عمر بن عبد العزیز بن مروان بن حکم خلافت بنو امیہ کے آٹھویں خلیفہ تھے اور سلیمان بن عبدالملک کے بعد مسند خلافت پر بیٹھے۔ انہیں ان کی نیک سیرتی کے باعث پانچواں خلیفہ راشد بھی کہا جاتا ہے جبکہ آپ خلیفہ صالح کے نام سے بھی مشہور ہیں۔
آپ نے 61ھ میں مدینہ منورہ میں آنکھ کھولی۔ نام عمر بن عبد العزیز بن مروان اور ابو حفص کنیت تھی۔ آپ کی والدہ کا نام ام عاصم تھا جو عاصم بن عمر بن الخطاب کی صاحبزادی تھیں گویا حضرت عمر فاروق کی پوتی ہوئیں اس لحاظ سے آپ کی رگوں میں فاروقی خون تھا۔آپ کے والد مسلسل 21 برس مصر کے گورنر رہے۔ دولت و ثروت کی فراوانی تھی لہذا نازو نعم کے ماحول میں آپ کی پرورش ہوئی۔ جس کا اثر خلیفہ بننے تک قائم رہا۔ ان کا دل ہمیشہ اللہ تعالٰی کی عظمت اور خوف سے لبریز رہا۔ پاکیزگی نفس اور تقدس آپ کی شخصیت کا ایک نہایت ہی اہم اور خصوصی وصف تھا۔شاید اسی کے باعث مدینہ منورہ جیسے مقدس ترین شہرکی خدمت بطورگورنری بھی آپ کے حصے میں آئی،706ءتا 713ءتک کم و بیش چھ سالہ اس دورمیں مسجد نبوی کی تعمیر نو آپ کا شاندار کارنامہ ہے،جبکہ عدل و انصاف اور اہالیان مدینہ منورہ سے مہمانوں جیسے برتاؤ سے رعایاکے دل جیت لیے۔
سلیمان بن عبدالمک نے حضرت عمربن عبدالعزیزؒکواپنا جانشین مقررکیاتھالیکن آپ کو اس کی اطلاع نہیں تھی۔718ءمیں خلیفہ کے انتقال کے بعد مہر بند وصیت پر شاہی عمائدین سلطنت واراکین خاندان خلافت سے بیعت لی گئی اور جب اس لفافے کو کھولاگیاتو حضرت عمربن عبدالعزیزؒکا نام لکھاپایا۔تخت نشینی کے بعدمسجدمیں خطاب کرتے ہوئے کہاکہ کہ چاہوتوکسی اور کو اپنا حکمران بنالولیکن عوام کی اکثریت نے خوش دلی سے آپ کی خلافت کو قبول کرلیا۔
بارخلافت سے زندگی بالکلیہ تبدیل ہو گئی اور نفاست و خوش لباسی ساری کی ساری فقرو درویشی میں تبدیل ہو گئی۔خلافت کے بعد سواری کے لیے اعلی نسل کے گھوڑے پیش کیے گئے لیکن یہ کہہ کر لوٹا دیے کہ میرے لیے میرا خچر ہی کافی ہے۔سلیمان بن عبدالملک کے ترکے پر کل خاندان بنوامیہ کی نظر تھی لیکن ایک حکم شاہی کے ذریعے گزشتہ حکمران کی ساری جائدادونقد بیت المال میں جمع کرادی۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے مسند خلافت پر بیٹھتے ہی ملک میں اصلاحات کی طرف توجہ کی۔ آپ نے سب سے پہلے صوبوں کے گورنروں کے نام ایک فرمان جاری کیا۔ جس میں آپ نے اپنے عزائم سے آگاہ کیا۔آپ کا فرمان یہ تھا: تم مسافر خانے بنواؤ۔ جو مسلمان ادھر سے گزرے، اس کو ایک دن اور ایک رات مہمان ٹھیراؤ۔اس کو کھانا کھلاؤ، اس کی سواری کے چارے کا بندوبست کرو۔اگر مسافر مریض ہو تو اس کے علاج ومعالجے کی طرف توجہ دو اور سرکاری خرچ پر اس کو اس کے گھر پہنچانے کا بندوبست کرو۔ رعایا سے اچھا بر تاؤ کرو۔ خراج کے معاملے میں نرمی اختیار کرو۔ غیر آباد زمین سے خراج کا مطالبہ نہ کرو۔ اگر غیر مسلم شخص دائرہ اسلام میں داخل ہوجائے تو ا س سے جزیہ وصول نہ کرو ۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے اعلیٰ حکامِ سلطنت اور ا±مرا کا سختی سے احتساب کیا۔