فیض امن میلہ۔۔۔۔

29

گزشتہ ہفتے مزدور دوست معروف انقلابی شاعر فیض احمد فیض کی 112ویں سالگرہ کے موقع پر کاسموپولیٹن کلب باغ جناح کے سبزہ زار میں ایک روزہ 32واں فیض امن میلہ کا انعقاد کیا گیا۔ اس میلہ میں ملک بھر سے نامور فنکاروں، آرٹسٹوں، لکھاریوں، اور گلوکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا جس میں عوام کی بڑی تعداد نے روایتی جوش و جزبے سے از خود شرکت کی۔ جبکہ حکومتی سرپرستی میں لاکھوں کے بجٹ سے الحمرا حال حال میں لٹریچر کے نام پر ہونے والی کیٹ واک کے مقابلے میں فیض میلے میں شرکاءکا جوش و جذبہ قابل دیدنی تھا۔ فیض کے تعارف پر بھی کتابیں لکھی جا سکتی ہیں لیکن اس میلے کے رو رواں کامریڈ فاروق طارق نے جس کاوش سے اس میلے کا انعقاد کیا ان کے حوالے سے فیض کے لیے ”مزدور دوست شاعر“ پر اکتفا کر رہا ہوں۔
سرکار کی سرپرستی میں ملک کے نامساعد معاشی حالات کے باوجود بھی کروڑوں روپے کے بجٹ سے لاہور لٹریچری فیسٹیول کا انعقاد کیا گیا۔ یہ ادبی سے زیادہ سیاسی میلہ تھا جس میں ”سپانسرز“ کے جذبات کا بھرپور خیال رکھا گیا۔ اس میں ملک بھر سے مہمانوں کو سرکار کے خرچے پر مدعو کر کے ٹھہرایا گیا۔ ایک طرف تو سرکار پائی پائی کو ترس رہی ہے اور دوسری طرف یہ عیاشیاں کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا۔ اس میلے کے ”بادنما“ حکومت سندھ و پنجاب اور وفاقی حکومت تھی یہیں سے اس کی سمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
فیض امن میلہ 1992 سے ہر سال منعقد کیا جا رہا ہے اور اس کے انعقاد میں کسی حکومتی فنڈ کی آلائش شامل نہیں ہوتی اور یہ اپنی مدد آپ کے تحت ہوا جو کہ قابل ستائش ہے۔ اور یہ ساری کاوش فاروق طارق اور ان کے دوستوں کی تھی جن میں محمد تحسین، امتیاز عالم، سیدہ دیپ، ڈاکٹر اشرف نظامی، سیمسن سلامت، روبینہ جمیل، خالد بٹ، افتخار احمد، فرخ سہیل گوئندی، طاہرہ جالب، فرخ مرغوب، کامریڈ عرفان، بابا نجمی، علامہ صدیق اظہر، خالد محمود، مزمل کاکڑ، نیاز خان، رفعت مقصود، عابدہ چوہدری، نوشی بٹ، صائمہ ضیائ، عائشہ احمد، زین العابدین، مرزا رضوان، عون جعفری، حسن منور، محمد عبداللہ، رانا مبشر، مرتضیٰ باجوہ، حسنین جمیل فریدی شامل تھے۔
ایک طرف الحمرا میں ہونے والی سرکاری سرپرستی میں لٹریچر کے نام پر کیٹ واک کو بھرپور تحفظ دیا گیا جبکہ فیض کے نام سے خوف کا یہ عالم تھا کہ پنجاب حکومت نے اس میلے کے حوالے سے لگے ”فلیکسز“ بھی اتروا دیے۔۔
فیض امن میلہ کے اعلامیہ پڑھ کر دل خوش ہو گیا اس کے آرکیٹیکٹ امتیاز عالم تھے۔ انہوں نے خوب لکھا۔ اعلامیہ کے مطابق فیض میلے کے شرکا پاکستان اور دنیا بھر میں محنت کش عوام اور مظلوم لوگوں کی ظلم و استحصال سے نجات اور ہر طرح کی طبقاتی،نسلی، صنفی، مذہبی، ماحولیاتی اور اطلاعاتی
