علی وزیر کا رہا ہونا اور رہائی کے بعد بلاول کے ساتھ تصویر دونوں خوش آئندہیں ورنہ تو ہم ساری عمر اسی بات کا رونا روتے رہے کہ غداری اور کفر کے فتوے دینا بند کریں ۔ ایک مختصر عرصہ کے لئے یقینا ایسا وقت آتا رہا کہ جب ان فتوﺅں میں کمی آئی لیکن زیادہ تر وقت ہم انہی فتوﺅں کی تجارت کرتے رہے لیکن آج صورت حال ماضی سے قدرے مختلف ہے ۔ ماضی میں سیاسی حکومتیں اپنے مخالفین پر اس قسم کے مقدمات بناتی رہی ہیں لیکن موجودہ دور میں یہ کام کسی اور جانب سے ہو رہا ہے یہی وجہ ہے کہ دس ماہ گذرنے کے باوجود بھی اب تک حکومت کا کوئی قیدی نہیں ہے اور جو ہیں اول تو ان کی تعداد چھ سے زیادہ نہیں شہباز گل ، اعظم سواتی ، جمیل فاروقی ، فواد چوہدری ، شیخ رشید اور عمران ریاض ۔ یہ چھ افراد ہیں اور ہم عمران ریاض ، جمیل فاروقی اور شیخ رشید کو بھی تحریک انصاف کے کھاتے میں شمار کریں گے اور ان سب پر حکومت نے نہیں بلکہ اداروں کی جانب سے مقدمات ہیں اور کئی حکومتی وزیر مشیر بڑھکوں کے باوجود بھی اب تک کسی کے خلاف نہ تو کوئی سیاسی مقدمہ بنا سکے اور نہ ہی کسی کو گرفتار کر سکے ۔ کچھ لوگوں کو یقینا اس بات پر حیرت ہو گی کہ 2008سے لے کر 2013تک جس پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں ایک بھی سیاسی قیدی نہیں تھا اور نہ ہی کسی سیاسی مخالف پر کوئی ایک مقدمہ بنایا گیا اسی پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے صدر اور عمران خان پر بغاوت کے مقدمات قائم کرنے کے لئے کیوں کہا جا رہا ہے حالانکہ یہ بات بھی حقیقت ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی ساری عمر اس طرح کے مقدمات کی مخالفت کرتی رہی ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ جب احسان فراموشی کی تمام حدیں پار کر لی جائیں اور اخلاقیات کا جنازہ ہر روز بڑی دھوم دھام سے نکلنے لگے تو صبر کا پیمانہ کہیں نہ کہیں چھلک ہی جاتا ہے ۔
یہ2008کے بعد کی بات ہے ۔ ایک کیس میں گرفتار شخص جنرل الیکشن میں راولپنڈی سے الیکشن ہار چکے تھے ۔کسی دوست کو ذریعہ بنا کر ایوان صدر میں آصف علی زرداری سے ملاقات کرنے پہنچ گئے ۔ زرداری صاحب نے ان کے لئے ضمنی الیکشن کا بندوبست کیا اور اس میں ان صاحب کی حمایت بھی کی لیکن اس کے باوجود بھی موصوف الیکشن ہار گئے ۔ملاقات کے دوران انھوں نے زرداری صاحب سے کہا کہ ان کے پاس کوئی گاڑی نہیں ہے تو زرداری صاحب نے اسی وقت اپنے ایک دوست کو کال کر کے انھیں گاڑی دینے کا کہا لیکن بات یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ اس کے بعد کہا کہ ان کے پاس تو رہنے کو اس وقت گھر بھی نہیں ہے تو زداری صاحب نے اسی دوست کو کال کر کے انھیں گھر دینے کے لئے بھی کہا ۔ اس مختصر روداد کو قارئین کے گوش گذار کرنے کا مقصد یہ تھا کہ موصوف کو چند
دن پہلے جس گھر سے گرفتار کیا گیا تھا یہ وہی گھر ہے جو انھیں زرداری صاحب نے دلایا تھا ۔ جس نے احسان کیا اسی پر عمران خان کے قتل کا ہولناک الزام لگا یا اور گرفتاری کے بعد جس طرح انھوں نے زرداری صاحب اور بلاول بھٹو کے لئے غلیظ زبان استعمال کر کے احسان فراموشی کی تاریخ رقم کی ہے اس کی مثال کم ہی ملتی ہے ۔ اس صورت حال میں کسی ایک فریق سے رواداری اور اخلاقیات کی توقع رکھنا کس حد تک مناسب ہے اس کا فیصلہ قارئین پر چھوڑتے ہیں اور جب یہ فیصلہ کریں تو یہ بھی یاد رکھیں کہ تحریک انصاف کے دور میں موجودہ حکمرانوں اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا تھا اور موجودہ دور کی ہفتہ دو ہفتہ یا زیادہ سے زیادہ مہینہ دو مہینہ کی قید کی نسبت دو دو تین تین سال کی قید کو بھی ذہن میں رکھیں اور پھر سوچیں کہ تحریک انصاف کے ساتھ ابھی تک کیا ہوا ہے کہ جو اس نے آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے ۔ ہم تو اکثر کہتے ہیں کہ ابھی تو اس کے ساتھ کچھ ہوا ہی نہیں ہے لیکن کل کو اگر اس کے ساتھ کچھ ہو گا تو پھر کیا ہو گا ۔ہمیں تو حیرت اس بات پر ہے کہ جنرل ضیاءکے دور میں پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں اور صحافیوں کو کوڑے لگے جیلیں ہوئی پھانسیاں تک ہوئی اور لاہور کے شاہی قلعہ میں ظلم کی جو داستانیں رقم کی گئی اس سے بھی سب واقف ہیں ۔ یہ تمام ناقابل تردید تلخ زمینی حقائق ہیں کہ جن کا انکار ممکن نہیں لیکن ہم نے اس طرح روتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا کہ جس طرح کی حالت تحریک انصاف والوں کی گرفتاری کے بعد نظر آتی ہے ۔
ایف آئی اے نے وزارت داخلہ سے شوکت ترین کی گرفتاری کی اجازت مانگی تھی اور اجازت ملنے کے بعد انھوں نے سابق وزیر خزانہ کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا ہے لیکن تا دم تحریر ابھی تک انھیں گرفتار نہیں کیا ۔یقین جانیں کہ ہمیں اس طرح کے مقدمات سے کوئی خوشی نہیں ہو رہی لیکن اس کیس کے حوالے سے جو اہم بات ہے وہ یہ ہے کہ شوکت ترین کے جس بیان پر یہ کیس بنایا گیا ہے وہ ان کی پنجاب اور خیبر پختونخوا کے وزرائے خزانہ سے کی گئی گفتگو آڈیو لیکس کی صورت میں جو سامنے آئی تھی اس کی بنیاد پر یہ کیس بنایا گیا ہے جس میں شوکت ترین دونوں وزرائے خزانہ کو آئی ایم ایف کی شرائط کے حوالے سے وفاقی حکومت سے تعاون نہ کرنے کا کہہ رہے ہیں اور جب پنجاب کے وزیر خزانہ نے انھیں یاد دلایا کہ کیا یہ ملکی مفاد کے خلاف نہیں تو انھوں نے اس کے باوجود بھی یہ کہہ کر اصرار جاری رکھا کہ وفاقی حکومت بھی تو چیئرمین (عمران خان) کے خلاف کیسز بنا رہی ہے ۔اس میں کچھ باتیں انتہائی اہم اور غور طلب ہیں ۔ اول اگر حکومت کی نیت انتقام کی ہوتی تو جیسے ہی آڈیو لیکس منظر عام پر آئی تھی تو اسی وقت بنا کسی تاخیر کے شوکت ترین اور اس کے ساتھ ساتھ دو چار مزید کے خلاف مقدمہ درج کر لیتی لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ پانچ چھ ماہ کی تحقیقات کے بعد کیس درج کرنے کا فیصلہ ہوا ہے اور یقینا اس دوران فرانزک ٹیسٹ سمیت ہر طرح سے تسلی کی ہو گی اس کے بعد ہی یہ کیس درج ہوا ہے ۔ دوسرا اس میں حکومتی موقف کو ایک طرف رکھ دیں اور تحریک انصاف کے اپنے وزیر خزانہ نے جو ریمارکس دیئے تھے کہ ” کیا یہ ملک کے مفاد کے خلاف نہیں“ ۔ یہ ریمارکس اور جو ایف آئی آر درج کی گئی ہے دونوں میں ایک واضح مماثلت نظر آتی ہے ۔ تیسرا تحریک انصاف کی جانب سے مسلسل پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ آنے والے کچھ دنوں میں ملک دیوالیہ ہو جائے گا لیکن خدائے بزرگ و برتر کا شکر ہے کہ ابھی تک ایسا نہیں ہوا تو کیا اس طرح کی پروپیگنڈا مہم چلانا ملک کے مفاد میں ہے یا اس ملک سے دشمنی کے مترادف ہے ۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے حزب احتلاف کو حکومت کی مخالفت ہی کرتے دیکھا ہے لیکن اس مخالفت میں بات کبھی ریاست کی مخالفت تک نہیں پہنچی ۔ مقصد صرف ایک ہی ہے کہ ملک کو نقصان پہنچتا ہے تو بیشک پہنچتا رہے لیکن ہر چار دن کے بعد ایک نیا بیانیہ تراش لو جس سے اپنی سیاست چلتی رہے ۔ جب ایسی سیاست کی جائے گی تو پھر حکومت کو دوش نہ دیں بلکہ آپ مکافات عمل کی پکڑ میں آئیں گے ۔
تبصرے بند ہیں.