میں نے اپنے ایک کالم میں ملک ریاض کے حوالے سے تفصیل سے تعریفی کالم لکھا تھا جس پر کچھ دوستوں نے کچھ اعتراضات کئے تھے۔کیسے ایک معمولی شخص پاکستان کا امیر ترین آدمی بن گیا؟ میں سمجھتا ہوں محنت اور جہد مسلسل ترقی کی معراج حاصل کرنے کی چابی ہے۔ایک ایسا شخص جس نے رعایتی نمبروں سے بمشکل میٹرک پاس کیا۔ اس نے پاکستان میں رہائشی سیکٹر میں ایک نیا ویژن متعارف کرایا۔ لوگوں کو ایک نیا لائف سٹائل دیا۔ یہ ایسا لائف سٹائل تھا جو صرف ہمیں بیرون ملک ترقی یافتہ ممالک یا فلموں ڈراموں کی کی حد تک نظر آتا تھا۔ اپنی فیلڈ کا تجربہ اور محنت اگر آپ کے پاس ہے۔ تو پھر نامکمل تعلیمی قابلیت کے ساتھ بھی آپ مکمل کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ ملک ریاض جب اپنی ان تمام صلاحیتوں کے ساتھ جہدوجہد کے میدان میں اترے تو ان کو سب سے زیادہ سامنا کرپٹ مافیا کا کرنا پڑا۔ ملک ریاض جیسے ذہین انسان نے صورتحال کو فوراً بھانپ لیا۔ انھیں اچھی طرح معلوم تھا کہ آگے بڑھنے کے لئے اس مافیاکو ہڈی ڈالنا ضروری ہے۔ ملک ریاض نے ایک اصولی فیصلہ کیا کہ پاکستان میں کام کرنا ہے تو کسی کو ناراض نہیں کرنا۔ ملک ریاض سے ایک صحافی نے پوچھا کہ پاکستان میں تو فائل آگے نہیں بڑھتی کچھ نہ کچھ لگانا ضرور پڑتا ہے۔ توآپ کیا کرتے ہیں؟ ملک ریاض کا جواب تھا کہ میں فائل کے نیچے پہیے لگا دیتا ہوں۔ایک مرتبہ ملک ریاض کی سوسائٹی کا ٹاؤن پلانر جو کہ میرا واقف بھی تھا، سے ملاقات ہوئی جو بڑی تیزی سے ڈرائنگز اور آرکیٹکچر ورک مکمل کرووا رہا تھا۔ ایسے لگ رہا تھا دفتر میں جنگ لگی ہوئی ہے۔ میں نے پوچھا کہ اتنی تیزی سے کام کروانے کی کیا ضرورت آن پڑی ہے۔ اس نے جواب دیا کہ ہمارے متعلقہ بیوروکریٹ کامحکمے سے ٹرانسفر ہو گیا ہے۔ اس لئے آج رات 12 بجے سے پہلے تمام فائلیں تیار کروا کرسائن کروانی ہیں۔ اگر آپ کی سیٹنگ ہے تو رات کو بھی دفتر کھلا ملے گا۔ یہ طریقہ ہے پاکستان میں کام کرنے کا۔ ملک ریاض نے سسٹم سے الجھے بغیر ترقی کرنے کا گْر سمجھ لیا تھا۔اس نے سرکار کو اتنی ہڈی ڈالی کہ ہر ایک کو رجا دیا۔ میں ملک ریاض کو ہرگز قصوروار نہیں سمجھتا بلکہ اس سسٹم کو ذمہ دار سمجھتا ہوں۔ ایک عام آدمی جو یہ راستہ اختیار نہیں کر سکتا تو وہ اتنی بڑی ترقی نہیں کر سکتا۔کرپٹ مافیا اسے کام ہی نہیں کرنے دے گا۔
وہ آپ کی فائلوں پر ایسے ایسے اعتراضات لگائیں گے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ تمام تر فارمیلٹی پوری ہونے کے باوجود آپ کے اتنے چکر لگوائیں گے آپ کو ساری عمرچکر آتے رہیں گے۔ پاکستان میں فارما سیوٹیکل کمپنی کے لئے لائسنس لینا بہت مشکل کام ہے۔ میرا ایک جاننے والا ہومیو پیتھک کے لائسنس پر ایلو پیتھک ڈرگز بھی بنا کر بیچ رہا تھا۔ پورے پاکستان میں اس کا بزنس تھا۔ ٹھیک ٹھاک پیسہ کما رہا تھا۔ لیکن ہر وقت ڈرا ڈرا رہتا تھا۔ میں نے ایک دن پوچھا کہ تم اتنے ڈرے ڈرے کیوں رہتے ہو؟ اس نے بتایا کہ میری دوائیاں تو ٹھیک ہیں لیکن لائسنس نہیں ہے۔ میں ڈرتا ہوں کہ پکڑا نہ جاؤں۔ کچھ عرصہ بعد ایسا ہی ہوا۔ وہ پکڑا گیا۔ جیل جانا پڑا۔ لیکن جب وہ جیل سے باہر آیا تو اس نے پھر سے وہی ایلوپیتھک دوائیاں بنانے کا کام پھر شروع کر دیا۔ اس بار وہ بالکل ہشاش بشاش تھا۔ میں نے مبارک باد دی کہ اب لگتا ہے تم سدھر گئے ہو اور لائسنس بنوا لیا ہے۔ اس نے زوردار قہقہہ لگایا اور بولا اب میں نے سیکھ لیا کہ کام کیسے نکلوانے ہیں۔ میں نے متعلقہ محکموں میں سیٹنگ کر لی ہے۔ اگر میں یہ سیٹنگ پہلے کر لیتا تو یہ نوبت ہی نہ آتی۔ اب میرا کام چار گنا بڑھ چکا ہے۔ میں حیرت سے اسے دیکھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ پاکستان کے کرنسی نوٹ پر درج ہے”رزق حلال عین عبادت ہے”۔ لیکن یہ انھی نوٹوں سے ایمان بیچتے اور خریدتے ہیں۔ 1994 میں میرا لوئر مال پر دفتر اور رہائش اکٹھی تھی۔ میں نے دونوں کے الگ میٹر لگوا رکھے تھے۔ مجھے ہمیشہ لائن سپرنٹنڈنٹ آ کر کہتا کہ آپ بلاوجہ ہی اتنا زیادہ بل دیتے ہیں۔ میرے ساتھ سیٹنگ کر لیں پھر آپ جتنے مرضی اے سی چلائیں آپ کا بل نہیں آئے گا۔ آپ کے فلاں فلاں ہمسائے کی بھی ہمارے ساتھ سیٹنگ ہے۔ آپ کا ہزاروں روپے کا بل ایڈجسٹ کر لیا کروں گا۔ میں نے اسے ہمیشہ منع کرتا کہ ہمارے بزرگوں کی نصیحت کہ چوری نہیں کرنی۔ اتفاق سے کچھ عرصہ بعد حکومت نے بجلی چوری روکنے کے لئے فوج کی مدد لینے کا فیصلہ کیا۔ میں نے لائن سپرنٹنڈنٹ سے کہا کہ اب کیا کروگے۔ تو اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ہمیں 15 دن پہلے ہی پتہ چل گیا تھا ہم نے سب کے میٹر نارمل کر دیئے ہیں۔ ہمیں کوئی نہیں پکڑ سکتا۔ میں اس کے اس ڈھٹائی پر اس کا منہ دیکھتا رہ گیا۔ 1996 میں منظور وٹو وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔اپنے کاموں کے سلسلے میں میرا مختلف دفاتر میں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ میرے ایک دوست پولیس کے بڑے افسر تھے۔ میں ان سے ملنے چلا گیا۔ وہ سخت غصے کی عالم میں تھے۔ میں نے وجہ پوچھی تو بولے کے میرے جوانوں نے اپنی جان پر کھیل کر 3 ڈاکو گرفتار کئے ہیں۔ لیکن اب وزیر اعلیٰ آفس سے فون آیا ہے کہ ان میں سے ایک ڈاکو چھوڑ دیا جائے۔ میں نے پوچھا تو کیا کریں گے۔ انھوں نے میری طرف دیکھا اور بولے میں وزیر اعلیٰ کو انکار نہیں کر سکتا۔ اس نے غصے میں تینوں کو چھوڑ دیا۔ میں حیرت سے انھیں دیکھتا رہ گیا۔ یہ ہے ہمارا سسٹم جس میں نہ کسی کا مال محفوظ ہے نہ جان۔ جن لوگوں نے ہماری حفاظت کرنی ہے وہ ڈاکوؤں کی سفارش کر رہے ہیں۔ میں اسوقت سوچتا تھا کہ یہ سسٹم کیسے چلے گا؟ لیکن میں کئی دہائیوں سے اس سسٹم کو ایسے ہی چلتا دیکھ رہا ہوں۔لوٹ مار کا چلن اتنا عام ہو گیا ہے کہ جو کام پہلے چوری چھپے ہوتا تھا۔ وہ اب سرعام ہوتاہے۔ سینہ تان کر اوراپنا حق سمجھ کر رشوت لی جاتی ہے۔ رشوت لینے والے سمجھ گئے ہیں کہ ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ ہر کام کی رشوت کا ریٹ طے ہے۔ اگر آپ شکایت کریں گے تو کہیں پر بھی آپ کی شنوائی نہیں ہے۔ مشہور ہے کہ اینٹی کرپشن کے محکمے میں سب سے زیادہ رشوت لی جاتی ہے۔ شکایت دور کرنے کی بجائے جس سے شکایت ہو اس سے حصہ وصول کر لیا جاتا ہے۔ اس سے چوروں کے حوصلے مزید بلند ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں فارن انسوٹمنٹ تو دور کی بات۔ لوکل انوسٹر بھی باہر بھاگ رہا ہے۔ میں ذاتی طور پر ایسے لوگوں کو جانتا ہوں۔ جنھوں نے مختلف محکموں کی بھتہ خوری سے تنگ آکر اپنی فیکٹریاں اور کاروبار بند کر دیئے۔ سارا پیسہ لے کر ملک سے باہر منتقل ہو گئے۔ آج ملک جس معاشی حالت سے گزر رہا ہے۔ اس کا بہت بڑا ذمہ دار ہمارا کرپٹ سسٹم اور وہ لوگ ہیں جو کرپشن کو کرپشن نہیں سمجھتے۔ آئی ایم ایف ہم سے مطالبہ کر رہا ہے کہ قرض کی قسط سے پہلے اپنے بیورو کریٹس کے اثاثے ہمارے سامنے رکھیں۔ اپنے ملک کا گورننس سسٹم ٹھیک کریں۔ ٹیکس چوری بند کریں۔ ایک ارب ڈالر کے لئے ہم نے آئی ایم ایف کے آگے گھٹنے ٹیکے ہوئے ہیں۔ کاش ہم یہ سب کچھ خود کرتے۔ عام آدمی کو چور اور ڈاکو بنانے کی بجائے قانون پسند اور ذمہ دار شہری بناتے تو غیروں کو ہم پر ایسے انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملتا۔ آج پوری دنیا فکرمند ہے کہ ایک ایٹمی ریاست دیوالیہ ہو گئی تو کیا ہو گا۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.