تفریق کے خلاف جدوجہد کرنے والے انقلابیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ خاص طور پر فیض احمد فیض اور تمام روشن خیال دانشوروں کی رجعت پسندی کے خلاف اور انسانی نجات کیلئے سماج وادی نظریاتی جدوجہد کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کرتے ہیں۔
عالمی سرمایہ داری اور سامراجی مالیاتی و فوجی بالادستی کے ہاتھوں محنت کش عوام، مظلوم اقوام اور قدرت کے بڑھتے ہوئے استحصال کے ہاتھوں امیر غریب کی تفریق، ماحولیاتی بربادی، امن امان کی تباہی اور انسانی و صنفی و اقلیتی حقوق کی پامالی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ انسانیت اور قدرت کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔
خطے میں تین نیوکلیئر طاقتوں میں تصادم، ایشیا کے تابناک مستقبل کو گہنائے جارہا ہے جس سے مغربی سامراجی طاقتیں فائدہ اٹھا کر ایشیا بحرالکاہل کو ایک ممکنہ تباہ کن جنگ کا میدان بنانے جارہی ہیں جس کے خلاف ایشیا کے عوام کو متحد ہوکر اسے ایک امن کا خطہ بنانے کی جہد کرنی ہوگی۔
مذہبی انتہاپسندی، آمرانہ قوتوں کے جبر، فرقہ وارانہ تفریق اور صنفی امتیاز کے بڑھنے سے امن، انسانی یگانگت اور مساوی شرکت مسدود ہورہی ہے۔ مذہبی و قومی اقلیتوں اور عورتوں کے حقوق و مساوی شرکت کیلئے جمہوری جدوجہد ہماری بھرپور حمایت کا تقاضا کرتی ہے۔
پاکستان میں نیم سویلین و نیم فوجی ہائبرڈ آمرانہ نظام، دست نگر کرایہ خور اور مفت بر سرمایہ داری و دقیانوسی زمینداری کی زبوں حالی اور قومی سلامتی کی ریاست کے بھاری بھرکم بوجھ تلے پاکستان کے استحصال کے مارے محنت کش عوام، زوال پذیر متوسط طبقے اور محروم قومیتوں کے مظلوم عوام مہنگائی، غربت، بیروزگاری، گرتی ہوئی قوت خرید اور ریاستی جبر اور ناانصافی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔
ملکی معیشت، سیاست اور کاروبار حکومت پر امرا اور مختلف کرمنل مافیاز کے قبضے اور بورژوا سیاسی جماعتوں کی باہم بے اصولی کشمکش کے باعث جیسا کیسا نحیف آئینی و جمہوری و وفاقی اور سویلین میثاق جمہوریت تھا تلپٹ ہو کر رہ گیا ہے۔ بیشتر طبقاتی، شہری، انسانی، صنفی اور اقلیتی و قومیتی حقوق و آزادیاں پامال ہوتی چلی گئی ہیں۔ طفیلی سلامتی کی بھاری اور مفت خور ریاست اور دست نگرونحیف کرایہ خور معیشت اور مالیاتی کنگالی کے باعث پاکستان کا موجودہ بحران، باہم دست و گریباں حکمرانوں کے بس سے باہر ہوگیا ہے اور آمرانہ قوتوں کی تباہ کن مداخلت سے مملکتی انہدام (Iomplosion) کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ اس ہمہ گیر وجودی بحران کے پیش نظر درج ذیل مطالبات کیے گئے:
