تھرکتے رقصاں پاﺅں رنج سے بھر گئے ہوں گے یہاں تو رونے والی آنکھ کا حزن کوئی نہیں دیکھ سکتا پاﺅں کے چھالے کون دیکھے گا کراچی سے آئی احمد شاہ کی کانفرنس کے آخر شب ناہید صدیقی رقصاں تھی جبکہ اوپر ان کے بچھڑے ہوئے شوہر سے دوبارہ بچھڑنے کا وقت آچکا تھا…. جدائی اگر کاغذوں سے ممکن ہوتی تو ملن بھی کاغذوں کے رہن منت ہوتے …. انسانوں کے درمیان کاغذی معاہدے نہ جانے کہاں سے آگئے جو موت رفاقت و مفارقت طے کرنے لگے….
گزرے برسوں کی کیا کوئی اہمیت نہیں زندگی کے بہترین برس جس میں ہماری صحت ٹھیک ہوتی ہے شکل درست ہوتی ہے والدین سلامت ہوتے ہیں بہن بھائی پورے ہوتے ہیں ، بچے ہسپتال لیبرروم چھلے،سکول خوشحالی غربت قرضے کیا یہ سب منہا ہوجاتا ہے زندگی سے وارث شاہ نے سب سے بڑا روگ ”وچھوڑا“ ہی گرداناہے.
”بھلا موئے تے وچھڑے کون میلے“
جیو کا روگ بھی وقت کا اُلٹا گھڑیال ہے، جسے ہم دیکھ نہیں سکتے مگر کوئی تو دیکھ رہا ہوتا ہے ….
مجھے لگتا ہے نکاح کے لمحوں میں کوئی ان دکھامورخ جدائیوں کے وقت کو بھی لکھ رہا ہوتا ہے۔ اسے پتہ ہوتا ہے کتنی مدت طے ہے انسان کی بے بسی ان گنت خوشیوں پیروں فقیروں دوسرے الفاظ میں مستقبل کا حال جاننے والوں کو جنم دیتی ہے۔ انسان کنوئیں کے بیل کی طرح حالات کی کولہو میں جوت دیا جاتا ہے، چلنے پر مامور انجام جانے بنا….
جب ضیاءمحی الدین پاکستان ٹیلی وژن پر ”شاکرا کی ماں یہ بولی بیٹی کے لیے برچاہیے ، گارہے تھے اپنے مخصوص انداز میں گلے میں گلوبند اوڑھے انگریزی چال خالص اردو لہجہ وسیع مطالبہ اور ہالی وڈ سٹارٹیس کے ساتھ مہوم مروج تھے تو انہی دنوں کتھک رقاصہ آرٹسٹ خانوادہ کی پروردہ ناہید صدیقی مروجہ روایات سے ٹکراکر پاکستان میں آرٹ کی آبیاری کررہی تھیں نستعلیق شخصیت مستقل مزاج ناہید کا جوڑ ضیاءمحی الدین ہی تھے پھر یہ لوگ شہر میں سمٹ کر بیرون ملک پرواز کرگئے گزرتے شب وروز میں نہ جانے کیا بددعا تھی کہ تار ٹوٹ گئے مگر دونوں اپنی اپنی حیثیت میں آرٹ کی خدمت کرتے رہے۔ بکھرے ہوئے ٹوٹے ہوں گے مگر خودکو جوڑ جاڑ کر ادب ثقافت سے ناتا نہیں توڑا….لگے رہے۔
دوبرس ادھر میں فیصل آباد آرٹس کونسل میں ڈائریکٹر تھی تو ایل ایل ایف ہوا انتظامیہ میں رات ہوجاتی کہیں رات دس بجے اپنے آفس بیٹھی میں لکھ رہی تھی کہ اچانک دروازہ کھول کر نہایت نفیس ضیاءمحی الدین اندر داخل ہوئے میں حسب معمول بھنے چنے اور پانی کا گلاس بطور خوراک دھرے بیٹھی کام کررہی تھی چائے کا پوچھا تو سامنے بیٹھ کر چنے کھائے بولے اس سے اچھا کیا ہے؟ اور ایک خاتون افسر کا اس وقت تک کام کرنا کمال ہے …. صبح ان کا شوتھا دیگر لوگوں کو بھی پرفارم کرنا تھا مگر ضیاءجوان میں سب سے زیادہ عمر رسیدہ اور کمزورتھے سینئر اور تجربہ کاری کے علاوہ …. سبھی ہوٹل میں آرام کررہے تھے اور ضیاءصاحب نے آڈیٹوریم کھلوایا اور جہاں انہیں کھڑا ہونا تھا وہیں ڈائس لگواکر روشنی کا مناسب انتظام کرواکر پوری ریہرسل کی اگلے دن جب وہ پرفارم کررہے تھے اور ہال تالیاں بجارہا تھا میں اس پس پردہ محنت شاقہ کو دیکھ رہی تھی …. جو دعائے نیم شبی میں سجدہ ریز رکھتی ہے۔
ضیاءمحی الدین سے تین دن قبل میں PFL کانفرنس کے افتتاح کے دن معروف ترین شاعر امجد اسلام امجد اُٹھ کر چلے گئے جیسے کانفرنس سے بہت سے لوگ روٹھے ہوئے تھے ویسے ہی امجد اسلام امجد مستقل روٹھ گئے گوکہ اس ناراضگی کا منبع ایک ہی تھا جس کے باعث تمام شہر اس کے تعصب کا شکار ہوا مگر امجد اسلام امجد کی شرکت تو یقینی تھی مجھے ہال میں افتتاحی اجلاس میں امجد صاحب کے سیشن میں ان کی کرسی پر ان کی بجائے ان کی تصویر دیکھ کر دلشکن شعر یاد آئے ….
روح لے گیا دل دا جانی
تے بت ساہنوں چکنا پئیا
وہ میرے ہمسائے بھی تھے لہٰذا رحلت کی خبر ملی تو فوری ان کے گھر پہنچ گئے بیڈ پر (فردوس ان کی عزیز ازجان بیگم اسی طرح دراز تھیں جیسے رات سونے کے لیے پرسکون لیٹی ہوں گی ) پہلو میں امجد اسلام امجد پرسکون سورہے تھے نیند اور موت میں فرق کتنا ہے کوئی کیسے طے کرے نہ جانے کب فرشتہ روح نکال کر لے گیا پاس رفیقہ¿ حیات شریک محبت کو پتہ نہ چلا صبح پوتے اسکول دادا کو زندہ چھوڑ کر گئے یا سمجھ کر گئے مگر وہ توپرواز کرچکے تھے پنجرہ ٹوٹ چکا تھا قیدی چھٹ چکا تھا موت کا کھنڈر ابھی پوری طرح چہرے پر اترا نہیں تھا۔
زندگی کی قید دراصل خواہشوں کی قید ہے ان گنت خواہش ناتمام خواہشیں کبھی نہ ختم ہونے والی رسی ٹوٹ جاتی ہے مگر جیتے جی دراز ہوتی رہتی ہے موت ان تمام نارسائیوں بے انصافیوں، دکھوں ،راحتوں اور گہری حساسیت کی قید سے چھٹکارے کا نام ہے۔
انسان پر معمور ہوتا تو وہ رینگتا رہتا مگر کبھی مر کر دوسروں کے لیے زمین خالی نہ کرتا خودکش بمبارآتشی وجود بھی کسی طویل زندگی کی چاہ میں موجودہ زندگی ختم کرتے ہیں کمال خواب دکھانے والوں کا ہے۔
قدرت زنجیر توڑ کر قفس سے آزاد کرکے انسانوں کی مدد کرتی ہے دکھ محض منتقل ہونے کا ہوتا ہے خاموش وقفہ¿ زندگی نہ جانے کتنا طویل ہو اور جو ملا بھی اس پر بھی ہزار قدغن احساس گناہ اور غیرت جیسے معاملات جوڑ دیئے گئے پھر ہر علاقے کی مقامی نفرت ومحبت ان کے احساس کچھ دیر کے لیے ہوتے ہیں۔
فروری کا مہینہ قدرت ایام کے حوالے سے مختصر سہی مگر دکھوں کے حوالے سے مختصر نہیں آج تیرہ فروری کو بیٹھی کالم لکھ رہی ہوں تو ”وچھوڑے“ کے حقیقی معنی سے بھی آشنا ہوچکی ہوں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.