خراسان کے گورنر یزید بن مہلب کے ذمے بیت المال کی ایک گراں قدر رقم وجب الادا تھی، اس کو دربارِ خلافت میں طلب کر کے اس سے رقم کا مطالبہ کیا۔ اس نے رقم ادا کرنے سے انکار کر دیا۔حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے یزید بن مہلب سے کہا:”اگر تم نے رقم بیت المال میں جمع نہ کرائی تو تجھے قید کر دیا جائے گا۔ جو رقم تم نے دبارکھی ہے وہ تمھیں ہر حال میں ادا کرنی ہو گی۔ اور یہ مسلمانوں کا حق ہے اور میں اسے کسی صورت میں نہیں چھوڑ سکتا“۔ چنانچہ ٹال مٹول کرنے پر یزید بن مہلب کو جیل خانے بھجوا دیا گیا۔یزید بن مہلب کے بیٹے مخلد کو جب اس کی اطلاع ملی کہ میرے والد کوجیل بھجوا دیا گیا ہے تو وہ امیر المومنین حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے والد کی رہائی کامطالبہ کیا۔حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے فرمایا : ” میں جب تک تمھارے والد سے ایک ایک کوڑی نہ وصول کر لوں گا تمھارے والد کو نہ چھوڑوں گا کیوںکہ یہ معاملہ مسلمانوں کے حقوق کا ہے“۔
حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ سے پہلے خلفائے بنوامیہ کے دور میں بیت المال میں کچھ خرابیاں پیدا ہوگئی تھیں۔ آپ نے بیت المال کی اصلاح کے لیے کچھ اصلاحات کیں ۔آپ کے دور ِخلافت سے پہلے تمام آمدنیاں خمس ، صدقہ ایک جگہ جمع ہوتی تھیں۔ ان کا علیحدہ حساب نہیں رکھا جاتاتھا۔ آپ نے حکم دیا کہ ہر قسم کی آمدنی علیحدہ علیحدہ جمع کی جائے اور اس کاعلیحدہ حساب رکھا جائے۔ بیت المال مسلمانوں کا مشتر کہ خزانہ ہے۔ اس سے ہر مسلمان مساوی فائدہ اٹھا سکتا ہے، لیکن آپ سے پہلے شاہی خاندان کا وظیفہ مخصوص تھا۔ آپ نے اس کو کلی طور پر بند کر دیا۔ آپ سے پہلے کے خلفا،ان شعرا وا±دبا کو جو ان کی مدح میں قصیدے وغیرہ لکھتے تھے، انھیں بیت المال سے انعامات دیے جاتے تھے۔حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے یہ سب انعامات اور وظائف بند کر دیے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ سے پہلے خلفا، جب عشاءاور فجر کی نماز کے لیے مسجد میں جاتے تھے تو ایک آدمی شمع لے کر ساتھ چلتا تھا اور شمع کا خرچہ بیت المال پر پڑتا تھا۔ جمعہ کے دن اور رمضان کے مہینے میں مساجد میں خوشبو سلگائی جاتی تھی اور اس کے مصارف بھی بیت المال سے ادا کیے جاتے تھے۔ آپ نے فوراً یہ سلسلہ بالکل بند کردیا۔بیت المال کی آمدنیوں میں خمس کے پانچ مصرف متعین ہیں، جن کے علاوہ ان کو کسی دوسری جگہ صرف نہیں کی جاسکتا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ سے پہلے کے خلفا ان مصارف کا لحاظ نہیں کرتے تھے۔ مصارف میں سب سے مقدم اہل بیت ہیں، لیکن ولید اور سلیمان نے اہل بیت کو ان کے حق سے محروم کردیا تھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ جب خلیفہ ہوئے تو آپ نے خمس کو ان کے صحیح مصارف میں صرف کیا اور اہل بیت کو ان کا حق دیا۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.