مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے

24

جب کوئی اداکار صدا کار یا رقاصہ اپنے فن کا مظاہرہ کرتا یا کرتی ہے تو لطف اندوز ہونے والوں کے لیے یہ ایک طرح کی دعوت ہوتی ہے کہ آپ اس کی پرفارمنس پر اپنے خیالات کا اظہار کریں یا رائے دیں یہ فیڈ بیک ہی ان کی پرفارمنس کا رخ متعین کرتی ہے جسے میڈیا کی زبان میں Rating کہا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو کالم نگاری پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے کہ آپ کی تحریریں پڑھ کر آپ کے قارئین آپ کی worth کا تخمینہ لگاتے ہیں۔ میرے دوست احباب اور قارئین کا خیال ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے قومی حالات حاضرہ پر میرے کالم یکسانیت کا شکار ہو گئے ہیں جن کا مرکز و محور آئی ایم ایف ، قرضہ جات ٹیکس وصولی افراط زر اور مہنگائی جیسے موضوعات تواتر کے ساتھ دہرائے جا رہے ہیں۔ اور واقعہ یہ ہے کہ فکر معاش انسان کی ذہنی کیفیت کی عکاس ہوتی ہے جب انسان یا معاشرہ اس فکر سے آزاد ہوتا ہے تو اس کی سوچ کی پرواز اوپر اٹھتی ہے یہ ایک فطری بات ہے جب تک وہ اس orbit یا مدار سے باہر نہیں نکلتا یا نہیں نکل پاتا وہ اس کے آسیب میں گرفتار رہتا ہے ۔ شاعری ادب رومانویت سیاست سماجیات یہ ساری چیزیں بعد میں آتی ہے ۔
بابر فرید گنج شکر نے فرمایا تھا کہ دین کا پانچواں ستون روٹی ہے ۔ ماڈرن اکنامکس میں خط غربت کو Bread line کہا جاتا ہے گویا یہ وہ لکیر ہے جس پر آپ کی جسمانی بقاءکا انحصار ہے جو کہ بریڈ لائن سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر لائف لائن بن جاتی ہے اس پس منظر میں دیکھا جائے تو اس وقت ملک میں جو حالات چل رہے ہیں کوئی بھی لکھنے والا ان سے لا تعلق نہیں رہ سکتا ۔ اس کی تحریروں میں غربت وافلاس اور غذائی بحران یا قحط کی جھلک ضرور نظر آئے گی۔
اس ہفتے لاہور کے خوشحال ترین علاقے DHA-6 میں کینیڈا کی ایک عالمی فوڈ چین نے اپنے نئے فرنچائز کا افتتاح کیا ہے یہ افتتاح ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب ملک کے معاشی حالات خراب ہیں۔ اس کشمکش کی حالت میں اشیائے خورو
نوش اور مجموعی مہنگائی کی شرح 27فیصد تک پہنچ چکی ہے اس لیے ہم نے یہ سمجھا تھا کہ کافی بنانے والی نے اپنے کاروبار میں اضافے کے لیے ایک غلط قت پر ایک غلط جگہ کا انتخاب کیا ہے مگر افتتاحی تقریب پر لوگوں کے کھڑکی توڑ ہجوم کو دیکھ کر احساس ہوا کہ شاید ہماری اکنامکس اور میتھ دونوں کمزور ہیں جبکہ پاکستانی عوام کے بالائی طبقے کو کافی کمپنی ہم سے زیادہ جانتی ہے۔ اس فرنچائز میں کافی کا ایک کپ 350 روپے سے لے کر 750 روپے تک کا ہے مگر اس دن عوام نے جس طرح قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کیا وہ ہمارے لیے تجسس سے خالی نہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں یہ کون لوگ ہیں جو کافی کا ایک کپ 750 روپے میں خرید کر اس پر جی ایس ٹی کی مد میں 127 روپے ٹیکس دینے کے لیے بھی تیار ہیں جو 877 روپے کا ہو جائے گا۔ عام حالات میں اس ایک کپ کافی کی قیمت آپ کم از کم 25 افراد کو ایک کپ چائے پلا سکتے ہیں۔
