کی آگ بھڑکانے کے بعد موصوف نے بلوچستان کا رخ کیا ڈاکٹر شازیہ مری کا کیس، اِن کے عہد کی تلخ یادوں کا مجموعہ ہے، اس سانحہ کو بہتر انداز میں حل کرنے کی بجائے انھوں نے بلوچستان کے ایک سیاسی راہنماءکو دھمکی آمیز لہجہ میں مخاطب کیااور پھر میزائل حملہ میں انھیں موت کی نیند سلا دیا جب وہ غار میں موجود تھے ، پیرانہ سالہ میں ان پر حملہ انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی تھی، کسی سے سیاسی اختلاف کا یہ مقصد نہیں ہوتا کہ اس سے مذاکرات کی بجائے طاقت کے زورسے اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا جائے، موصوف کی ارض پاک کے مغربی حصہ اور شمالی و قبائلی علاقہ جات میں لگائی گئی آگ آج تلک ٹھنڈی نہیں ہو سکی ہے، مذکورہ مقامات پر سیکورٹی فورسز کو جو ہزیمیت کا سامنا ہے اس میں بڑا کردار مرحوم سپہ سالار کی پالیسیوں کا ہی ہے۔
وفاقی دارلحکومت میں معروف لال مسجد میں آپریشن سے یوں دکھائی دیتا تھاکہ چلائی جانے والی گولیوں کی زد میں والے غیر ملکی باشندے ہیں، ناقدین کہتے ہیں کہ سابق جنرل اس آپریشن سے امریکہ اور چین کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ دہشت گردی کی جنگ میں وہ انتہائی سنجیدہ ہیں۔ تاہم عوام اب تلک یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ 12مئی 2007 کو کراچی میں قتل و غارت کا بازار گرم کر کے وہ کسے پیغام دینا چاہتے تھے؟روشنیوں کے شہر کی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ تھا جہاں ایک دن میں 300افراد دن کی روشنی میں دہشت گردوں کی گولیوں سے زخمی ہوئے اور پچاس سے زائد بے دردی سے قتل کر دیئے گئے، اس موقع پر وہ شرمناک انداز میں اپنی طاقت پر گھمنڈ کرنے کا اظہار کرتے رہے، اس عمل سے وہ اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان کو اس خطاب سے روکنا چاہتے تھے جو وہ اپنی معزولی کے بعد کراچی میں وکلاءسے کرنے کے متمنی تھے۔
بعض ناقدین کہتے ہیں کہ کارگل جنگ نے جدو جہد کشمیر کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ،سفارتی محاذ پر اس آزادی کی اس تحریک کو ناجائز کاز بنا دیا گیا، نجانے مرحوم سپہ سالار اتنی جلدی میں کیوں تھے کہ انھوں مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے {out of the Box}حل تجویز کرنے کا بیان بھی جاری کر دیا، حالانکہ مشرف ہی تھے جو2002 میں سربراہی کانفرنس کے موقع پر واجپائی سے ملاقات کے بعد ہاتھ ملائے بغیر اٹھ کر آگرہ سے چلے آئے تھے، ان کے عہد کی کشمیر پالیسی نے مجاہدین کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا تھا، اُن کے دور میں لائین آف کنٹرول پر انڈیا نے آہنی باڑ نصب کی جو عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہی نہیں بلکہ اہل کشمیر کو جیل میں بند کرنے کے مترادف بھی ہے۔
موصوف کا زوال اس وقت شروع ہوا جب انھوں نے عدلیہ کے ساتھ محاذآرائی کی، وکلاءتحریک نے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے کا موقع فراہم کیا، انکل سام نے اس موقع کو غنیمت جان کر اپنا دست شفقت بھی کھینچ لیا، جماعت اسلامی کے احتجاج نے انھیں وردی اتارنے پر مجبور کردیا یوں یہ سیاسی اورعسکری طور پر تنہا ہو گئے۔
ان کے جرائم دیگر آمروں سے زیادہ سنگین ہیں، سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ بلند کرنے کے باوجود ان کے اقدامات سے ملکی سالمیت، قومی یکجہتی،افغان پالیسی، کشمیر کاز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے،ان کی منافقانہ پالیسوں سے لگی آگ سے آج بھی دھواں اٹھ رہا ہے،محب وطن قبائل کو جو زخم انھوں نے دیئے ممکن ہے ،آنے والا وقت ان پر مرہم رکھ دے اس کا انحصار بھی ارباب اختیار اور سیکورٹی اداروں کی پالیسی پر ہے۔
جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے ایوان بالا میں ان کے لئے دعائے مغفرت سے انحراف اس لئے کیا تھا کہ ان کے جرائم کی فہرست بڑی طویل ہے ،عدالتی حکم کے باوجو قانونی سقم سے وہ دنیاوی سزا بچ کر اللہ تعالیٰ کی بڑی عدالت میں پیش ہوگئے۔ ہمارا وہم ہے کہ باجوڑ کے خاندان کے علاوہ دیگر متاثرین اگر گواہ کے طور پر رب کی عدالت میں پیش ہو گئے تو ان کا کیا حشر ہو گا، دیگر آمروں کی طرح خود ساختہ جلا وطنی کی وہاں تو کوئی سہولت انھیں میسر نہ ہوگی۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.