غلطیوں والے بابے

13

ایک بابا کہتا ہے کہ میں نے جنرل باجوہ کو توسیع دے کر سنگین غلطی کی حالانکہ بعد میں تاحیات توسیع دینے ایسی انوکھی پیشکش بھی کی۔ دوسرا بابا کہتا ہے کہ عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لیے چار جرنیلوں کی قربانی دی لیکن اِٹ واز اے بلنڈر۔ ایک بابا عمران خان اور دوسرا بابا جنرل باجوہ۔ ایک سال پہلے تک دونوں بابوں کی ایک دوسرے کے متعلق جو رائے تھی بلکہ رائے کیا یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ایک دوسرے پر جس طرح صدقے واری جاتے تھے اس کی مثال کم از کم پاکستان کی تاریخ میں تو نہیں ملتی۔ کون سی ایسی خوش قسمت حکومت تھی پاکستان کی تاریخ میں کہ جس کے لیے آن ڈیوٹی ڈی جی آئی ایس پی آر پورے میڈیا کو کہے کہ اگلے چھ مہینے سب اچھا کی مثبت رپورٹنگ کرنی ہے۔ ہمیں تو یاد نہیں لیکن اگر کسی کو یاد ہو تو ہمارے اور قارئین کے علم میں لا کر شکریہ کے ساتھ ثواب دارین بھی حاصل کریں۔ نواز لیگ کی قیادت اس بات کا اعتراف کر چکی ہے کہ 90 کی دہائی میں ان کا شمار لاڈلوں میں ہوتا تھا لیکن عشق و محبت کی جو داستانیں 2011 سے لے کر 2022 تک رقم ہوئی ہیں ان کی تو مثال ملنا مشکل ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی تو سدا سے راستے کا پتھر تھی لیکن نوے کے عشرے میں میاں نواز شریف ہی ایک چوائس تھی لیکن ان سے جتنی بھی محبت تھی اس کا جام دو ڈھائی اور تین سال میں ہی بھر جاتا تھا اور حکومت کو گھر بھیجنے میں کسی تکلف سے کام نہیں لیا جاتا تھا لیکن عمران خان انتہائی خوش قسمت ہیں کہ ان کے ساتھ پیار و محبت کی جو پینگیں ڈالی گئی تو ان کی مدت ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی اور یہ مدت اس وقت تک چلتی رہی کہ جب تک ملک کی تباہی کا جام لبا لب بھر کر چھلکنے نہیں لگا اور جو کچھ 2018 سے 2022 کے درمیان ہو چکا تھا اسے درست کرنے کے لیے جب خان صاحب کو ہٹایا گیا اور ایسے میں جب رات بارہ بجے تک عدالتوں کے دروازے کھول کر یہ تاثر دیا گیا کہ بس اب بہت ہو گئی تو ایسا لگا کہ واقعی اب رجیم چینج ہو گئی ہے لیکن بعد کے حالات و واقعات نے بھی ثابت کیا اور اب وزراء اور خاص طور پر مریم نواز کے بیان کے بعد پتا چلتا ہے کہ اصل رجیم چینج تو 28 نومبر کے بعد ہوئی
ہے۔ اسے کہتے ہیں لازوال محبت کی داستان کہ دونوں بابے تحریک انصاف کی حکومت جانے کے بعد ایک دوسرے کے متعلق کیا کچھ کہتے رہے لیکن اندر کھاتے ”محبتاں سچیاں نیں“ کی فلم چلتی رہی۔
سمجھ نہیں آتی کہ قوم کیا کرے اور کہاں جائے۔ ہم جب کسی کی تعریف کرنے پر آتے ہیں تو زمین و آسمان ایک کر دیتے ہیں۔ بڑی معذرت غلط کہہ گئے کسی کی تعریف کرنا اور بات ہے ہم آج کی تحریر میں جس بات پر بحث کریں گے اس میں تو صاف پتا چلتا ہے کہ خود ستائشی کے جذبہ کی آخری بلندیوں پر پہنچ کر اپنی تعریفیں کرائی گئی تھیں۔ کہنے کو تو ہمارے ملک میں جمہوریت وقت گزرنے کے ساتھ مضبوط ہوئی ہے لیکن درحقیقت جمہوریت وقت کے ساتھ کمزور ہوئی ہے اور مزید کمزور ہو رہی ہے۔ ہمارے ملک میں قیام پاکستان کے بعد شروع کے دو چار سال نکال دیں تو اس کے بعد سے آج تک کسی مائی کے لال میں اتنی جرأت ہی نہیں ہوئی کہ وہ آرمی چیف کے خلاف بات کرے۔ ہمیں چھوٹی موٹی باتوں میں کبھی کشش محسوس ہی نہیں ہوئی۔ ہم ہمیشہ پاکیئ دامن کی اعلیٰ ترین مسند سے ایک زینہ نیچے بھی کھڑا ہونا پسند نہیں کرتے۔ جنرل ایوب نے مارشل لا لگا دیا اور اس وقت وقت پاکستان آبادی کے لحاظ سے اسلامی دنیا کا سب سے بڑا ملک تھا تو اتنے بڑے ملک کے سیاہ و سفید کا مالک بن جانا کافی تھا لیکن پھر بھی تسلی نہیں ہوئی اور خود کو فیلڈ مارشل کا خطاب دلایا گیا اب ایسا کون سا کارنامہ انجام دیا تھا اس کا پتا نہیں۔ جنرل یحییٰ کے متعلق تو کہہ سکتے ہیں کہ بن کھلے ہی مرجھا گئے ورنہ دل ناتواں نے آخری دم تک اقتدار سے چمٹے رہنے کی کوشش ضرور کی تھی۔ جنرل ضیا آئے تو ”مرد مومن مرد حق“ بن گئے لیکن ان کی اس وقت تک تسلی نہیں ہوئی کہ جب تک انھیں صلاح الدین ایوبی قرار نہیں دیا گیا۔ اس کے بعد جنرل مشرف آئے تو انہیں ماڈرن کہلانے کا خبط تھا آپ کو یاد ہے کہ ملک پر قبضہ کرنے کے بعد میڈیا میں ان کی جو تصاویر آئی تھیں تو ان میں کتے کے ساتھ والی تصویر کا بڑا چرچا ہوا تھا اور پھر ہر دور کے تقاضے بھی مختلف ہوتے ہیں اور انہیں ویسے بھی صلاح الدین ایوبی اور مجاہد اعظم بننے کا کوئی شوق نہیں تھا اور فیلڈ مارشل لا کا دور بھی گزر چکا تھا اس لیے نئے دور کے تقاضوں کے عین مطابق ایک نئی ٹرم ایجاد ہوئی مشرف ڈاکٹرائن۔ یہ نام کچھ نیا بھی تھا اور ماڈرن بھی اور سب سے بڑی بات کہ دنیا کی اکلوتی سپر پاور کے صدور کے ساتھ کہا جاتا تھا کہ بش ڈاکٹرائن، اوباما ڈاکٹرائن۔ مشرف ڈاکٹرائن کی تو کچھ سمجھ آتی ہے کہ وہ ملک کے سیاہ و سفید کے مالک تھے تو ان کے دور اقتدار میں جو ہوا اسے مشرف ڈاکٹرائن کہہ لیں لیکن جنرل کیانی نے سگار پینے کے سوا کیا کیا تھا اور جنرل باجوہ نے کون سا تیر مارا تھا کہ کیانی ڈاکٹرائن اور باجوہ ڈاکٹرائن کی اصطلاح میڈیا میں لا کر قد بڑھانے کی کوشش کی گئی۔
موضوع بابوں کی غلطیاں تھیں اور بات بابوں کے دادا استادوں تک چلی گئی۔ دونوں بابے ایک دوسرے کے ساتھ محبت کی لازوال داستانیں رقم کرتے رہے اور یاد تو کریں کہ عمران خان جب تک حکومت نہیں گئی تو باجوہ صاحب کو جمہوریت کا رکھوالا اور ایک ٹاک شو میں تو تحریک انصاف کے ایک رہنما نے یہ کہہ کر جنرل باجوہ کو قوم کا باپ بنا دیا کہ آرمی چیف قوم کے باپ کا درجہ رکھتا ہے اس پر پروگرام کے میزبان نے ٹوکا کہ جناب کیا کہہ رہے ہیں اس طرح تو ہر تین سال بعد قوم کو اپنا باپ بدلنا پڑے گا۔ اس طرح کے جذبات دیکھ کر ہم بھی جذباتی ہو جاتے تھے اور کئی مرتبہ تو فرط جذبات میں آنسو نکل آئے لیکن بعد میں انکشاف ہوا کہ یہ سب تو مفاداتی محبتیں تھیں جیسے ہی حکومت گئی تو کون باجوہ اور کون عمران۔ دوست دوست نہ رہا، پیار پیار نہ رہا۔ کہاں جنرل باجوہ جمہوریت کے محافظ، قوم کے باپ اور کہاں تمام برائیوں کی جڑ۔ اسی دن کے لیے پنجابی کے مشہور شاعر انور مسعود نے کہا تھا کہ
تو کیہ جانیں بھولئے مجھے انار کلی دیاں شاناں
بھولی بھینس بھلا انار کلی کی شان کیسے جان سکتی ہے۔ ہم ٹھہرے بھولے پنچھی ہمیں کیا پتا کہ بیانیہ کیسے بنایا جاتا ہے اور پھر ہر بیانیہ کے بعد گذشتہ کے بر عکس ایک اور نیا بیانیہ گھڑ لیا جاتا ہے۔ پہلے جو بھی کام کیے جنہیں کارنامہ کہہ کر بیانیہ بنایا جاتا تھا اب وہ سب غلطی بن چکے ہیں۔ عمران خان سے گذارش ہے کہ ہر کام میڈ ان چائنا نہ کریں کوئی ایک کام تو میڈ ان جاپان کر لیں کہ جس کی کوئی معیاد تو ہو تاکہ وہ بعد میں غلطی نہ بن سکے۔

تبصرے بند ہیں.