جاپان دنیا کا خوشحال ترین ملک اور جاپانی دنیا کی مہذب ترین قوم ہے۔ سوری اور تھینک یو کے الفاظ ان کے جینز میں داخل ہیں اور یہ سوک سینس اور صفائی ستھرائی میں بھی نمبر ون ہیں۔ جاپان اس وقت دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے اور سال 2023 کے لیے جاپانی پاسپورٹ کو دنیا کا سب سے مضبوط ترین پاسپورٹ ڈکلیئر کیا گیا ہے۔ اوسط عمر کے حساب سے بھی جاپان دنیا کا پہلا ملک ہے اور یہاں لوگ بآسانی نوے اور سو سال تک جیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان میں نوجوانوں کی نسبت بوڑھوں کی تعداد زیادہ ہے۔ کیا کوئی سوچ سکتا تھا کہ ہیرو شیما اور ناگا ساکی کی تباہی اور اس زمینی سیارے پر قیامت سے پہلے قیامت کا سامنا کرنے والا ملک اتنی جلدی اپنی پاو¿ں پر کھڑا ہو جائے گا؟ اگر آپ جاننا چاہیں کہ جاپان کو جاپان کس نے بنایا تو اس کا ایک حرفی جواب ہے ”حقیقت پسندی“۔ جاپانیوں کے لیے ہیرو شیما اور ناگا ساکی کی تباہی کو ہضم کرنا اتنا آسان نہیں تھا، جاپانی خود کو سورج کی اولاد سمجھتے تھے اور ان کا یقین تھا کہ ہم دنیا کی امامت کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔ ہیرو شیما اور ناگا ساکی کی تباہی کے بعد جب بادشاہ نے ہتھیار ڈالنے اور شکست قبول کا اعتراف کیا تو جاپانی لوگ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے تھے۔ کئی فوجیوں نے خود کشی کر لی تھی اور ایک بہت بڑی تعداد جاپان کے جنگلوں میں روپوش ہو گئی تھی۔ لیکن بادشاہ نے خود پسندی کے زعم سے نکل کر حقیقت پسندی کو قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا، اس فیصلے نے نئے جاپان کی بنیاد رکھی اور کچھ ہی عرصے بعد جاپان ہیرو شیما اور ناگا ساکی کے سانحے سے نکل چکا تھا۔ اس سانحے سے نکلنے کے لیے اہل جاپان نے اپنے لیے کچھ اصول اور ضابطے مقرر کیے اور چند دہائیوں بعد امریکہ اور برطانیہ جاپان کی ترقی سے خوفزدہ ہو چکے تھے۔ جاپانی لوگ دنیا میں سب سے زیادہ کام کرنے والے لوگ بن گئے تھے، انہوں نے سالانہ اوسطاً پچیس سو گھنٹے کام کرنا شروع کر دیا تھا جبکہ جاپان کی نسبت امریکہ دوسرا محنتی ترین ملک تھا اور اس کے کام کرنے کی اوسط دو ہزار گھنٹے سالانہ تھی۔ جاپانی لوگ دنیا کے بہترین ورکر بن گئے، ایک جاپانی ٹیکنیشن اگر ایک گاڑی دس دن میں تیار کر دیتا تھا جبکہ اسی معیار کی گاڑی تیار کرنے کے لیے کسی دوسرے ملک کے ٹیکنیشن کو سینتالیس دن چاہئے ہوتے تھے۔ آج بھی کہا جاتا ہے کہ ایک جاپانی ورکر دنیا کے پانچ ورکرز کے برابر کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یہی وجہ ہے کہ جاپانی لوگ اوور ٹائم شوق سے کرتے ہیں اور اگر کوئی چھٹی کے فوراً بعد گھر چلا جائے تو اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ دوسرا ان لوگوں میں احساس ذمہ داری کا شعور بہت زیادہ ہے، یہ لوگ جس چیز کی ذمہ داری لیتے ہیں اس کے لیے دن رات ایک کر دیتے ہیں اور یہ احساس ذمہ داری بچپن میں ہی پیدا کرنا شروع کر دیا جاتا ہے۔ تیسرا یہ لوگ ہمت ہارنے والے نہیں ہیں، ان کا ماننا ہے کہ حالات کتنے ہی دشوار کیوں نہ ہوں سورج ضرور طلوع ہوتا ہے اور یہ دنیا میں سب سے پہلے سورج کو دیکھنے والی قوم ہیں۔ چوتھا یہ لوگ ٹیم ورک کے ماہر ہیں اور ٹیم ورک کے ساتھ کام کرتے ہیں، ان میں حسد نہیں ہے اور یہ ایک دوسرے کو سپورٹ کر کے خوش ہوتے ہیں۔ یہ وہ خصوصیات ہیں جنہوں نے ہیرو شیما اور ناگا ساکی جیسے زہریلے شہروں کو آج دنیا کا سب سے خوشحال، خوبصورت، مہذب اور ترقی یافتہ ملک بنا دیا ہے۔ ان خصوصیات میں سر فہرست ”حقیقت پسندی“ ہے اور اگر جاپانی لوگ حقیقت پسندی کا انتخاب نہ کرتے تو شاید آج دنیا کے نقشے پر جاپان کا نام و نشان بھی نہ ہوتا۔
