کفایت شعاری اور سرکاری ملازمین

81

ایک ایسے وقت میں جب مہنگائی کے باعث عام آدمی کی زندگی اجیرن ہو چکی تو ہمیں کفایت شعاری یاد آ گئی ہے ،ہماری بھی کیا سوچ ہے کہ خاندانی سیاسی جماعتوں کی موجودگی میں جمہوریت اور الیکشن کی باتیں کر تے ہیں، گورننس عنقا ہو چکی ، بے روزگاروں کا شمار نہیں اور گڈ گورننس کی مثالیں دی جارہی ہیں ،ایسی باتوں اور کاموں پر ہنسی ہی آ سکتی ہے۔ بندہ پرور ہمیں تو ریلیف اورآسانیوں کی باتیں کرنی چاہئے ،لوگوں کی پریشانیوں کو کم کرنا ہو گا اور سہولتوں میں اضافہ کرنا ہو گا۔ دوسری طرف ،ہمارے ہاں تو سرکاری دفاتر ،تھانوں اور محکموں میں سائلوں کی بات سننے کا رواج ہی نہیں،کیوں؟پولیس اہلکار اکثر کاموں میں صرف اس لئے لوگوں کو پکڑتے ہیں کہ ان سے رشوت لی جائے ، کیوں ؟کیا ہم نے یہ بھی کبھی سوچا اور سمجھا کہ دفاتر میں سائلوں کی بات کیوں نہیں سنی جاتی؟کیا ہمارے نوے فیصد سرکاری افسر اور اہلکار اپنی تنخواوں میں گزارا کر سکتے ہیں؟خدا کے لئے ایسی کمیٹیاں بنائی جائیں جو آسانیوں اور ریلیف کی بات کریں نہ کہ انہیں اور ڈرانے کی بات کریں۔پٹرول میں تین روپے اضافے پر سیاست کرنے والے یہ کیسے سمجھ پاتے ہیں کہ غریب اپنی موٹر سائیکل میں ایک لٹر ڈلوانے کے لئے اضافی پینتیس روپے کہاں سے لائے گا؟
ہمیں مردم بیزار ایسے سرکاری افسروں کی ضرورت نہیں جن کی گردنوں میں سریا رہتا ہے،جن کے دفتروں میں پرندہ بھی پر نہ مار سکے ،ہمیں ایسے افسر چاہیے ہیں جو نامساعد حالات میں بھی لوگوں کی باتیں سننے اور انہیں ریلیف دینے کے لئے اپنے دفاتر کے دروازے کھلے رکھتے ہیں،کافی دنوں بعد مجھے پنجاب سول سیکرٹریٹ جانے کا موقع ملا تو خوشی ہوئی کہ وہاں بڑی بڑی گاڑیوں والے ارکان اسمبلی کی بجائے عام لوگوں کی سنی جارہی تھی ،سب سے زیادہ مصروف محکمہ اعلیٰ تعلیم کے سیکرٹری جاوید محمود اختر اپنا دروازہ کھولے بیٹھے تھے اور سب سے بےکار محکمہ سمجھے جانے والے محکمہ آرکائیوز اور لائبریریز کے سیکرٹری محمد عثمان انور ایک کے بعد دوسری میٹنگ میں مصروف تھے تاکہ لوگوں کی بھلائی اور پنجاب کی خدمت کی کوئی نئی سے نئی راہیں تلاش کی جائیں۔مجھے بڑا اچھا لگا کہ پنجاب کے چیف سیکرٹری زاہد اختر زمان نے صوبائی سیکرٹریوں اور فیلڈ افسروں کو اپنے اپنے ماتحت دفاتر میں ٹائمنگ ،افسروں اور اہلکاروں کی موجودگی کو یقینی بنانے کی ہدایات جاری کی ہیں جن پر پورا عمل بھی ہو رہا ہے،فیصل آباد کی خاتون کمشنر سلوت سعید تو اپنے ماتحت دفاتر اور افسروں کو باقاعدہ چیک کرتی ہیں ،گورننس اور سائلوں کی شنوائی پر انکی خاصی توجہ ہے مگر سیکرٹری اعلیٰ تعلیم کے دفتر کا رنگ ہی نرالا دیکھا ،ایک باپردہ لیکچرار خاتون آئیں ،ان کی اپیل چیف سیکرٹری منظور کر کے اسے واپس بھجوا چکے تھے اور وہ کافی عرصہ سے محکمہ کے دفاتر اور کاریڈورز کے چکر در چکر لگا رہی تھیں،سیکرٹری نے موقع پر ہی ان سے درخواست لکھوا کر ان کا کام کر دیا ، اس خاتون لیکچرار کو اور مجھے بھی یقین نہیںآ رہا تھا کہ ان کا کام ہو گیا ہے۔
بات کفایت شعاری سے شروع ہوئی تھی ، تازہ خبر یہ ہے کہ وزیر اعظم کی بنائی ہوئی 15 رکنی قومی کفایت شعاری کمیٹی نے اپنی سفارشات پیش کر دی ہیں،ایک بہت ہی نیک نام ریٹائرڈ بیوروکریٹ ناصرکھوسہ اورعائشہ پاشا کمیٹی کے سربراہ ہیں ، چاروں صوبائی چیف سیکرٹریز بھی کمیٹی میں شامل ہیں،کمیٹی کی سفارشات میں سرکاری وسائل کی بچت کیلئے اقدامات تجویز کئے گئے ہیں،یہ بھی کہا گیا ہے کہ حکمران اشرافیہ، ارکان پارلیمنٹ، ججز، جرنیل، سویلین اور فوجی افسران کو ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے