ایک بینک ڈکیتی کے دوران ڈکیت نے چیخ کر سب سے کہا ’کوئی بھی نہ ہلے، سب چپ چاپ زمین پر لیٹ جائیں، رقم لوگوں کی ہے اور جان آپ کی اپنی ہے۔ سب چپ چاپ زمین پر لیٹ گئے۔ کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلا۔ اسے کہتے ہیں مائنڈ چینج کانسیپٹ (سوچ بدلنے کا تصور) ڈکیتی کے بعد گھر واپس آئے تو ایم بی اے پاس نوجوان ڈکیت نے پرائمری پاس بوڑھے ڈکیٹ سے کہا ’چلو رقم گنتے ہیں‘۔ بوڑھے ڈکیت نے کہا تم پاگل ہو گئے ہو اتنے زیادہ نوٹ کون گنے، رات کو خبروں میں سن لینا کہ ہم کتنا مال لوٹ کر لائے ہیں۔ اسے کہتے ہیں تجربہ جو کہ آج کل ڈگریوں سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
دوسری جانب جب ڈاکو بینک سے چلے گئے تو منیجر نے سپروائزر سے کہا کہ پولیس کو فون کرو۔ سپروائزر نے جواب دیا ’رک جائیں سر! پہلے بینک سے ہم دونوں اپنے لیے دس لاکھ ڈالر نکال لیتے ہیں اور ہاں وہ چالیس لاکھ ڈالر کا گھپلا جو ہم نے حالیہ دنوں میں کیا ہے وہ بھی ڈاکوو¿ں پر ڈال دیتے ہیں کہ وہ لوٹ کر لے گئے‘۔ اسے کہتے ہیں وقت کے ساتھ ایڈجسٹ کرنا اور مشکل حالات کو اپنے فائدے کے مطابق استعمال کرنا۔ منیجر ہنس کر بولا ’ہر مہینے ایک ڈکیتی ہونی چاہیے‘۔ اسے کہتے ہیں بوریت ختم کرنا، کیونکہ ذاتی مفاد اور خوشی جاب سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔
اگلے دن اخبارات اور ٹی وی پر خبریں تھیں کہ ڈاکو بینک سے سو ملین ڈالر لوٹ کر فرار۔ ڈاکوو¿ں نے بار بار رقم گنی لیکن وہ پچاس ملین ڈالر سے زیادہ نہ نکلی۔ بوڑھا ڈاکو غصے میں آ گیا اور چیخا ’ہم نے اسلحہ اٹھایا۔ اپنی جانیں رسک پر لگائیں اور پچاس ملین ڈالر لوٹ سکے، جبکہ بینک منیجر نے بیٹھے بیٹھے چند انگلیاں ہلا کر پچاس ملین ڈالر لوٹ لیے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ تعلیم کتنی ضروری ہے۔ ہمیں چور نہیں پڑھے لکھے ہونا چاہیے تھا۔ اسی لیے کہتے ہیں علم کی قیمت سونے کے برابر ہوتی ہے۔ ان سیاست دانوں نے بھی اس ملک کو اور غریب عوام کو بھی ایسے ہی سمجھ رکھا ہے۔ کڑی اور تیز تلوار کی دھار جیسی شرائط پر قرضہ لیں خود کھائیں، دامادوں کو کھلائیں، بیٹوں کو کھلائیں، سمدھیوں کو کھلائیں، عزیروں، رشتہ داروں کو کھلائیں، اپنے وزیروں پر نوازشات کے بادل برسائیں اور تھوڑا سا بچ جائے تو اسے کہیں بھی لگا کر اپنے نام کا چرچا کر لیں اور ساتھ دعا بھی کر لیں۔ اب آتے ہیں مہنگائی کے خوفناک اثرات پر۔۔۔ تو قارئین مہنگائی کے اثرات مزدوروں، لاوارث استادوں اور بے ڈھنگے ملازمین کو سولی پر چڑھا دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ بے ڈھنگے ملازمین وہ ہیں جن کے محکمہ جات میں رشوت کو عمل دخل نہیں ہوتا اور وہ خود ساختہ مسکینی اور عاجزی کی چادر اوڑھ کر زندگی بسر کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ پولیس پر مہنگائی کا اثر نہیں ہوتا کیونکہ سپاہی سے لے کر آئی جی تک حصہ برابر اور بقدر جثہ ملتا ہے اور خوب ملتا ہے بلکہ اتنا مل جاتا ہے کہ
