قبل از اسلام عربوں میں ایک قبیلہ بنو حنفیہ کے نام کا ہوا کرتا تھا جنہوں نے آٹے کا ایک بت بنا رکھا تھا اور شب و روز اس کی عبادت میں مصروف رہتے، منتیں مانگتے، مرادوں کے بر آنے کی آس رکھتے، بیٹے اور بیٹیاں مانگتے، دشمن پر فتح یاب ہونے کیلئے اُس کی مدد کو حرف ِ آخر تصورکرتے اور پھر عرب میں قحط پڑ گیا تو ہر طرف بھوک کا وحشیانہ رقص شروع ہو گیا۔ لوگ بھوکوں مرنے لگے تو انہوں نے اپنے اُسی بت کو توڑ کر پکایا اور نگل گئے۔ یہ واقع تاریخ عرب میں لاتعداد مقامات پر محفوظ ہے لیکن صدیوں پرانے اس واقعہ میں آج بھی اہل ِ اقتدار کیلئے کھلی نشانیاں ہیں۔ بھوکے انسان کا کوئی مذہب، وطن، قوم، نسل یا ملت نہیں ہوتی وہ تو اُس بت کو بھی بھوک کے خوف سے نگل جاتا ہے جس کو وہ اپنا مشکل کشا سمجھ رہا ہوتا ہے۔ جانِ عزیز پاکستان ہماری آخری پناہ گاہ ہے اور روز بروز بڑھتی ہوئی غربت، بیروزگاری اور ضروریات زندگی کا قوتِ خرید سے باہر ہونا ہمیں ایک مہا بحران (Ultra Crises) کی طرف لے کر جا رہا ہے۔ مہا بحران بنیادی طور پر بہت سے بحرانوں سے مل کر ایک بحران بننے کے عمل کو کہتے ہیں اور اِس کا اشارہ میں نے مشرف دور میں کیا تھا کہ ہم ایک مہا بحران کی طرف گامزن ہیں جو کسی بھی وقت جنم لے سکتا ہے لیکن اُس وقت بھی حالات ابھی کنٹرول میں تھے کہ حکومت خطرے میں تھی لیکن ریاست کو کوئی خطرہ نہ تھا۔ پرویز مشرف اپنی زندگی کی دکان بڑھا چکے اور اب پیچھے بچ گئے ان گنت درد کے افسانے جن کو لکھنے والے بھی ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔
پاکستانی عوام دنیا کی بدقسمت عوام ہے جو اپنے سیاسی اور سرکاری قائدین سے محبت بھی کرتی ہے اور اُن کے ہاتھوں لُٹ بھی جاتی ہے۔ آئی ایم ایف ریاست ِ پاکستان کو پاکستانی عوام کے فلاحی منصوبے کیلئے قرض فراہم کرتا ہے لیکن آج تک بدقسمتی سے قرض کی رقم غبن اور چوری کر کے سوئٹزر لینڈ اور امریکہ کے بنکو ں میں رکھی گئی، جس کی زندہ مثال پاکستان سپریم کورٹ کا یوسف رضا گیلانی کو سوئس بنک کو خط لکھنے کا حکم اور اُس کی حکم عدولی تھی، جس کے نتیجے میں یوسف رضا گیلانی نے ایک وفادار غلام کی طرح وزارتِ عظمیٰ قربان کر دی لیکن سوئس بنک کو خط نہیں لکھا۔ اس قرض سے ایک اور حصہ سرمائے کے فرار کی حیثیت سے امریکہ اور یورپ کو واپس چلا جاتا ہے۔ جب بھی پاکستان کی کرنسی کی قیمت گرنے کی افواہ اڑائی جاتی ہے تو امیر لوگ اپنی دولت ڈالر میں تبدیل کرا کر امریکی اور یورپی بنکوں میں ڈیپازٹ کرا دیتے ہیں۔ اسی قرضے کا ایک اور بڑا حصہ حکمرانوں کی فضول خرچیوں پر صرف ہو جاتا ہے اور ایک حصہ ایندھن کے بڑھتے ہوئے داموں کی قیمت ادا کرنے پر چکا دیا جاتا ہے اور آخر میں بچا کچھا ایک کچھ حصہ عوامی معاشی پروگرامو ں پر صرف کر دیا جاتا ہے کہ اُن کو بھی زندہ رکھا جا سکے جن کے نام پر آئی ایم ایف کی اگلی قسط وصول کرنا ہوتی ہے۔
