زندگی کے سفر میں ایک دوسرے سے میل ملاقات اورایک دوسرے کے بارے میں جان کاری انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ طبعی طور پر انسان متجسس واقع ہوا ہے۔ اس کا یہی جذبہ اسے آگے اور آگے بڑھائے چلا جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے سیکھتے سکھاتے شاہرائے زیست پر رواں دواں رہتا ہے۔۔۔!
اپنے دفتری دوستوں کے ساتھ راقم الحروف کا کئی دنوں سے دعوت کا پروگروام بن رہا تھاجو بالآخر پایہ تکمیل تک پہنچ ہی گیا اور سب اپنے ایک مشترکہ دوست ”جناب راجہ صاحب “ کی پرتکلف میزبانی میںمحو گفتگو تھے۔اس دوران آپ کا فارغ وقت میں شغل(Hobby) کیا ہے ، کے عنوان سے جان کاری اور ایک دوسرے کے خیالات سے آگاہی کا سلسلہ باتوں ہی باتوں میں شروع ہو گیا۔۔۔! ایک دوست جو کہ عدالتی اہلکار اور سٹینو گرافر کے عہدہ پر فائز ہیں، اُن سے پوچھا گیاکہ آپ کے، ڈیوٹی کے بعد کے ، فارغ وقت کے کیا مشاغل ہیں۔۔۔؟ ادھر سے بڑے تھکے تھکے لہجے میں بتایا گیا کہ جناب میں تو کچھ نہیں کرتا۔۔۔ ! دفتر سے گھر آ کر بھی بس فائلز ہی ہوتی ہیں، اُن سے ہی جان نہیں چھوٹتی۔۔۔! اسی چکر میں رہتا ہوں۔ ۔۔۔ ! کیا کریں۔۔۔! یہ فائلیں جان چھوڑیں تو کچھ اور ہو۔۔۔۔!
اُن کے دوسرے ساتھی سے یہی سوال ہوا تو اُنہوں نے بڑے ہشاش بشاش انداز میں بتایا کہ اُنہوں نے اپنے دوست سے مل کر ایک دُکان بنائی ہوئی ہے اور فارغ وقت میں وہ باہر سے آنے والے ”متفرق سامان کے کنٹینرز“ کی جگہ پر جاتے ہیں۔ وہاں سے اپنی مرضی کی الیکٹرک اور دوسری اشیاءکا انتخاب کرتے ہیں اور پھر ان کی ضروری مرمت و درستی کر کے مناسب منافع پر آگے فروخت کر دیتے ہیں۔ اس سے اُن کی زندگی کی گاڑی بہت سہولت سے آگے بڑھ رہی ہے۔۔۔!
تیسرے دوست نے بڑے فخر سے بتایا کہ وہ فارغ وقت میں پراپرٹی کا کام کرتا ہے اور بہت خوش ہے، ساتھ ہی اُس نے اپنے پلاٹ خریدنے اور انہیں بیچنے کی ایک لمبی تفصیل بتانا بھی شروع کردی کہ اُس نے فلاں جگہ اتنے کا پلاٹ خریدا اور اتنے میں فروخت کیا۔ ۔۔! اس سے اُس کو اتنا فائدہ ہوا ۔۔۔۔ ! فلاں زمین اُس نے اتنے سال پہلے اتنے کی خریدی اور اب اتنے میں فروخت کر
کے اتنا نفع حاصل کیا۔۔۔! تقریباً 10/15 منٹ کی مسلسل گفتگو اور اپنے مالیاتی کارناموں کے تذکروں کے بعد اُنہوں نے سب کو ”آفر“ کی کہ اگر کسی نے کبھی بھی،کہیں بھی، کوئی جگہ یا پلاٹ وغیرہ خریدنا ہو تو وہ حاضر ہیں۔ ۔۔۔! اچھی زمین اور پلاٹ مناسب قیمت پر دلوائیں گے جسے آپ ساری عمر یاد رکھیں گے اور دعائیں دیں گے۔۔۔!
اُن کے پاس بیٹھے، مخصوص لہجے کے حامل ، ایک وکیل دوست بولے، کرنا کیا ہے جی۔۔۔! بس وقت گزر رہا ہے۔۔۔! صبح ہوتی ہے۔۔۔۔! شام ہوتی ہے۔۔۔۔! زندگی یونہی تمام ہوتی ہے۔۔۔۔! دن نکلتا ہے تو کام میں رات پتہ نہیں چلتا۔۔۔۔! رات ہوتی ہے تو صبح کی خبر نہیں ہوتی۔۔۔۔! کبھی کچہری کا چکر لگ گیا توکبھی کسی عدالت سے ہو آئے۔۔۔۔ ! کوئی کلائینٹ آفس میں مل گیا تو کوئی گھر تک چلا آیا۔۔۔۔! کسی نے کاغذات کا پلندہ تھمایا تو کسی نے فون پر خوب کان کھائے۔۔۔۔! روز گار کے چکر میں زندگی گزر رہی ہے۔۔۔۔۔! ہوائی روزی ہے کبھی مل گئی تو کبھی نہ ملی۔۔۔۔! ہمارے مشاغل کیاہونے ہیں۔زیادہ سے زیادہ مجبوراً قانون کی کوئی کتاب دیکھ لی یا ضرورتاً کسی "Proposition” پر کام کر لیا، یہی روٹین اور زندگی کا جاری سلسلہ ہے۔ ۔۔!
