”شاعرمحبت“ امجد اسلام امجد ہمیں چھوڑ کے چلے گئے ، ہم اسی قابل ہیں ہمارے اچھے لوگ ہم سے جدا ہو جائیں ، امجد اسلام امجد کی نماز جنازہ کے موقع پر میں جناب کامران لاشاری ، خالد مسعود خان اور ڈاکٹر یونس بٹ کے ساتھ کھڑا تھا ، اصغر ندیم سید ہمیں بتا رہے تھے امجد اسلام امجد کی وفات پر شعیب بن عزیز نے ان سے کہا ”بڑے لوگ جس تیزی سے ہمیں چھوڑ کر جا رہے ہیں ہمارے جنازے میں شاید کوئی بڑا آدمی موجود نہیں ہو گا“۔۔ اپنی شاعری اپنی گفتگو اور اپنے ڈراموں میں محبتیں اور مسکراہٹیں تقسیم کرنے والا شاید واحد شخص ہمارے پاس تھا جو نہیں رہا ، ان کی وفات پر پہلی اطلاع یہ ملی انہیں اچانک ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ جانبر نہیں ہو سکے ، میں جب فوری طور پر ان کے گھر پہنچا پتہ چلا کوئی ہارٹ اٹیک نہیں ہوا ، وہ اچھے بھلے رات کو سوئے اور پھر اٹھے ہی نہیں ، نیند ایک چھوٹی موت ہے ، موت ایک بڑی نیند ہے ، وہ چھوٹی موت سے بڑی نیند کی طرف چلے گئے ، ان کا آخری دیدار کیا یوں لگا وہ سوئے ہوئے ہیں ، اور ابھی اٹھ کر اپنی ”فردوس“ کو آواز دیں گے”دوست ذرا ادھر آ کر میرے پاس بیٹھو ، اپنی بیگم (فردوس بھابھی) کو وہ ہمیشہ”دوست“ کہہ کے مخاطب کرتے تھے ، یہ بات اگلے روز جناب عطاالحق قاسمی نے بھی اپنے کالم میں لکھی ، ایک”فردوس“ دنیا میں چھوڑ کے ایک اور ہمیشہ قائم رہنے والی”فردوس“ میں وہ چلے گئے ، وہ جنتی ہیں ، لوگوں کو خوشیاں دینے والا شخص جنتی ہی ہوتا ہے ، دنیا میں یا ادبی دنیا میں شاید ہی کوئی شخص ہوگا جو یہ کہہ سکے امجد اسلام امجد کی کسی بات کسی عمل پر اسے دکھ پہنچا تھا ، کوئی اگر یہ کہے گا جھوٹ کہے گا ، وہ کمال کے انسان تھے ، شاعری اور ڈرامے میں جو مقام دنیا بھر میں انہوں نے بنایا وہ اپنی مثال آپ ہے ، پاکستان کا شاید ہی کوئی بڑا ایوارڈ یا اعزاز ایسا ہوگا جو انہیں ان کے حق کے مطابق نہ ملا ہو ، ہمارے ہاں مختلف شعبوں سے وابستہ اکثر”بڑے لوگ“ بےشمار قومی ایوارڈز یا اعزازات حاصل کرنے کے لئے جو پاپڑ بیلتے ہیں جو سفارشیں کرواتے ہیں ، حکمرانوں کی جو خوشامدیں کرتے ہیں امجد اسلام امجد ا±ن سب”آلائشوں“ سے پاک تھے ، پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک نے بھی انہیں کئی اعزازت سے نوازا ، ابھی دو تین برس پہلے ترکی نے انہیں خصوصی ایوارڈ دیا ، یہ ایوارڈ انہیں ترکی کے صدر طیب اردوان نے اپنے ہاتھوں سے دیا ، یہ صرف ان کے لئے نہیں پاکستان کے لئے بھی اعزاز کی بات تھی ، مجھے یاد ہے اس خوشی میں غزالی ٹرسٹ کے سربراہ سید عامر محمود نے ان کے اعزاز