قرض کی ادائیگی کو جب ریاستوں کی ”اخلاقی ذمہ داری“ کے ساتھ جوڑا جاتا ہے تو اس کا مطلب کوئی جغرافیہ نہیں ہوتا بلکہ اُس ریاست میں بسنے والے چلتے پھرتے زندہ انسان ہوتے ہیں یعنی مزدور، کسان، طالب علم، درمیانہ طبقہ یعنی ڈاکٹر، انجینئرز، اساتذہ، دوسرے پروفیشنلز اور دیگر سماجی پرتیں جن سے آپ قرض کی ادائیگی کی ”اخلاقی ذمہ داری“ پوری کرنے کا مطالبہ کر رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ عوام کو تو اس میں سے کچھ ملا ہی نہیں ہوتا۔ آپ یہ رقم عوامی فلاح کے منصوبوں کے بجائے ہتھیاروں کی خریداری پر خرچ کرتے ہیں، امریکی اور سوئس بنکوں میں اپنے ذاتی اکاو¿نٹس میں بھیجتے ہیں، غلط طریقے سے خرچ کرتے ہیں، عوام کو ڈالر کی قیمت بڑھ جانے کا صرف نقصان ہوتا ہے، انہیں تو ان قرضوں سے کچھ حاصل نہیں ہوتا تو پھر وہ اس کی ادائیگی کیوں کریں؟ ایک ایسا قرض جو اشرافیہ نے عالمی سود
خوروں سے مل کر وصول اورخرچ کیا ہوتا ہے جبکہ عوام اس سے مکمل لاتعلق ہوتے ہیں، اشرافیہ اور ریاستی اداروں کی شاہ خرچیوں اور کرپشن کا سارا بوجھ عام غریب آدمی پر پڑ جاتا ہے۔ یہ کہاں کی اخلاقیات ہے کہ ان لوگوں پر ایسی کارروائی کی جائے جس کے نتیجہ میں لوگوں سے قرض ادا کرانے کی کوشش میں اُن کا خون بہانا پڑے۔ جس طرح کے ڈومینین رپبلک میں ہوا تھا۔ جہاں آئی ایم ایف کی کارروائی کا نتیجہ یہ نکلا کہ درجنوں لوگ مارے گئے اور سیکڑوں گولیوں سے زخمی ہوئے۔ جب لوگوں کے پاس دینے کیلئے کچھ نہیں ہو گا تو وہ احتجاج تو کریں گے ہی۔ کیوں کہ انہیں ایسے قرض کی ادائیگی پر مجبور کیا جا رہا ہے جو انہوں نے لیا ہی نہیں اور نہ ہی جس کا کوئی فائدہ اُن تک پہنچا۔ موجودہ حالات میں پاکستانی ریاست کو یک نکاتی ایجنڈے پر اکٹھے ہو کر باہر نکل کر عالمی سود خوروں کو قرض کی ادائیگی سے انکار کرنا ہو گا۔
موجودہ حالات میں اگرکوئی اخلاقی بات ہے تو صرف یہی کہ ان قرضوں کومنسوح کیا جائے کیونکہ اس کی ادائیگی سیاسی اور معاشی ناممکنات میں سے ہے۔ اور اس کیلئے پاکستانی عوام کو ہر حد تک جانا چاہیے۔ جس نے کہا تھا کہ ”میں آئی ایم ایف میں جانے کے بجائے خود کشی کر لوں گا“ وہ بھی انہیں کے در پر دیر سے سجدہ ریز ہو گیا جس کا سارا نقصان عام آدمی کو ہوا۔ جب اُس عاقبت نااندیش کی حکومت پر عدم ِ اعتماد ہوا تو نئی اتحادی حکومت کی بُری پالیسیوں کے نتیجہ میں ہر کوئی کہہ رہا ہے کہ یہ اڑتا تیر لینے کی کیا ضرورت تھی۔ یعنی آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کو لاوارث چھوڑ دیا جاتا؟ اس ملک پر اس سے زیادہ بُرا وقت پہلے کبھی نہیں آیا تھا۔ سفید پوش آدمی کیلئے خود کشی ایک باوقار طریقہ زندگی بچا ہے کیونکہ پاکستان کے کسی بھی سیاستدان پر اعتماد کرنے کیلئے پاکستانی عوام تیار نہیں ہے۔ پاکستانیوں کو بھوک، افلاس، ننگ، عدمِ تحفظ، زندگی بچانے والی ادویات کی عدم فراہمی اور ایک نظر نہ آنے والے دشمن سے خوفزدہ کیا جا رہا ہے۔ جب زندگی بچانے والی ادویات ریاست میں ناپید ہونا شروع ہو جائیں تو پھر یہ صرف معاشی مسئلہ نہیں رہ جاتا بلکہ یہ ایک بڑے انسانی المیے کو جنم دینے کیلئے اپنی کوکھ میں پالنا شروع کر دیتا ہے۔
پاکستان میں سیاست دانوں کے ہاتھوں اداروں کی بے توقیری روز بروز عوام کا ریاست پر اعتماد ختم کر رہی ہے جو کسی آتش فشاں پہاڑ پر گھر بنا کے بیٹھنے کے مترادف ہے لیکن کیا ہم حکمران اشرافیہ کی آسائشوں کیلئے اپنے بچوں کی ضرورتیں بھی ختم کرنے پر کسی مصلحت کا شکار ہو جائیں گے؟ پاکستانی عوام عالمی طاقتوں اور عالمی سود خوروں کے ایجنٹوں اور اِن کے معاشی ہٹ مینوں کے درمیان پھنس چکے ہیں۔ آپ جس لیڈرکا بھی نعرہ لگا رہے ہیں وہ ایک ایجنٹ ہے، ایک فراڈ ہے، ایک نوسرباز ہے اور اِس کیلئے کسی گواہ کی ضرورت نہیں پاکستان کے موجود حالات چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ اس کے ساتھ معاشی زنا بالجبر ہوا ہے ورنہ ہم تو دنیا بھر کو اناج فراہم کرنے والے لوگ تھے۔ ابھی ابھی مجھے اطلاع ملی ہے کہ اسلام آباد کی دہشت گردی کی عدالت نے ایک بج کر تیس منٹ پر عمران خان کو طلب کیا ہے لیکن مجھے یقین کامل ہے کہ وہ قیامت کی صبح تک اب گھر سے نہیں نکلے گا کیونکہ اُس کا ایجنڈہ ہی سیاسی نہیں بلکہ انارکی ہے۔ وہ کسی عدالت میں پیش نہیں ہو گا افسوس ہے ان عدالتوں پر جو ایک تندرست ہٹے کٹے کو ویڈیو لنکس کی سہولت فراہم کر رہی ہیں۔ جس نے اپنے عہدِ اقتدار میں 39 پناہ گاہوں کا بجٹ صرف 161 ملین جبکہ بنی گالہ سے اسلام آباد ہاؤس تک آنے جانے کا بجٹ 472 ملین رکھا تھا۔ آئی ایم ایف کی شرط کے تحت سرکاری افسران کے لیے اثاثے ظاہر کرنا اچھا اقدام ہے لیکن جرنیلوں، ججوں، جرنلسٹوں، مدرسوں کے ممتہن اور گدی نشینوں کو بھی اس دائرے میں لانا چاہیے تھا لیکن شاید کوئی بھی عمران خان کی طرح ”اپنے آدمیوں“ کی کرپشن کی مکمل حفاظت کرتا ہے لیکن ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ بھوک ہر طرح کی اخلاقیات نگل جاتی ہے وہ مذہبی ہو یا سماجی اور جس سماج میں پہلے ہی اخلاقیات کا فقدان ہو اُس کا کیا بنے گا؟
Prev Post
تبصرے بند ہیں.