سوال کے اسی سلسلہ کو سردرد کا شکار، Panadol کی دو گولیاں کھاتے ہوئے ، ایک قدرے” سست الوجود اور زائد الوزن“ دوست نے یہ کہہ کر آگے بڑھایا کہ کرنا کیا ہے۔ ۔۔۔! دفتر سے آئے۔۔۔ کچھ کھایا پیا۔۔۔۔ تھوڑی دیر ٹی وی دیکھا۔۔۔ موبائل کے ساتھ مصروفیت میں کچھ وقت گزارا ۔۔۔ نیند اور اگلے دن پھر سے وہی ڈیوٹی کی روٹین۔۔۔! زندگی ایسے ہی چل رہی ہے۔ ایسا کچھ خاص نہیں جو بتایا جائے۔۔۔!
اُن کے ساتھ موجود اُن کے ساتھی بڑے پر جوش انداز میں فوراً بولے کہ کیوں نہیں ۔۔۔۔۔ ! وقت کیوں نہیں ملتا۔۔۔۔! وقت تو بہت وافر ہوتا ہے۔ دفتر کے بعد جم جاتاہوں۔۔۔ کبھی کبھی کرکٹ اور ٹینس وغیرہ بھی کھیل لیتا ہوں۔ کسی دن لانگ واک کا موڈ بھی بن جاتا ہے۔میں تو زندگی کو خوب انجوائے کرتا ہوں اور مجھے وقت کی کمی کا کبھی کوئی سامنا نہیں ہوا۔۔۔اپنے پاس تو وقت ہی وقت ہے۔۔۔!
اسی سوال کا جواب سوچوں میں غلطاں و پیچاں ایک دوست کی سوچتی آنکھوں اور گھمبیرلہجے سے یوں موصول ہوا کہ دُنیا میں مطالعہ سے بڑھ کر کیا ہے۔ ۔۔! کتاب سب سے بہترین ساتھی ہے۔ دفتر کی سارے دن کی کھچ کھچ کے بعد گھر آ کر اُن کو کتابیں پڑھنے کا بہت شوق ہے۔ ۔۔کتاب اُن کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور وہ دُنیا جہاں کی سیر کو نکل جاتے ہیں۔ ۔۔جہاں وہ ہوتے ہیں اور اُن کے خیالات ۔۔۔! کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔۔۔ ! وقت گزرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا۔۔۔ ! بقول مومن خان مومن: تم میرے پاس ہوتے ہو گویا۔۔۔جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔۔۔سو ”کتاب بینی“ ہی اُن کی زندگی کا سب سے بڑا شوق ہے اور وہ اس سے بہت خوش ہیں۔ ۔۔!
پاس بیٹھے ”رحمان بھائی“ بڑی دیر سے کسی حد تک شرماتے ہوئے بار بار کروٹیں بدل رہے تھے۔ سوال کا رُخ آہستہ آہستہ اُن کی طرف مڑ رہا تھا اور اُن کا اضطراب بھی مزید بڑھ رہا تھا۔ پوچھا آپ بتائیے۔۔۔ ! آپ کے فارغ وقت کے کیا مشاغل ہیں۔۔۔؟شرماتے اور لجاتے ہوئے لہجے میں بولے کہ جانے دیجئے۔۔۔۔! مَیں کیا بتاﺅں۔۔۔ ! اب جتنا وہ نہیں نہیں کر رہے تھے اتنا ہی یہاں سے اصرار بڑھ رہا تھا۔۔۔ آخر کار اُن کو جواب دیتے ہی بنی۔ ۔۔! بڑے شرمیلے انداز میںوہ یوں گویا ہوئے۔۔۔!
وہ ناں ۔۔۔۔ اصل میں۔۔۔ میرے دو بچے ہیں۔ ۔۔۔ میری شادی کچھ لیٹ ہوئی ہے۔ ۔۔۔ اور مجھے تو گھر کے کام کاج سے ہی فرصت نہیں ملتی۔۔۔۔۔ میری بیگم بھی کچھ لاڈلی سی ہے۔۔۔۔۔ سارا وقت ادھر ہی گزر جاتا ہے۔۔۔۔ بیگم کی ”یہ وہ“ سنتے اور کام کرتے ۔۔۔! اکثر تو بازار سے سودا سلف لاتے ہی رات ہو جاتی ہے اور پھر اگلا دن آ جاتا ہے۔۔۔۔ ! کبھی کبھی بیگم کے میکے کا چکر لگالیتے ہیں۔۔۔! دوسرے تیسرے دن کوئی نہ کوئی سسرالی رشتہ دار آ جاتا ہے تو اُن کی خدمت کرنے میں وقت گزر جاتا ہے۔ ۔۔۔! ویسے بھی امی جی (ساس صاحبہ) زیادہ ترہمارے پاس ہی رہتی ہیںاس لیے اُن کا خیال بھی رکھنا ہوتا ہے۔تین سالے ہونے کے باوجود ان کی خدمت کی سعادت بھی مجھے ہی ملی ہے۔۔۔کبھی وقت ہو تو ان کے پاو¿ں بھی دبا دیتا ہوں،وہ اپنی بیٹی سے زیادہ مجھ سے راضی ہیں۔ مَیں اپنی زندگی سے بڑا خوش اور مطمئن ہوں۔۔۔۔۔! ہاں ایک بات کی سمجھ نہیں آتی کہ میرے بھائی اور قریبی دوست مجھے اکثر ”ٹگا (بیل) “ کہہ کرکیوںبلاتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ توں ٹگا ایں ٹگا۔۔۔۔۔! شاہد بھائی مجھے آپ ہی بتا دیں کہ آخر یہ ”ٹگا کیا ہوتا ہے۔۔۔۔! “
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.