پولیس اور ناانصافی کا منحوس چکر

19

برسوں کے انسانی مشاہدات و تجربات نے یہ حقیقت روز روشن کی مانند عیاں کردی ہے کہ انسانی معاشرے انصاف پر ہی قائم رہ سکتے ہیں۔ ناانصافی اور حق تلفی کی دیمک اگر کسی معاشرے کو لگ جائے تو اسکا جلد یا بدیر زمین بوس ہونا طے ہے۔ناانصافی تھانوں اور عدالتوں تک ہی محدود نہیںبلکہ اسکا دائرہ کارہر شعبہ ہائے زندگی پر محیط ہے ۔اگر حکومت عوام پر مہنگائی اور ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دے تو یہ بھی ظلم و زیادتی اور نا انصافی ہی کی ایک قسم ہے ۔ اطلاعات ہیں کہ صدر عارف علوی سے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی ملاقات ہوئی اور اس میں منی بجٹ کے آرڈیننس کے ذریعے نفاذ پر گفتگو ہوئی ۔قصہ مختصر یہ کہ سوختہ بال عوام کے معاشی قتل کی ایک نئی ترکیب پر عرق ریزی کی گئی ۔تاہم ارباب اختیار کو یہ سمجھنا ہوگا کہ عوام کا پیمانہ صبر اور قوت برداشت تیزی سے ختم ہور ہی ہے۔ اگر حکومت کے پاس تمام مسائل کا حل عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ بڑھانے ہی ہے تو اسے گھر چلا جانا چاہیے کیونکہ یہ کام تو کوئی عام سا کلرک بھی کرسکتا ہے ۔ اس کے لیے اسحاق ڈار اور اتنے بڑی کابینہ پر اربوں روپے خرچ بھلا خرچ کیوں کیے جائیں ۔
یہ امر صرف ِنظر نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ناانصافی کا منحوس چکر جب کسی معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے تو سب سے پہلے اس کے پیچھے روسا کا وہ طاقتور طبقہ ہوتا ہے جو انصاف کو اپنے گھر کی لونڈی سمجھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ یہ شتر بے مہار طبقہ نہ صرف قانون کی ناک جیسے چاہے موڑ لیتا ہے بلکہ جب چاہے اور جیسے چاہے اسکی وہ درگت بناتا ہے کہ رہے نام اللہ کا۔ یوں انصاف کے جالے میں کمزور تو پھنس جاتے ہیں لیکن طاقتور طبقات اسے درخور اعتنا نہیں سمجھتے اور اسے باآسانی توڑ کر نکل جاتے ہیں۔
چند روز قبل لاہور میں تعینات محکمہ پولیس کے ایک معروف ایس پی سے ملاقات ہوئی۔ تھوڑے مضطرب نظر آئے۔پوچھنے پر کہنے لگے کہ میں نے تو اپنی ساری جمع پونجی صرف کرکے اپنے بیٹے کو امریکہ بھیجنے کا انتظام کرلیا ہے۔ چاہتا ہوں کہ وہ جلد از جلد
پاکستان سے چلا جائے۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ ایسے معاشرے میں زندگی بسر کرے جہاں انصاف نام کی شے کا کوئی وجود نہیں، بلکہ عملاً ناپید ہو چکی ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے نے ایک ایسے بیمار انسانی معاشرے کا روپ دھار لیا ہے جہاں سڑک پر روک کر کوئی پولیس اہلکار،کوئی ٹریفک والا یا پھر کوئی ریڑھی والا کسی بھی شہری کی بے عزتی کردے، کوئی پوچھنے والا نہیں۔انصاف ملنا تو دور کی بات عام شہری کے لئے اپنی عزت نفس بچانا تک مشکل ہوچکا ہے۔ یہ معاشرہ زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنے بیٹے کو ایسے معاشرے کے حوالے نہیں کر سکتا۔ اس لئے اپنے بیٹے سے ہاتھ جوڑ کرکہا ہے کہ بیٹا تم یہاں سے جاؤ اور اپنی زندگی کسی ایسے معاشرے میں گزارو جہاں کم از کم تمہاری عزت نفس تو محفو ظ ہو۔ پاکستان مختلف مافیاز کے ہتھے چڑھ چکا ہے۔ یہ ملک بیورو کریٹس، سیاستدانوں اور طاقتور سرکاری اداروں کے افسران کے لئے کسی جنت سے کم نہیں جہاں عام آدمی کے لئے سانس لینا محال ہوچکا ہے۔ایس ایچ اوز قحبہ خانوں اور منشیات فروشوں کے سرپرست بن چکے ہیں۔ہر سال کروڑوں روپے منتھلیوں کی شکل میں انکی جیبوں میں جاتے ہیں۔بعد ازاں بڑی دیانتداری سے افسران تک انکا حصہ پہنچا دیا جاتا ہے۔ ایس پی کا کہنا تھا کہ یہ معاشرہ تب تک ٹھیک نہیں ہوسکتا جب تک اس ملک میں کوئی خونی انقلاب نہ آئے اور ملک کے تمام وسائل پر قابض دس پندرہ لاکھ افراداسکی نظر نہیں ہوتے۔اگر دیکھا جائے تو باوجود تمام تر کوشش کے عوام کو انصاف کی فراہمی کے راستے پر پڑنے والا سب سے اولین محکمہ پولیس کا قبلہ درست نہ ہوسکا ۔ اربوں روپے کے فنڈز اصلاحات بے معنی ہی رہے ہیں۔ تھانے آج بھی عقوبت خانے بنے ہوئے ہیں ۔ لاہور ہی کو لے لیں۔ راہزنی اور ڈکیتی کی وارداتیں تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ ایسے میں سی آئی ہو یا انوسٹی گیشن ونگ گویا خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ میرٹ کی وہ خلاف ورزی ہے جس کے تحت یہاں اعلیٰ افسران کی تعیناتیاں کی جارہی ہیں۔مقدمات کی تفتیش سائنسی بنیاد پر کرنے کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود آج بھی یہ کام تھرڈ ڈگری کے استعمال اور ملزمان کے لواحقین کی پکڑ دھکڑ سے کیا جاتا ہے۔جہاں تک سی آئی کا تعلق ہے تو یہاں تعینات بیشتر افسران اس وقت زمینوں کے قبضوں اور انہیں چھڑوانے میں اپنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔
قابلِ غور امر یہ ہے کہ اگر ایک اہم سرکاری عہدہ پر تعینات ایک ایس پی اس طر ح سوچ رہا اور اس زاویہ ِنظر کی تشکیل میں بہت سے ایسے محرکات ہیں جن کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا، تو پھر آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایسے میں عام آدمی کی حالت زار کیا ہو گی۔ ستم رسیدہ عوام ان دنوں جس طرح گونا گوں مسائل سے دوچار اور ناانصافی کی جس چکی میں روز پس رہی ہے وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم ناانصافی کے اس منحوس بھنور سے نکل پائیں یا پھر تباہی ہمارا مقدر ہے؟یقینا یہ اسی صور ت میں ممکن ہے کہ جب بحثیت قوم ہم اس بھنور سے نکلنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔ دُرست سمت کا تعین کرکے ہم اس راستے پر چل رہے ہوں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔
ہمارے ایک دوست جو پنجاب پولیس کے ایک اعلیٰ افسر ہیں ، کا کہنا تھا کہ میں سمجھ چکا ہوا کہ نظام نہیں بدلے گا اور نہ ہی کوئی حقیقی اصلاحات ہونگی ۔ اچھی پوسٹنگ اسی کو ملے گی جو اوپر سے ملنے والے ہر جائز و ناجائز حکم پر سرِ تسلیم خم کرے گا۔ چنانچہ میں نے سوچ لیا ہے کہ آئندہ تبدیلی کی خواہش اور اس کے لئے تگ و دود کی بجائے خاموشی سے نوکری کرونگا۔
ڈی آئی جی رینک کے ایک اور افسر کا کہنا تھا کہ لوگوں کی بدحالی سے معاشرہ تیزی سے تباہی کی طرف جارہا ہے ۔تاہم اگر ایسا ہی رہا تو وہ دن دور نہیں جب آپکو لوگ سڑکوں پر لوٹ مار کرتے نظر آئیں گے ۔ تاہم ایسے میں جو اس تباہی کے اصل ذمہ دار ہیں وہ بند قلعوں میں محفوظ ہونگے اور ہم ایک دوسرے کو مارتے نظر آئیں گے ۔

تبصرے بند ہیں.