سائنس اور طب میں ترقی کے باوجود بچوں میں نمونیا موت کی ایک بڑی وجہ بنتا جا رہا ہے۔ 5 سال سے کم عمر بچوں کی اموات میں سے 14 فیصد، جبکہ 1 سے 5 سال کے بچوں میں ہونے والی اموات میں سے 22فیصد کی وجہ نمونیا ہے۔ ویسے تو نمونیا ترقی یافتہ ممالک میں بھی دیکھا جاتا ہے لیکن ایشیا اور افریقی ممالک کے بچے اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ نمونیا پیدائش کے فوراً بعد بھی ہو سکتا ہے جو کہ پیدائش کے دوران ماں سے بچے میں منتقل ہوتا ہے۔ نمونیا اگر شدید ہو جائے تو بچے کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے SDGs میں 3-2-1 بچوں کی صحت کی بہتری کے حوالے سے شامل کیے ہیں۔ اگر ہم تمام ممالک میں صحت کے حوالے سے بہتری کرنا چاہتے ہےں تو بچوں کی صحت کو بہتر کرنا ہو گا اور اپنی تمام تر توجہ بچوں کی صحت کی سہولیات میں اضافے پر مرکوز کرنا ہو گی۔ آج کل دنیا بھر میں ایڈز ایک بڑا مسئلہ بن کر ابھر رہی ہے۔ اس لیے ترقی پذیر ممالک کے ایسے علاقے جہاں ایڈز کا مرض زیادہ دیکھا جا رہا ہے، وہاں نمونیا اور اس سے ہونے والی اموات کی شرح میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ خاص طور پر افریقہ کے چند ممالک میں تو نئے پیدا ہونے والے بچوں میں سے 70 سے 80 فیصد ایڈز سے متاثرہ ہیں اور وہاں نمونیا ایک وبائی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔
نمونیا کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان عوامل کا جائزہ لیں جو نمونیا میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں جس میں اولین ماحول کی صفائی ہے۔ مائیں اور دوسرے افراد جو بچے کی نشوونما کو دیکھ رہے ہیں وہ صفائی کا خاص خیال رکھیں۔ جس ماحول میں بچے کو رکھا جائے وہ صاف ستھرا ہونا چاہئے، اس میں ہیٹر یا کوئلے کا استعمال کیا جائے تو اس سے نکلنے والے دھوئیں کے نکاس کا مناسب انتظام ہو تاکہ کمرے کے اندر ہوا آلودہ نہ ہو سکے۔ کمرے میں ہوا کی آلودگی کو کم کرنے کے لیے Airpurifier اور کسی کٹورے میں صاف پانی رکھا جائے تاکہ اس کے ذریعے کمرے میں نمی قائم رہے اور آلودگی کم ہوتی جائے۔ بچے کی صحت اور نمونیا سے بچاو¿ کے لیے ضروری ہے کہ کمرے میں افراد کی تعداد مناسب رکھی جائے۔ جب بھی کسی کمرہ یا گھر میں بہت زیادہ لوگ اکٹھے ہو جائیں تو بچے کی صحت اور خصوصاً سانس کے امراض پھیلنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ نمونیا کا مرض سانس لینے، کھانسنے یا چھینکنے کے ساتھ نکلنے والے وائرس یا بیکٹیریا کے ذریعے
کسی بھی متاثرہ مریض سے بچے کو لگ سکتا ہے اس لیے بچوں کو بیمار افراد سے دور رکھیں تاکہ یہ مرض سے بچے رہےں۔ اگر بڑوں میں نزلہ وزکام کا مرض ہو تو سانس کے ذریعے یہ چھوٹے بچے میں بآسانی منتقل ہو سکتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ چھوٹے بچے میں یہی مرض زیادہ شدت اختیار کر جاتا ہے اور نمونیا ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ نوزائیدہ بچوں کو گود میں لینے اور خواہ مخواہ پیار کرنے سے گریز کریں۔ اس طریقے سے جراثیم چھوٹے بچوں کو نمونیا ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ نمونیا کے جراثیم کھانستے یا چھینکتے ہوئے ہاتھوں پر منتقل ہو جاتے ہیں اور اگر بغیر صاف کیے یہی ہاتھ کوئی بچہ اپنی آنکھوں، چہرے یا منہ پر لگائے تو اس کو بیماری لگ سکتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ دن میں کئی مرتبہ سادہ پانی اور صابن سے بچوں کے ہاتھ دھلوائے جائیں۔ جو بڑے بھی نزلہ، زکام، کھانسی یا نمونیا کا شکار ہوں وہ بھی دن میں کئی بار صاف پانی اور صابن سے ہاتھ دھوئیں۔ اس سے نہ صرف ان کی صحت برقرار رہے گی بلکہ وہ دوسروں تک بیماری نہیں پھیلا سکیں گے۔ بچوں کی صحت بہتر کرنے کے لیے ماں کے دودھ کی بڑی اہمیت ہے۔ جو بچے پہلے 6 ماہ صرف اور صرف اپنی ماں کا دودھ پیتے ہیں ان کی دفاعی صلاحیت اور جسمانی طاقت باقی بچوں کی نسبت بہت بہتر ہو تی ہے۔ ایسے بچے ذہنی طور پر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان میں سانس کی بیماریوں کے ساتھ ساتھ اسہال، نمونیا، دمہ اور دیگر امراض کے خلاف بھی مدافعت زیادہ ہوتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ نوزائیدہ بچوں کو پہلے 6 ماہ صرف اور صرف ماہ کے دودھ پلایا جائے۔ ماں کا دودھ نہ صرف پہلی غذا ہے بلکہ پہلا حفاظتی ٹیکہ اور پہلی گھٹی بھی ہے۔ بچوں کو بہت ساری بیماریاں بشمول نمونیا سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی خوراک کا خاص خیال رکھا جائے۔ پہلے 6 ماہ کے بعد نیم ٹھوس غذا کا اضافہ کیا جائے اور آہستہ آہستہ اس کی خوراک میں اجناس، پھل اور پروٹین شامل کیے جائیں۔ بچے کی صحت کے بارے میں جاننے کا سب سے آسان طریقہ اس کے وزن کا ریکارڈ کرنا ہے۔ اگر بچے کا وزن ایک خاص ترتیب سے بڑھ رہا ہو تو یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی جسمانی نشوونما بہتر ہے اور وہ غذائی کمی کا شکار بھی نہیں ہے۔
اگر بچہ جسمانی طور پر کمزور ہو، غذائی قلت کا شکار ہو، اس کی دفاعی صلاحیت کمزور ہوتی جا رہی ہو، بچہ کسی ایسی جگہ رہنے پر مجبور ہو جہاں افراد کی تعداد زیادہ ہو تو اس صورت میں بچے کو سانس کی انفیکشن یا نمونیا ہو سکتا ہے۔ نمونیا کی تشخیص آسان ہے۔ کوئی بھی والدین بآسانی بچے کی بیماری کے بارے میں اندازہ لگا سکتے ہیں اور بروقت کسی ماہر ڈاکٹر سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ آسان طریقہ یہ ہے کہ اگر بچے کے سانس کی رفتار تیز ہو اور بچہ تیزی سے اور بوجھل طریقے سے سانس لینا شروع کر دے تو نمونیا کے بارے میں ضرور سوچیں۔ ہر عمر کے بچے کے لیے سانس کی رفتار مختلف ہوتی ہے۔ ایک ماہ سے کم عمر بچہ عمومی طور پر 30 سے 60 مرتبہ، 1 سے 3سال کا بچہ 24 سے 40 مرتبہ جبکہ 3 سے 6 سال کا بچہ 22 سے 24 مرتبہ ایک منٹ میں سانس لیتا ہے۔ اگر اس کی سانس کی رفتار ان حدوں سے زیادہ ہو رہی ہو تو بچے کو سانس کی کوئی انفیکشن بشمول نمونیا ہو سکتی ہے۔ سردی کے موسم میں مائیں اکثر بتاتی ہیں کہ بچے کی پسلیاں چل رہی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ سانس لینے کے دوران اگر پسلیوں کے درمیان یا پسلیاں جہاں ختم ہوتی ہیں وہاں گڑھے پڑ رہے ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سانس میں شدید دشواری ہے اور اگر اس کے ساتھ ساتھ بخار بھی ہو رہا ہو تو نمونیا کے امکانات زیادہ ہیں۔ مختصراً یہ کہ اگر چھوٹے بچے میں سانس کی رفتار زیادہ ہو، سانس لینے میں دشواری ہو اور اس کے ساتھ ساتھ کھانسی اور بخار بھی ہو تو نمونیا کے بارے میں ضرور سوچنا چاہئے اور اپنے معالج سے رابطہ کرنا چاہئے تاکہ بروقت بچے کا علاج کرایا جا سکے۔ کچھ ایسی علامات ہیں جو شدید نمونیا کی طرف اشارہ کرتی ہیں مثلاً اگر سانس لینے میں بہت زیادہ دشواری ہو جائے، بچہ کھانا پینا چھوڑ دے یا سانس کی دشواری اتنی زیادہ ہو جائے کہ کھانا پینا مشکل ہو جائے، بچہ نیلا ہو جائے تو فوری طور پر اپنے قریبی ہسپتال میں ماہر امراض بچگان کو دکھانا چاہئے تاکہ بروقت علاج کیا جا سکے۔ نمونیا سے بچاو کے لیے ضروری ہے کہ مائیں بچوں کا خاص خیال رکھیں، انہیں صاف ستھرا ماحول دیں، کسی ایسے بچے یا بڑے کے پاس انہیں نہ لے کر جائیں جو نزلہ، زکام یا کھانسی کا شکار ہو، بچے کی خوراک کا خیال رکھیں اور اس کی نشوونما پر دھیان دیں، دن میں کئی مرتبہ صاف پانی اور صابن سے اس کے ہاتھ دھوئیں اور نمونیا سے بچاو¿ کے لیے حفاظتی ٹیکوں کا استعمال بھی بہت ضروری ہے خاص طور پر کالی کھانسی، خسرہ، نمونیا اور HiB کی ویکسین لگوائیں۔ اس سے کئی قسم کے وائرس کا حملہ رک جاتا ہے اور بچہ نمونیا سے محفوظ ہو جاتا ہے۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.