امجد اسلام امجد کے ساتھ اتنی طویل رفاقت کا تقاضا ہے میں ان کی اچانک وفات پر ان کی یاد میں ایک آدھ کالم لکھ کر گونگلوؤں سے مٹی نہ جھاڑوں ، ان کی باتوں اور یادوں پر تو کئی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں سو ساری باتیں اور یادیں ایک آدھ کالم میں کیسے سما سکتی ہیں ؟ ، اگلے روز پی ٹی وی نے ان کی یاد میں تقریباًدو گھنٹےکا لائیو پروگرام ٹیلی کاسٹ کیا ،برادرم محسن جعفر اس پروگرام کے پروڈیوسر تھے ،اس میں میرے علاوہ گلوکار حامد علی خان ، اصغر ندیم سید ، اداکار اورنگ زیب لغاری ، سہیل احمد ، توقیر ناصر ، بشری اعجاز اور خالد بٹ نے امجد اسلام امجد کے ساتھ اپنی خوبصورت اور ناقابل فراموش یادیں تازہ کیں ، ان کی لکھی ہوئی عالمی شہرت کی حامل ڈرامہ سریل وارث پر بہت گفتگو ہوئی ، امجد اسلام امجد پہلے صرف بطور شاعر مشہور تھے ڈرامہ سریل وارث نے انہیں شہرت کے اس بلند ترین مقام پر پہنچا دیا تھا جہاں سے آخری سانس تک وہ واپس نہیں پلٹے ،امجد اسلام امجد دوسروں کو خوش کرنے کے لئے یا ان کے چہروں پر مسکراہٹیں لانے کے لئے بعض اوقات اپنی ذات کو بھی اپنا نشانہ بنا لیتے تھے ، مجھے یاد ہے ایک بار ایک تقریب میں موجود لوگ ان کے ڈرامے وارث کی بہت تعریف کر رہے تھے ، امجد اسلام امجد نے وہاں ایک واقعہ سنایا “جب وہ ڈرامہ سریل لکھ رہے تھے ان کے سر میں بہت درد رہنے لگا ، وہ اپنے فیملی ڈاکٹر کے پاس گئے اسے اپنا مرض بتایا، ا±س نے کچھ میڈیسن لکھیں اور کہا ”کوشش کریں آج کل آپ کو کوئی “دماغی کام” نہ کرنا پڑے“، امجد اسلام امجد بولے ”ڈاکٹر صاحب یہ کیسے ممکن ہے میں کوئی دماغی کام نہ کروں ؟ میں تو آج کل ڈرامہ سریل وارث لکھ رہا ہوں“، ڈاکٹر بولا”وارث لکھتے رہیں بس کوئی دماغی کام نہیں کرنا “۔۔ ایک زمانے میں عطاالحق قاسمی اور امجد اسلام امجد کی جوڑی بہت مشہور تھی ، جہاں عطاالحق قاسمی کا ذکر ہوتا یہ ممکن ہی نہیں تھا وہاں امجد اسلام امجد کا نہ ہوتاہو ، کچھ لوگ دونوں کو ایک ہی شخص سمجھتے تھے ، جیسے ہمارے بھارتی موسیقاروں کلیان جی آنند جی کو لوگ ایک ہی شخص سمجھتے تھے ، ایسے ہی جڑے ہوئے ناموں میں لکشمی کانت پیارے لال اور پاکستانی موسیقار بخشی وزیر وغیرہ بھی شامل تھے، مجھے یاد ہے ایک بار ترکی میں وہاں کی ایک یونیورسٹی کے پروفیسر صاحب سے جب میرے میزبان نے بطور ایک پاکستانی ادیب میرا تعارف کروایا ا±نہوں نے مجھ سے پوچھا ”عطاالحق قاسمی امجد اسلام امجد کا کیا حال ہے ؟“، میں نے کہا”عطاالحق قاسمی کے گردے کا آپریشن ہوا ہے ، وہ شریف میڈیکل کمپلیکس میں داخل ہیں اور امجد اسلام امجد آج کل ناروے گئے ہوئے ہیں“ وہ بڑے حیران ہوئے کہنے لگے ”عطاالحق قاسمی اور امجد اسلام امجد دو لوگ ہیں؟ ، وہ انہیں ایک ہی سمجھ رہے تھے ، دس پندرہ برس پہلے دونوں کی دوستی کا یہ عالم تھا اندرون و بیرون ملک امجد اسلام امجد کو کسی تقریب یا مشاعرے میں بلایا جاتا وہ یہ شرط عائد کر دیتے عطاالحق قاسمی کو بھی بلایا جائے ، اور عطاالحق قاسمی کو بلایا جاتا وہ بھی یہ شرط رکھ دیتے امجد اسلام امجد کو بھی بلایا جائے۔۔ ایک بار عطاالحق قاسمی نے کسی تقریب میں جانے کے لئے ایسی ہی شرط رکھی تو تقریب کے میزبان نے انہیں اس شرط سے دستبردار کروانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا ”سر ہم نے کچھ خوبصورت خواتین کو بھی بلایا ہوا ہے“ قاسمی صاحب بولے ”امجد اسلام امجد پھر بھی ضروری ہے“۔۔ بعد میں اللہ جانے دونوں کی دوستی اور جوڑی کو کس کی نظر کھا گئی کہ دونوں میں احساس کے رشتے کی پہلے جیسی مضبوطی نہ رہی ، میرے خیال میں بے شمار ادیبوں اور شاعروں کو احمد ندیم قاسمی نے بھی جوڑ کے رکھا ہوا تھا ، ان کی وفات کا جہاں ہمارے ادب کو نقصان ہوا وہاں بے شمار ادیبوں اور شاعروں کو بھی ہوا ، وہ سب احمد ندیم قاسمی نامی ایک ”گھنے پیڑ “ کی چھاؤں میں اکٹھے ہو جایا کرتے تھے ، جب یہ ”پیڑ “ ہی نہ رہا سب اکٹھے کیسے رہتے ؟۔۔ امجد اسلام امجد کے جنازے میں سب سے زیادہ افسردہ عطا الحق قاسمی نظر آئے ، وہ وہیل چئیر پر تھے ، بےشمار لوگ ان سے تعزیت کر رہے تھے ، امجد اسلام امجد کی کی ایک بڑی شناخت ڈرامہ نگار کی تھی ، انہوں نے بیشمار یادگار ڈرامے لکھے ، آج کے بیشمار مشہور ڈرامہ آرٹسٹوں کی وجہ شہرت امجد اسلام امجد کے ڈرامے تھے ، مگر میں نے محسوس کیا ان کے جنازے میں کوئی قابل ذکر ڈرامہ آرٹسٹ نہیں تھا ، قلم کاروں کی بھی جتنی بڑی تعداد ہونی چاہئیے تھی ، نہیں تھی ، دور سے میں نے دیکھا جناب مجیب الرحمان شامی ، ڈاکٹر امجد ثاقب ، وصی شاہ اور رحمان فارس سوگوار کھڑے تھے ، ممکن ہے اور بہت سی نامور شخصیات ہوں جن پر میری نظر نہ پڑی ہو ، البتہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں امجد اسلام امجد اس حوالے سے بہت خوش قسمت انسان ہیں لوگوں نے ان کی زندگی میں ہی ان کی بہت قدر کی اور صرف عام لوگوں نے ہی نہیں حکومتوں نے بھی کی ، ورنہ ہمارے ہاں عمومی طور پر بڑے لوگوں کی قدر ان کے مرنے کے بعد ہی ہوتی ہے اور کچھ عرصے بعد وہ بھی ختم بھی ہو جاتی ہے ، امجد اسلام امجد کی قدروقیمت ہمیشہ رہی اور ہمیشہ رہے گی ، وہ ایسی غیر متنازعہ شخصیت تھے جو عمر بھر لوگوں میں صرف محبتیں ہی محبتیں تقسیم کرتے رہے ، کبھی کسی کے خلاف سازش نہ کی ، کبھی کسی کی کامیابی کی راہ میں دیوار نہ بنے ، کبھی کسی کی ناکامی کی خواہش نہ کی ، اپنے جونئیرز کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی ، نئے لکھنے والوں کی راہنمائی فرمائی ،کسی نے اپنی کتاب پر کوئی تبصرہ کوئی دیباچہ لکھنے کے لئے کہا ، کسی نے اپنی کتاب کی تقریب رونمائی میں گفتگو کے لئے کہا ، کسی نے اپنے گھر پر کسی ڈنر لنچ یا چائے پر مدعو کیا ، سب کا دل رکھا ، اپنی وفات سے صرف ایک روز پہلے لاہور کینٹ میں کینیڈا ٹورنٹو سے آئے ہوئے ممتاز ادیب اشفاق حسین کے اعزاز میں ثروت محی الدین کے عشائیے میں بھی وہ موجود تھے ، شعیب بن عزیز اور نیلم احمد بشیر بھی وہاں تھے ، اصغر ندیم سید نے اپنے بالکل ساتھ صوفے پر بیٹھے ہوئے امجد اسلام امجد سے پوچھا ”کیا بات ہے امجد آج تم بہت چپ چپ بہت تھکے تھکے دیکھائی دے رہے ہو ؟، وہ بولے “یار کل ہی عمرے سے واپس آیا ہوں بہت تھکا ہوا ہوں ، طبیعت سخت خراب ہے پر ثروت نے جتنی محبت سے بلایا میں انکار نہیں کر سکا۔۔ آپ اس سے اندازہ لگائیں لوگوں کے جذبات کی کس حد تک وہ قدر کرتے تھے۔ (جاری ہے)
تبصرے بند ہیں.