باقی نسل بھی مستفید ہو جاتی ہے۔ فوج کے تو خیر اپنے ہی کھاتے ہیں۔ سپاہی بے چارے کسمپرسی کی حالت میں اور جرنیلوں کو پلاٹ اور باہر جزیرے خریدنے کی اجازت نہیں لینا پڑتی۔ بیوروکریسی کی تو اپنی بادشاہت ہے اور بادشاہت میں ہرکارے سے لے کر بادشاہ کے وارے نیارے ہوتے ہیں اور افسر شاہی کا تاج بھی ہمیشہ سر پر سجا رہتا ہے۔ واپڈا کی تو پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہوتا ہے۔ ایک چوری اور دوسری سینہ زوری والی مثال ان پر صادق آتی ہے۔ ایک لائن مین سے لے کر چیف تک پیسہ بھی عام بلکہ سر عام ملتا ہے اور بجلی رج کے چوری بھی کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ہمسایہ سے اگلے دس گھروں تک ہمسائیگی کے حقوق بحق شرح ادا کیے جاتے ہیں۔ ڈسٹرکٹ اکاو¿نٹس کا اپنا اکلوتا اور صاف ستھرا آئین ہے کہ بل کا دس فیصد ہمیں نذر کے طور پر عنایت کریں اور اس جائز کام کو مزید شفافیت کا درجہ ہم سے دلوائیں۔ اب آتے ہیں ہسپتال کی جانب۔۔۔ میڈیکل آفیسر کا بندہ پکڑیں اسے چار آنے لگائیں اور جعلی میڈیکل بل کو اصلی کرا لیں اور دام کھرے کر لیں۔ سیکرٹری تعلیم کے دفتر جائیں اڑھائی سے تین لاکھ مک مکا کریں اپنی مرضی کے کالج اور سکول میں تبادلہ کرائیں۔ (یہ کام پچھلے آٹھ ماہ سے اس تواتر اور پابندی سے ہوا ہے کہ کالجوں کے کالج خالی بھی ہوئے اور بھرے بھی۔۔۔ اس میں مرد و زن کی تخصیص تک نہ تھی، البتہ کسی شی میل کی ٹرانسفر سامنے نہیں آئی اگر یہ سلسلہ اسی کامیابی سے چلتا رہا تو عنقریب یہ واقعہ بھی رونما ہونے کا قوی امکان ہے۔ میں گزارش کرتا چلوں کہ ٹرانسفر کے واقعات عثمان بزدار اور کہنہ مشق سیاست دان اور وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کی ناک کے نیچے ہوتے رہے ہیں)۔
کسی نے بچھووں کے بڑے بچھو سے پوچھا کہ آپ سب پھرتے رہتے ہیں۔ جس کو جی چاہے ڈنگ مار دیتے ہیں ویسے آپ کے قبیلے کا سردار کون ہے؟ تو اس عمر رسیدہ بچھو نے کہا کہ آپ جس بچھو کی دُم پر ہاتھ
لگائیں گے وہی سردار ہو گا۔۔۔ یہی حال تمام اداروں کا ہے۔ آپ جس کی دم پر ہاتھ لگائیں گے وہ آپ کو کام کا ریٹ بتائے گا اور اپنے دام کھرے کرے گا اور شکر الحمد للہ اور اللہ اکبر کبیرہ بھی کہے گا اور بسا اوقات تو ہاتھ میں تسبیح بھی ہو گی۔ لہٰذا مہنگائی کا اثر چند گنتی کے لوگوں پر ہے اور وہ عنقریب بھوک سے مر جائیں گے۔ رشوت خور، بے ایمان، ملاوٹ کار، منافق، غیر ذمہ دار، اخلاق سے عاری اور مذہب کا لبادہ اوڑھنے والے معاشرے پر مہنگائی اثر نہیں کرتی۔ ایسے معاشرے اپنی آخرت کےساتھ ساتھ اپنی نسلیں بھی تباہ کر لیتے ہیں اور تاریخ میں ان کی حیثیت ایک مسخ شدہ قوم کے طور پر گردانی جاتی ہے۔ کاش ہم نے ان تمام کارہائے نمایاں سر انجام دینے سے پہلے کچھ علم بھی حاصل کیا ہوتا۔ اپنی خودی کو بھی برقرار رکھا ہوتا۔۔۔ اپنے وقار کی پہچان کی ہوتی۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.