پاکستان بھی ہیرو شیما اور ناگا ساکی جیسی کیفیات سے گزر رہا ہے بلکہ یہ قیامتیں اس پر گزر چکی ہیں، ان قیامتوں کے اثرات سماج پر مرتب ہو رہے ہیں اور اگر اب بھی ہم نے حقیقت پسندی کا اعتراف نہ کیا تو ہمارا وجود اور ہماری بقا خطرے میں پڑ جائے گی۔ کچھ طبقات اور اداروں کی طرف سے حقیقت پسندی کا اعتراف کیا گیا ہے مگر ہمیں من
حیث المجموع اور من حیث القوم حقیقت پسند ہو نے کی ضرورت ہے۔ مثلاً عسکری ادارے نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کر کے حقیقت پسندی کی جانب قدم بڑھایا ہے، جنرل باجوہ کے مختلف صحافیوں کے سامنے انکشافات اور خود پر ہونے والی تنقید پر خاموش اعتراف اس بات کا اشارہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں جنرل باجوہ سے پروجیکٹ عمران کے ضمن میں جو غلطیاں ہوئیں وہ اس پروجیکٹ کے خالق نہیں تھے بلکہ یہ پروجیکٹ ان کے گلے پڑ گیا تھا اور اس کے اصل ذمہ دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے 2011 میں اس پروجیکٹ کی بنیاد رکھی تھی۔ اس کا اصل کریڈٹ جنرل شجاع پاشا، جنرل کیانی اور جنرل راحیل شریف جیسے ”دور اندیشوں“ کو جاتا ہے جنہیں ایک نرگیست زدہ شخص میں چی گویرا اور انقلاب دکھائی دے رہا تھا۔ جنرل باجوہ کے سٹیج پر نمودار ہونے تک کہانی اور سکرپٹ مکمل طور پر تیار تھے اور ہائپ اتنی کری ایٹ کر دی گئی تھی کہ جنرل باجوہ بھی اس سحر میں گرفتار ہو گئے اور انہوں نے اس پروجیکٹ کو لانچ کر دیا۔ بس یہی ان کا قصور ہے اور اب اگر وہ اس غلطی کا اعتراف کر رہے ہیں اور بحیثیت ادارہ انہوں نے آئندہ ایسی غلطیوں اور پروجیکٹس میں ملوث ہونے کی تردید کر دی ہے تو ادارے کی اس حقیقت پسندی کو تسلیم کرنا چاہیے۔ لیکن صرف ایک ادارے کے حقیقت پسند بننے سے بات نہیں بنے گی، اس پروجیکٹ میں شامل دیگر اداروں کو بھی اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا ہو گا، عدلیہ کا ادارہ اگر اس پروجیکٹ میں ملوث رہا ہے تو اسے بھی حقیقت پسندی کا اعتراف کرنا ہو گا۔ اسی
طرح نیب اور الیکشن کمیشن کو بھی اپنی پوزیشن کلیئر کرنا ہو گی کہ وہ ماضی میں کس کس طرح استعمال ہوئے اور آئندہ ایسے کسی پروجیکٹ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ اس کے بعد سیاستدانوں کو بھی اپنی غلطیوں کا اعتراف اور حقیقت پسندی کا اظہار کرنا ہو گا اور ایک دوسرے پر جھوٹے الزام لگانے اور جھوٹی سوشل میڈیا کمپینز چلانے سے برا¿ت کا اعلان کر نا ہو گا۔ اور اگر کسی سیاستدان پر کرپشن یا کوئی اور الزام ہے تو ملزم اور مدعی دونوں میڈیا پر آئیں اور اپنا مو¿قف ثبوتوں کے ساتھ پیش کریں، ہم کوئی پتھر کے دور میں نہیں رہ رہے کہ جہاں حقائق واضح کرنا ممکن نہ ہو۔ یہ اکیسیویں صدی ہے اور یہاں حقائق اکٹھے کرنا کوئی مشکل امر نہیں ہے، روزانہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور جھوٹے الزامات لگانے سے بہتر ہے یہ لوگ ایک دفعہ میڈیا پر آئیں، ساری پاکستانی قوم کے سامنے بیٹھے کر ٹاک کریں اور ان مسائل کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیں۔ اس کے بعد سماج کے عام افراد بھی یکسوئی کے ساتھ کسی ایک پارٹی کو منتخب کر لیں۔
مذکورہ حقیقت پسندیوں کا اعتراف کوئی مشکل امر نہیں ہے لیکن اگر ہم اب بھی یہ نہیں کرتے تو ہمارے پاس وقت بہت کم ہے۔ ہم معاشی، سیاسی اور اخلاقی زوال کی جن گہرائیوں میں گر چکے ہیں وہاں سے نکلنے کاصرف یہی راستہ ہے۔ اور اگر ہم اب بھی نہ سنبھلے اور قدرت کے اس الارم کو سنجیدہ نہ لیا تو ہمارے ایٹم بم ہمیں بچا سکیں گے اور نہ ہی کوئی پڑوسی یا مسلم ملک ہمارا ہاتھ تھامنے کو آئے گا۔ ہم دنیا کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.