جو سہولتیں اور مراعات دی جا رہی ہیں وہ بہت زیادہ حد تک ختم کر دی جائیں، یہاں تک کفایت شعاری کی بات کی گئی ہے کہ کابینہ کے حجم میں کمی کی جائے، ارکان پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈز نہ د یے جائیں اور سرکاری خزانے سے کسی کو بھی 5 لاکھ روپے ماہانہ سے زیادہ پنشن نہ دینے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز کی تنخواہوں میں 15 فیصد کمی کی جائے ، وفاقی و صوبائی سطح پر تمام وزارتوں، ڈویژنوں، محکموں، ماتحت دفاتر، خودمختار اداروں، صوبائی حکومتوں اور بیرون ملک سفارتخانوں کا موجودہ بجٹ 15 فیصد کم کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام سرکاری ملازمین، بیوروکریٹس، ججوں اورمسلح افواج کے افسران کو ایک سے زیادہ پلاٹ نہ دینے کی سفارش کی گئی ہے۔ اگر پہلے ہی ایک سے زیادہ پلاٹس الاٹ کیے گئے ہیں تو انہیں منسوخ کر کے نیلامی کرائی جائے گی۔ سی پیک کے تحت خصوصی صنعتی زونز کے علاوہ کوئی نیا گرین فیلڈ پروجیکٹ شروع نہ کیا جائے، بھرتیوں پر پابندی عائد کی جائے اور سب کیلئے سکیورٹی پروٹوکول میں کمی کی جائے۔
کمیٹی کی سفارشات کے برعکس دوسرا رخ یہ ہے کہ اگر پاکستان کے سفارتخانوں کی بات کی جائے تو دنیا بھر میں پاکستان کے 113 سفارت خانے اور قونصل خانے ہیں،وزارت خارجہ پہلے ہی اپنی کیڈر نمبرز سے کم افرادی قوت پر کام کر رہی ہے۔ ملک میں پہلے ہی بے روزگاری میں بے حد اضافہ ہے، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو باعزت روزگار کے مواقع فراہم کرے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو پا رہا، ہر حکومت آتی ہے، دعوے کرتی ہے اور چلی جاتی ہے لیکن بے روزگاری کے جن کو کوئی بھی بوتل میں بند نہیں کرتا، اس لئے کفایت شعاری کمیٹی کی طرف سے پیش کردہ تجاویز پر عمل کون کرے گا؟ ملک میں کرپشن کا راستہ روکا جائے نہ کہ سرکاری افسران کو جومراعات دی جا رہی ہیں ان کو کم کیا جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس سے مایوسی جنم لے گی ، ملک میں مزید مسائل جنم لیں گے،حکومت اور کمیٹی ارکان کو مزید سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے، جلد بازی سے کام لینا کسی بھی صورت درست نہیں ہے۔
عوام تو پہلے ہی مسائل سے دوچارہیں۔ ملک کے طول و ارض میں روزانہ لاکھوں سائلین سرکاری دفاتر میں اپنے مسائل لے کر عدالتوں میں زیر التوا کیسز کی صورتحال بھی سب کے سامنے ہے،ہمارا ملک قدرتی وسائل سے مالامال ہے، زراعت پر توجہ دی جائے تو معاشی مسائل باآسانی حل ہو سکتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے اس طرف صحیح معنوں میں توجہ نہیں دی جا رہی۔ ماضی کی حکومتوں کی اسی عدم توجہی کے باعث یہ ملک قرضوں کے اتنے بھاری بوجھ تلے دب چکا ہے جس سے نجات پانا آئندہ نسلوں کیلئے بھی آسان نظر نہیں آ رہا۔
شاید کبھی کسی نے اس طرف سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ بیورو کریسی جیسی بھی ہے وہی ملک کو صحیح معنوں میں چلا رہی ہے۔
ماضی کی تاریخ گواہ ہے کہ بہت کم ہی ایسا ہوا ہے کہ کسی سیاسی جماعت کی حکومت قائم ہوئی ہو اور اسے حزب اختلاف نے پانچ سال کا موقع دیا ہو مگر ملک چلتا رہا ،قیام پاکستان کے بعد جب ملک مسائل سے دوچار تھا تو اسی بیوروکریسی نے بہترین کام کے ذریعے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا تھا،بظاہر دیکھا جائے تو کہنے اور سننے کو تو کفایت شعاری کمیٹی کی تجاویز اچھی لگتی ہیں لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا کون ؟

تبصرے بند ہیں.