خواتین میں سروائیکل کینسر…… کیسے ختم کیا جائے؟

13

کینسر کا لفظ خوف کی علامت سمجھا جاتا ہے اور جب کسی شخص کو یہ بتا دیا جائے کہ وہ کینسر کا مریض ہے تو اس کو اپنے سامنے موت منڈلاتی نظر آتی ہے۔ وہ سمجھنا شروع ہو جاتا ہے کہ اس کی اْلٹی گنتی شروع ہو گئی ہے اور کسی بھی دن واپسی کا بلاوا آ جائے گا۔ دنیا بھر میں ابھی کینسر کے حوالے سے تحقیق ہو رہی ہے۔ سروائیکل کینسر (Cervical) خواتین میں ایک ایسا کینسر ہے جس کو ناصرف بروقت تشخیص سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے بلکہ سکریننگ، عوامی آگاہی اور ویکسی نیشن کے ذریعے اس کینسر کو بننے سے روکا بھی جا سکتا ہے۔ اس وقت دنیا بھر میں ہر دوسرے منٹ میں ایک خاتون سروائیکل (Cervical) کینسر کی وجہ سے موت کی آغوش میں چلی جاتی ہے۔ ویسے تو یہ کینسر کسی بھی ملک کے افراد کو متاثر کر سکتا ہے لیکن اوسط درجے کے اور غریب ممالک میں اس کینسر کے ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہوتے  ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایسٹرن میڈیٹیرین ریجن (East Meditranion Region) کی خواتین میں پایا جانے والا یہ چھٹا سب سے بڑا کینسر ہے۔ صرف اس ریجن میں 2020ء میں 89800 خواتین میں سروائیکل کینسر کی تشخیص ہوئی جبکہ 47500 خواتین اس بیماری کے ہاتھوں جان کی بازی ہار گئیں۔ اس وقت دنیا نے ایک نئے لائحہ عمل پر کام کرنا شروع کر دیا ہے اور عالمی ادارہ صحت نے 90-70-90 کا ٹارگٹ اس لائحہ عمل کے مطابق طے کیا ہے اور اگر ہم اس پر عمل کرنا شروع ہو گئے تو سروائیکل کینسر کو ناصرف کنٹرول کر لیا جائے گا بلکہ یہ وہ پہلا کینسر ہو گا جس کو صفحہ ہستی سے ختم کر دیا جائے گا۔ سروائیکل (Cervical) کینسر کسی بھی عمر کی خاتون کو متاثر کر سکتا ہے لیکن عمومی طور پر خواتین اس کا شکار 30 سے 35 سال کی عمر کے بعد ہوتی ہیں۔ جیسے جیسے عمر بڑھتی جاتی ہے، سروائیکل کینسر کے ہونے کا امکان بڑھتا جاتا ہے۔ اس کینسر کی ویسے تو بے تحاشا وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن 99 فیصد کینسر کیسوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ اس کا تعلق HPV وائرس کے ساتھ ہے یعنی 100 میں سے 99 فیصد خواتین میں یہ انفیکشن بار بار رہ چکا ہوتا ہے۔ سروائیکل کینسر کا ایک اور تعلق اس خاتون کی سیکشوئل ایکٹیوٹی کے ساتھ ہے۔ جو خواتین عمر کے ابتدائی حصے میں جنسی عمل شروع کر دیتی ہیں یا جن کے تعلقات مختلف مردوں کے ساتھ قائم ہو جاتے ہیں یا ایسی خواتین جو شادی شدہ ہونے کے باوجود دوسرے مردوں کے ساتھ جنسی روابط قائم کر لیتی ہیں ان میں یہ مرض ہونے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ یہ سمجھ لیا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ یہ مرض خواتین میں جنسی بے راہ روی کی وجہ سے زیادہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ کسی بھی خاتون کے جتنے زیادہ مردوں کے ساتھ تعلقات ہوں گے، اتنا ہی زیادہ اس مرض کے پیدا ہونے کے امکانات ہوں گے۔ اس لئے کہ HPV وائرس جنسی عمل کے دوران مرد سے خاتون اور پھر خاتون سے مرد میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ اگر اسلامی شعائر کے مطابق عورتیں اور مرد صرف اپنے ہمسفر تک محدود رہیں تو اس قسم کے جراثیم منتقل نہیں ہو پاتے لیکن ان حدود کو پار کرنے سے یہ وائرس بآسانی مردوں سے عورتوں اور عورتوں سے مردوں میں منتقل ہونا شروع ہو جاتا ہے اور خواتین کی اندام نہانی کے خاص حصے جسے سروکس کہا جاتا ہے، میں کینسر بنانے کا باعث بنتے ہیں۔ جتنے زیادہ غیرمردوں سے تعلق قائم ہو گا اور جتنی زیادہ مرتبہ یا جتنے زیادہ سالوں تک یہ تعلق محیط رہے گا، اتنا ہی زیادہ یہ کینسر بڑھنے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے۔ اس بیماری کا تعلق انسان کی معاشی حالت کے ساتھ بھی ہے۔ اس لئے کہ غریب لوگوں میں اور غریب اور ترقی پذیر ممالک میں سروائیکل کینسر دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اِسی طرح اس کینسر کا تعلق انسان کی جسمانی صفائی کے ساتھ بھی ہے۔ ایسے لوگ جو جسم اور اندرونی اعضاء کی صفائی کا خیال رکھتے ہیں، ان کی نسبت ان لوگوں میں یہ مرض زیادہ دیکھا جاتا ہے جو صفائی کا اور طہارت کا خیال نہیں رکھتے۔ یہ مرض شروع میں لوکل کینسر کی صورت میں رونما ہوتا ہے اور کبھی کبھی خاتون میں ملاپ کے دوران خون کے چند قطرے نکلنا ہی اس کی واحد علامت ہو سکتے ہیں جسے عمومی طور پر نوٹس نہیں کیا جاتا اور مرض چھپا رہتا ہے۔ جیسے جیسے مرض آگے بڑھتا جاتا ہے، کینسر سیل پھیلنا شروع ہو جاتے ہیں اور پھر مختلف علامات آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ کینسر پھیلتے پھیلتے پہلے قرب وجوار کے نسوانی اعضاء کو متاثر کرتا ہے اور پھر یہاں سے آگے بھی پھیل سکتا ہے۔ مرض کی تشخیص کے لئے خواتین کے اندرونی اعضاء کا معائنہ بہت اہم ہے۔ ماہر گائناکالوجسٹ خواتین کے معائنے پر یہ پتہ لگا لیتے ہیں کہ کہیں سروائیکل کینسر تو موجود نہیں۔ اسی طرح ایک خاص سکریننگ ٹیسٹ جسے پیپ میئر (PAP Smear)کہا جاتا ہے، وہ کیا جا سکتا ہے جس سے اس کینسر کی تشخیص بہت ہی ابتدائی مرحلے پر کی جا سکتی ہے۔ یہ پیپ میئر (PAP Smear)ایک انتہائی اہم ٹیسٹ ہے اور آؤٹ ڈور میں بھی بآسانی کیا جا سکتا ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ 30 سال سے بڑی عمر کی ہر خاتون کو ضرور اپنا پیپ میئر کروانا چاہئے تاکہ کینسر پیدا ہونے کی صورت میں ابتدائی مرحلے پر ہی اس کو پکڑا جا سکے۔ بعض اوقات کینسر کی بہت ہی ابتدائی سٹیج میں تشخیص ہونے پر اس مرض کو مکمل طور پر ختم کیا جا سکتا ہے۔ آج کل دنیا بھر میں ہیومن پیپولوما وائرس کی ایک مؤثر ویکسین ایجاد کر لی گئی ہے اور دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں لڑکیوں کو سن بلوغت سے پہلے اس ویکسین کو لگا دیا جاتا ہے اور اس کا پورا ایک شیڈول ترتیب دیا جاتا ہے جس کے مطابق لڑکیوں میں 9 سال سے 14 سال کی عمر کے دوران اس ویکسین کی 2 ڈوزز لگائی جاتی ہیں۔ اور اگر بروقت طریقے سے اور شیڈول کے مطابق لڑکیوں کو یہ ویکسین لگا دی جائے تو HPV وائرس کی انفیکشن سے بچا جاسکتا ہے اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے کینسر کو بھی روکا جا سکتا ہے لیکن اس ویکسی نیشن کا عمل خواتین میں جنسی عمل شروع ہونے سے پہلے مکمل کر لینا چاہئے۔ اگر اس کے بعد ویکسی نیشن کی جائے تو اس سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوتے۔
عالمی ادارہ صحت کے ٹارگٹ 90-70-90 ایک بہت ہی اہم سٹریٹجی ہے۔ اس کے مطابق ان ممالک کو چاہئے کہ 15 سال تک کی لڑکیوں میں سے 90 فیصد کو HPV ویکسین مکمل کروائیں۔ 70 ٹارگٹ کا مطلب یہ ہے کہ 35سے 45 سال تک کی تمام خواتین میں 70 فیصد میں سکریننگ کو تواتر کے ساتھ مکمل کیا جائے اور 90 فیصد کا مطلب یہ ہے کہ سروائیکل کینسر کے ابتدائی سٹیج پر ہی ان کا علاج شروع کر دیا جائے۔ 90-70-90 کا ٹارگٹ حاصل کرنے کے لئے ہمیں عالمی ادارہ صحت کی طرف سے 2030ء تک کا وقت دیا گیا ہے کہ اس سے پہلے پہلے ہمیں یہ ٹارگٹ حاصل کرنا ہے۔ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں جہاں خواتین کے بارے میں کھل کر بات کرنا معاشرتی اور اسلامی لحاظ سے کوئی خاص مناسب نہیں، ایسے میں ہمیں اپنے پورے معاشرے کو ساتھ لے کر کینسر کی اس خاص قسم سے مل جل کر نبردآزما ہونا ہو گا۔ اس کے لئے ہمیں اپنے مذہبی رہنما، اپنے سماجی اور سیاسی رہنماؤں، ڈاکٹروں اور دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر عوامی آگاہی پیدا کرنی ہو۔

تبصرے بند ہیں.