میں شاندار عشائیے کا اہتمام کیا تھا جس میں بہت سے نامور لوگ موجود تھے ، اس تقریب میں وہ بہت خوش دیکھائی دے رہے تھے ، وہ ہمیشہ خوش دیکھائی دیتے تھے ، اور لوگوں کو اپنی چٹ پٹی باتوں سے خوش رکھنے کی کوشش بھی کرتے تھے ، یہ ممکن ہی نہیں ہوتا تھا جس محفل میں امجد اسلام امجد ہوں وہ محفل سوگوار ہو ، میں اپنے ادارے ”ہم سخن ساتھی“ کے زیر اہتمام کسی شاعر ادیب یا فنکار کی رحلت پر ان کی یاد میں کوئی تعزیتی ریفرنس منعقد کرتا اس میں بھی وہ کوئی نہ کوئی ایسی بات کوئی نہ کوئی ایسا جملہ یا واقعہ سنا دیتے اداس چہرے جس پر کھلکھلا اٹھتے ، مختلف اقسام کی سوگواریوں میں مبتلا معاشرے کو ان کی بہت ضرورت تھی ، یہ ضرورت اب شاید ہی پوری ہو سکے ، یہ کمی ہمیشہ رہے گی۔۔ جس محفل میں وہ ہوتے قہقہوں کا ایک طوفان برپا ہوتا اور اگر ان کے ساتھ عطاالحق قاسمی اور دلدار پرویز بھٹی بھی ہوتے یہ طوفان باقاعدہ”طوفان بدتمیزی“ بن جایا کرتا تھا ، ایک بار قہقہوں کا ایسا ہی ایک طوفان جب دیر تک نہ تھما دلدار پرویز بھٹی نے امجد اسلام امجد اور عطاالحق قاسمی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ”یار اسی ادبی حرامی آں۔۔ امجد اسلام امجد بولے“ادبی نہیں اصلی کہو“ ، ان کے اس فی البدیہہ جملے پر پوری محفل جھوم اٹھی۔۔ امجد اسلام امجد اپنے چاہنے والوں کو یا جنہیں وہ چاہتے تھے انہیں ”جان من“ کہتے تھے ، مجھے یہ اعزاز حاصل ہے مجھے انہوں نے ہمیشہ ”جان من“ کہا ، چند روز پہلے میں نے جب انہیں اپنے بیٹے کی شادی کا دعوت نامہ بھجوایا ان کی مجھے کال آئی ، میں کال اٹینڈ نہیں کر سکا ، کچھ دیر بعد میں نے دیکھا واٹس ایپ پر ان کا میسج آیا ہوا ہے ، وہ فرما رہے ہیں”جان من تمہیں شاید معلوم نہیں میرا ٹخنہ فریکچر ہوگیا ہوا ہے اس پر پلاسٹر چڑھا ہے میں شادی میں نہیں آ سکوں گا مگر پلاسٹر اترتے ہی جیسے ہی میں چلنے پھرنے کے قابل ہوا میں فردوس کو لے کر مبارک دینے آؤں گا ، اللہ تمہاری خوشیوں کو نظر بد سے بچائے“۔۔ ان کا وائس میسج سننے کے فورآ بعد میں نے انہیں کال کی ، بہت دیر تک بات ہوتی رہی ، مجھ سے کہنے لگے ”یار عمران خان تے ہتھ ہولا رکھیا کر“ ، میں نے کہا ”بھائی جان میں ہاتھ ہولا رکھوں میرا پاؤں بھاری ہو جاتا ہے“ ، میری بات سن کر ایک زبردست قہقہہ انہوں نے لگایا ، پھر کہنے لگے ٹخنے کا پلاسٹر اترتے ہی میں نے عمرے پر جانا ہے ، واپس آ کر مبارک دینے تمارے گھر آؤں گا“۔۔ میں نے عرض کیا”بھائی جان آپ مجھے بتاتے میں آپ کو بھائی جان عامر عزیز (ملک کے ممتاز آرتھو پیڈک سرجن) کے پاس لے جاتا“فرمانے لگے”وہ بہت مصروف ہوتے ہیں اور تم بھی بہت مصروف ہوتے ہو اس لئے میں نے تمہیں زخمت نہیں دی“میں نے کہا ”بھائی جان مجھ ایسا “فارغ آدمی” شاید ہی پوری دنیا میں کوئی ہوگا ، سو جب آپ کا دوسرا ٹخنہ ٹوٹے مجھے لازمی بتائیے گا“ میری یہ بات سن کر ایک بار پھر زندگی سے بھر پور قہقہہ انہوں نے لگایا ، مجھے لگا یہ شخص کبھی نہیں مرے گا ، یہ واقعی کبھی نہیں مرے گا ، بڑے دل والے لوگوں کے دلوں میں یہ ہمیشہ زندہ رہے گا ، بلھے شاہ اساں مرنا ناہی گور پیا کوئی ہور۔۔ پھر وہ عمرے پر چلے گئے ، اگلے روز میرے محترم بھائی بنگلہ دیش میں پاکستان کے سفیر ، ادب کے بہت بڑے قدردان ، خوبصورت انسان اور مصور جناب عمران احمد صدیقی نے میرے واٹس ایپ پر ایک وڈیو کلپ بھیجا جس میں امجد اسلام امجد مسجد نبوی میں وہیل چئیر پر بیٹھے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب منہ کر کے اپنی لکھی ہوئی ایک خوبصورت نعت پڑھ رہے ہیں ، یہ بہت برکت بہت رحمت والے ایسے قیمتی لمحات تھے جو موت سے دو روز قبل انہیں نصیب ہوئے ، یہ لمحات اصل میں ان کے جنتی ہونے کا اعلان تھے ، پھر وہ عمرے سے واپس آگئے ، میں نے سوچا فون کر کے انہیں یاد دلاؤں انہوں نے وعدہ کر رکھا ہے وہ جب ٹھیک ہوں گے ہمارے گھر مبارک دینے آئیں گے ، اس کی نوبت ہی نہیں آئی ، ان کی اپنی کال آگئی ، کہنے لگے”میں عمرے سے واپس آگیا ہوں ، کل میں راحیل بیٹے کی شادی پر مبارک دینے آؤں گا“ میں نے گزارش کی”بھائی جان ڈنر یا لنچ ہمارے ساتھ کیجئے گا“ بولے”آج کل بہت پرہیزی کھانا کھاتا ہوں بس آپ کے ساتھ چائے پئیوں گا“ جمعہ کو چار بجے کا وقت مقرر ہوگیا ، جمعرات کو میں نے اپنی بیٹی اور داماد سے کہا وہ بھی آجائیں کل امجد اسلام امجد صاحب نے گھر آنا ہے۔۔ جمعہ کی صبح میں آفس آکر ابھی بیٹھا ہی تھا واٹس ایپ پر مجھے میاں یوسف صلاح الدین کا میسج آیا ، وہ پوچھ رہے تھے”یہ امجد اسلام امجد والی خبر درست ہے؟“، میں سمجھا وہ شاید امجد اسلام امجد کے آج میرے گھر آنے والی خبر کا پوچھ رہے ہیں ، میں انہیں یہ جواب دینے لگا تھا”جی یہ خبر درست ہے آج وہ میرے گھر آرہے ہیں“ ، میں نے سوچا میاں یوسف صلاح الدین سے بھی گزارش کرتا ہوں وہ بھی آجائیں۔۔ میں یہ میسج ابھی لکھ ہی رہا تھا بیچ میں میری بیگم کی مجھے کال آگئی ، وہ بہت گھبرائی ہوئی محسوس ہو رہی تھی ، اس کی آواز میں بہت خوف بہت اداسی تھی۔۔ اس نے مجھ سے پوچھا”کچھ پتہ چلا آپ کو ؟“۔۔ میں نے فون بند کر دیا ، میرے دل نے مجھے بتا دیا تھا میرا ”مہمان“ آج نہیں آرہا ، وہ اب کبھی نہیں آئے گا ، (جاری ہے)
تبصرے بند ہیں.