طبقاتی، معاشی، انسانی، شہری و سماجی حقوق بحال کئے جائیں بشمول حق روزگار، حق تعلیم، حق صحت و صاف ماحول، حق اظہار، حق تنظیم سازی بشمول لازمی ٹریڈ یونینز، سٹوڈنٹس یونینز کی بحالی، خواتین و صنفی برابری، اقلیتوں کی بطور مساوی حیثیت و شرکت، بچوں، معذوروں اور ضعیفوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ کم از کم اجرت پچاس ہزار روپے کی جائے، بیروزگاری الاﺅنس دیا جائے، بہتر تعلیم مفت اور لازمی کی جائے، بچوں سے مشقت بند کی جائے۔ خواتین کو مساوی کام کی مساوی اجرت کے ساتھ ساتھ ہر سطح پہ مساوی نمائندگی دی جائے اور پدرشاہی روایات اور جبر کا خاتمہ کیا جائے۔
سیاسی بحران کے حل کیلئے فوج کی سیاست میں مداخلت بند، عدلیہ کی مقننہ کے دائرے میں مداخلت کا خاتمہ، آزاد عدلیہ کیلئے ضروری ہے کہ ججوں کا انتخاب پارلیمینٹ دوطرفہ اتفاق سے کرے۔ایک وقت پر آزادانہ و منصفانہ انتخابات کے لئے تمام جماعتوں میں قومی اتفاق رائے پیدا کیا جائے اور جمہوری میثاق نو تشکیل دیا جائے۔ جمہوری کلچر اور رواداری کو فروغ دیا جائے۔ مذہبی و فرقہ وارانہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مسلسل اور ہر سطح پہ اس کی تمام صورتوں بشمول نظریاتی و حربی مظہر کا قلع قمع کیا جائے اور ریاست و مذہب اور تعلیم و ینیات کو علیحدہ کیا جائے اور اقلیتوں کو بطور مساوی شہری کے تسلیم کیا جائے۔ پاکستان میں شامل تمام وفاقی اکائیوں/قومیتوں کی مساویانہ، رضاکارانہ اور جمہوری شراکت داری کی بنیاد پر ایک سیکولر عوامی جمہوریہ کی قومی تشکیل نو اور شراکتی سماجی میثاق۔ کثرت میں وحدت کے اصول پر تمام زبانوں اور قومی ثقافتوں بشمول سندھی، بلوچی، پشتو، پنجابی، سرائیکی، براہوی، چترالی، کشمیری، ہند کو، گوجری، گلگتی، بلتی اور اردو کا فروغ۔ بلوچستان نو آبادی نہیں بلوچستان کا مسئلہ کا جمہوری حل تلاش کیا جائے۔ مِسنگ پرسنز کو برآمد کیا جائے اور قانون کے دائرے میں لایا جائے۔ بلوچستان کے ذرائع اور ترقی وہاں کے عوام کا حق ہے اور انکی وفاق میں مساوی و رضاکارانہ شرکت کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ خیبر پختون خوا میں تحریک طالبان اور دیگر دہشت گردوں کی واپسی تشویشناک اور قابل مذمت ہے۔ پشتون قبائلی عوام کی امن تحریک کو مین سٹیک ہولڈر کے طور پر تسلیم کیا جائے اور ریاستی تحفظ فراہم کیا جائے۔ گمشدہ نوجوانواں، سیاسی کارکنوں کو بازیاب کیا جائے۔ خطے اور ہمسایوں میں جاری پراکسی وارز ختم کی جائیں۔ پر امن بقائے باہم، امن، عدم مداخلت، باہمی تجارت اور علاقائی تعاون کو بڑھاتے ہوئے تنازعات کا پرامن حل تلاش کیا جائے اور سارک کو دوبارہ متحرک کیا جائے۔ یہ اجلاس تمام ترقی پسند، حقیقی جمہوریت دوست اور عوامی تنظیموں اور ترقی پسند دانشوروں کو محنت کش عوام کی سماجی نجات، انسانی و شہری و معاشی حقوق، امن و رواداری، انسان و ماحول دوستی اور انقلابی کایا پلٹ کے لئے مشترکہ جدوجہد کی اپیل کرتا ہے۔
قارئین کالم بارے اپنی رائے اس وٹس ایپ نمبر 03004741474 پر دے سکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.