ریڈیو پاکستان کا احوال،ذمہ دار کون؟

13

گزشتہ سے پیوستہ روز ”ریڈیو کا عالمی دن“ جھوم جھام کر بڑے زوروشور سے منایا گیا۔ تقریبات منعقد کی گئیں۔ زبردست تقاریر بھی کی گئیں۔ تصاویر بھی چھپوائی گئیں، الیکٹرانک میڈیا پر بھی نظر آئیں سب سے زیادہ سوشل میڈیا پر شورشرابا کیا گیا۔ ایسے لگا کہ ریڈیو ہماری سماجی زندگی کا ایک انتہائی اہم جزو ہے ہم اس سے جڑے ہوئے ہیں ہمیں اس سے بہت پیار ہے لیکن یہ سب کچھ کلی طور پر مصنوعی اور دھوکے بازی ہے۔ ہمارے ہاں ریڈیو وہ کچھ ہرگز نہیں ہے جو اسے ہونا چاہئے ابلاغ عام کے لئے ریڈیو ایک کلیدی آلہ کارکی حیثیت رکھتا ہے ریاست و مملکت کے مختلف النوع گروہوں کو جوڑنے اور متحد رکھنے کا ایک اہم آلہ ہے۔ امریکہ دنیا کی جدید ترین ریاست ہے جہاں انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، فلم و دیگر جدید ترین ذرائع ابلاغ کا راج ہے۔ سیلولر کمیونیکیشن نے ابلاغ اور تفہیم کے معنی ہی بدل کر رکھ دیئے ہیں لیکن آج بھی وہاں ریڈیو کلیدی اہمیت کا حامل ہے امریکی صدر ہر مہینے ریڈیو پر خطاب کے ذریعے امریکی قوم سے مخاطب ہوتا ہے اپنی کارکردگی بارے مطلع کرتا ہے اور آئندہ بارے اعلان بھی کرتا ہے لیکن ہمارے ہاں ریڈیو کو تسلسل کے ساتھ تباہی و بربادی سے ہمکنار کرنے کی کاوشیں جاری ہیں۔ پیپلز پارٹی کا دور حکمرانی (2008-2013) ہو یا ن لیگی حکمرانی کا دور (2013-2018) یا پھر عمران خان کا دور حکمرانی (2018-2022) سب نے نہ صرف ریڈیو کو اگنور کیا اس کی تعمیروترقی سے اغماض برتا بلکہ اسکا گلا گھونٹنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ آج صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ ریڈیو سٹیشنز بھوت بنگلے بنے ہوئے ہیں ملازمین آزادانہ آتے جاتے ہیں کوئی والی وارث نہیں ہے انتظامی طور پر ریڈیو پاکستان کے یونٹس ایسے ہی بے لگام ہیں جیسے مملکت کے دیگر ادارے بے آسرا ہیں مالی طور پر ریڈیو پاکستان تباہی کا شکار ہو چکا ہے کئی مہینوں تک ملازمین کی تنخواہیں نہیں ملتی ہیں اطلاعات کے مطابق چند روز پہلے ریڈیو پاکستان لاہور کے ملازمین کو تین ماہ بعد تنخواہیں ادا کی گئی ہیں۔ اتحادی حکومت 10 اپریل 2022 سے لے کر ہنوز ریڈیو پاکستان کے معاملات کو درست کرنے میں قطعاً ناکام رہی ہے ویسے کامیابی کی امید تو تب کی جا سکتی تھی جب معاملات کی درستی کے لئے کچھ سوچ و بچار کی جا رہی ہوتی ۔ پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن (PBC) ایک سفید نہیں سیاہ ہاتھی بن چکا ہے۔ جہاں تک کارکردگی کا تعلق ہے تو اس بارے بات نہ کرنا ہی بہتر ہے۔ اس کی مالی حالت دگرگوں ہو چکی ہے اور بس اب اس کے خاتمے کا اعلان ہونا شاید باقی ہے۔
گلگت، سکردو اور چترال کے بلندوبالا اور سرد ترین علاقوں سے لے کر پشاور، لاہور، راولپنڈی اور حیدرآباد جیسے میدانی علاقوں تک، کشمیر سے لے کر گوادر کے ساحلوں تک پھیلے پاکستان براڈ کاسٹنگ کے 32 ہاﺅسز نے پاکستان کے 230 ملین شہریوں کو پاکستانی قومیت کی ایک مضبوط لڑی نہیں کڑی میں پرویا ہوا ہے۔ پاکستان کی آزادی کے بعد پہلی آواز ریڈیو پاکستان سے صوتی لہروں کے ذریعے دنیا تک پہنچی۔ اعلان آزادی، قیام پاکستان کی خوشخبری ریڈیو پاکستان نے نشر کی۔ ریڈیو پاکستان، پاکستان کی آواز
ہے، ریڈیو پاکستان، پاکستان کی پہچان ہے، ریڈیو پاکستان سرکار پاکستان کی آواز ہے۔ پاکستان کے 23 کروڑ پاکستانیوں کی آواز ہے۔ ہمارے دلوں کی دھڑکن ہے۔ ہماری زندگی ہے۔
اطلاعات ہیں کہ ہمارے دلوں کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوا چاہتی ہیں۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کے اجلاس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ادارہ شدید مالی بحران کا شکار ہو چکا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل نے بتایا کہ پنشنرز کو ادائیگیوں کے لئے رقم ختم ہو چکی ہے۔ ویسے کئی ماہ سے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کا نظام بھی تتربتر ہونے لگا ہے۔ گزشتہ چند مہینوں سے ادائیگیوں کا نظام بھی شدید بحران کا شکار ہو چکا ہے۔ تنخواہوں کی بروقت ادائیگی بھی مشکلات کا شکار ہو چکی ہے۔ حکومت کیونکہ خود مالی بحران میں گھر چکی ہے اس لئے سردست ادارے کی مالی حالت سدھارنے کے لئے کسی قسم کی فوری گرانٹ یا قرض دینا ممکن نظر نہیں آ رہا ہے۔ ریڈیو پاکستان کو سالانہ 6500 ملین روپے درکار ہوتے ہیں لیکن حکومت انہیں 4500 ملین روپے دیتی ہے جبکہ 2000 ملین روپے ریڈیو کو اپنے ذرائع سے پورے کرنا ہوتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہو سکاجس کے باعث نہ صرف ریڈیو کے پروگراموں کے معیار پر منفی اثرات مرتب ہوئے بلکہ ادارہ بتدریج تباہی کے دہانے تک پہنچ چکا ہے۔ ایسا نہیں کہ ریڈیو پاکستان میں قابل، محنتی اور مطلوبہ نتائج ظاہر کرنے والوں کی کمی ہے بلکہ ریڈیو پاکستان کو ایک مخلص قیادت میسر نہیں آ سکی ہے وزیر اور سیکرٹری انفارمیشن سے لے کر ڈائریکٹر جنرل تک کسی نے بھی اس ادارے کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا سب اسے سرکاری ادارہ جان کر ٹریٹ کرتے رہے۔ جنرل مشرف کا دور حکمرانی ہو یا 2008 میں پیپلز پارٹی، 2013 میں ن لیگی اور 2018 سے پی ٹی آئی کا دور حکمرانی، کسی نے بھی ادارے کو بچانے اور قومی ضروریات کے مطابق ترقی دینے کی سوچ بچار نہیں کی۔ جو بھی آیا اسے نوچتا رہا، اس سے ذاتی مفادات حاصل کرتا رہا، تنخواہیں دینے کے پیسے نہیں ہیں لیکن ڈی جی کے لئے شاندار کمرہ تعمیر کیا جا رہا ہے، رنگین بتیاں اور بلب لگا کر ریڈیو پاکستان لاہور کی عمارت سجائی جا رہی ہے اس لئے نہیں کہ کچھ واقعتا بہتری مطلوب ہے بلکہ تعمیراتی کاموں کے ذریعے یافت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق کئی ماہ سے تنخواہیں نہیں دی جا سکی ہیں ملازمین بددل ہیں کام کرنے میں وہ مستعدی نہیں دکھا رہے ہیں جو ان کا خاصا ہونا چاہئے۔ ہر وقت مالی مشکلات اور انتظامیہ کی بے حسی اور نااہلی کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔
پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کا اولین مسئلہ لیڈرشپ کا فقدان ہے گزرے 9،10 مہینوں میں یہاں 3 ڈائریکٹر جنرلز کو آزمایا جا چکا ہے لیکن انہوں نے صرف زبانی کلامی جمع خرچ کے علاوہ اگر کچھ خرچ کیا ہے تو سول ورکس اور لائٹیں لگانے پر ۔ مقصد بہتری تھی اور وہ بھی اپنی بہتری۔ ہر ڈی جی تھوڑے تھوڑے عرصے کے لئے تعینات ہو کر آتا رہا اور رقم کھری کر کے چلتا بنا۔ انہیں پتا ہوتا ہے کہ وزیر محترمہ پارٹی قیادت کے ساتھ مصروف ہوتی ہیں انہیں سرکاری امور کی انجام دہی میں نہ تو دلچسپی ہے اور نہ ہی ان کے پاس وقت ہوتا ہے ویسے تو حکومتی معاملات نمٹانے کے لئے شاید کسی کے پاس وقت نہیں ہے کیونکہ حکومت کی تو آنی جانی لگی ہوئی ہے آج ہے تو کل نہیں ہو گی۔حکومت تو حکومت بچانے میں لگی ہوئی ہے اسے ریڈیو پاکستان جیسے ”غیراہم“ ادارے کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کے لئے فرصت ہی کہاں ہے۔
صورت حال یہ ہے کہ ہندوستان جیسے بڑے ملک کا وزیراعظم عالمی کھلاڑی ہونے کے باوجود ریڈیو کے ذریعے اپنے عوام کے ساتھ جڑے رہنے کے لئے ہمہ وقت مستعد رہتا ہے۔ ایک عالمی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے نریندر مودی نے بتایا 70ءکی دہائی میں اترپردیش کے ایک دور دراز گاﺅں جلسہ کرنے جاتے ہوئے سڑک کنارے ایک ڈھابے پر بہت سے لوگوں کو جشن مناتے دیکھ کر رکا تو انہوں نے بتایا کہ وہ بھارت کے ایٹمی دھماکہ کرنے کے اعلان کا سن کر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ میں نے پوچھا انہیں یہ سب کیسے پتہ چلا تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے یہ سب کچھ ریڈیو پر سنا۔ ذرا غور کیجئے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا وزیراعظم ریڈیو کے ذریعے ابلاغ کی اہمیت جانتا ہے لیکن ہمارے ہاں دیگر سرکاری اداروں کی طرح ریڈیو کا دارہ مکمل طور پر تباہ ہو چکا ہے اس لئے نہیں کہ یہاں ترقی کے لئے افرادی قوت موجود نہیں ہے ، ٹیلنٹ نہیں ہے تجربہ کار لوگ موجود نہیں ہیں۔ ذہانت نہیں ہے۔ آلات و اوزار نہیں ہیں سب کچھ ہے لیکن اس سب کچھ کو جوڑنے اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنانے کے لئے جو جوہر قابل چاہئے، قیادت چاہئے، ڈائریکٹر جنرل چاہئے ، وہ نہیں ہے۔

تبصرے بند ہیں.