ایک طرف تو ایک کپ کافی کے لیے کافی کمپنی کو 900 روپے تک ادا کرنے کے لیے قطاریں لگتی ہیں اور فاسٹ فوڈ والوں کے پاس پیسے پکڑنے کا ٹائم نہیں ہوتا جبکہ خوشحالی اور غربت کے درمیان آہنی دیوار کے دوسری طرف کے مناظر یہ ہیں کہ آٹے کے حصول کے لیے لائنیں لگی ہوئی ہیں۔
شہر کے ایک چھوٹے علاقے میں ایک ڈھابے پر ہم اکثر دیکھا کرتے تھے کہ انہوں نے بورڈ لگایا ہوا ہوتا ہے کہ مستحق افراد کے لیے مفت کھانا میسر ہے یہاں پر اکثرنا دار افراد کو مفت کھانا کھاتے دیکھا جا سکتاتھا مگر پچھلے کچھ عرصہ سے یہاں پر لائن لگنا شروع ہو چکی ہے اور جیسے جیسے مہنگائی اور غربت میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے یہاں پر لگی لائن کی لمبائی بڑھتی جا رہی ہے۔ شہر کے کچھ پبلک مقامات پر جہاں دیہاڑی دار مزدور طبقہ روزگار کے لیے روزانہ اکٹھا ہوتا ہے وہاں پر اکثر مخیر حضرات کی طرف سے کھانا تقسیم کرنے کے مناظر جو پہلے عام تھے ان میں نمایاں کمی آچکی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ کاروباری سرگرمیوں میں تنزلی کے باعث یہ مخیر حضرات آہستہ آہستہ اپنی استطاعت کھو رہے ہیں۔
اسی دوران خبریں آئیں کہ وزیراعظم نے یعنی کفایت شعاری کمیٹی تشکیل دی ہے جو سرکاری اخراجات میں کمی کے لیے پالیسی بنا رہی ہے لیکن جب اسلام آباد میں آئی ایم ایف وفد کے ساتھ مذاکرات اپنے نقطہ عروج پر تھے تو عین اس وقت وزیراعظم نے اپنی کابینہ میں مزید توسیع کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جس کے بعد کابینہ ارکان کی تعداد 83 تک پہنچ چکی ہے ۔
حکومت اپنے محصولات بڑھانے کے لیے ٹیکس نظام میں اصلاحات لانے کی بجائے غریب طبقوں پر ٹیکس بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے جس سے معاشرتی عدم مساوات ، سماجی ناہمواری اور نا انصافی میں مزید اضافہ ہو گا۔ اس وقت کی پوزیشن یہ ہے کہ ملک کا 2 فیصد طاقتور طبقہ جو پیسے کے بل بوتے پر اپنے کاروبار کے تحفظ کے لیے سیاست میں آتا ہے اور وہ ملک کی تقدیر کے فیصلے کرتا ہے اب ان کے لیے قربانی کا وقت ہے کہ وہ ملکی خزانے کو مستحکم کرنے کے لیے چندہ دیں اگر ملک بچ جائے گا تو ان کی دولت اور کاروبار کو بھی تحفظ ملے گا۔ ٹریجڈی یہ ہوئی ہے کہ ملک کا مڈل کلاس طبقہ جسے سفید پوش بھی کہتے ہیں وہ ختم ہو چکا ہے کل کے سفید پوش آج غرباءکی لائن میں دھکیل دیئے گئے ہیں یہی لوگ ہیں جومعاشی سرگرمیوں میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں یہ ایک پیداواری چین کا حصہ ہوتے ہیں اور دوسری طرف اسی طبقہ کی ضروریات کی وجہ سے ملک میں اشیاءو خدمات کی ڈیمانڈ پیدا ہوتی ہے اور معیشت کا پہیہ چلتا ہے یہی وہ طبقہ ہے جو سیاسی قیادت اور ووٹ کے ذریعے نامقبول حکومت کو گھر بھیجنے اور نئی حکومت منتخب کرنے کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے مگر افسوس یہ ہے کہ یہ طبقہ ختم ہو چکا ہے جس کی وجہ سے ملک میں کسی تحریک اٹھنے کے امکانات نہیں ہیں۔ قوم کی تقدیر اب قطاروں کی طوالت پر منحصر ہو کر رہ گئی ہے ایک طرف کولڈ کافی کے لیے قطاریں ہیں جبکہ دوسری طرف آٹے کے لیے قطاریں لگی ہیں اور تیسری طرف کھانے کی قطاریں ان سب سے لمبی ہو رہی ہیں۔

تبصرے بند ہیں.