تبادلہ گاہ

28

جتنی بڑی تعداد میں روزانہ بلکہ ہر دس پندرہ منٹ بعد تبادلوں کی فہرستیں جاری ہو رہی ہیں یوں محسوس ہوتا ہے پاکستان اب محض ایک ”تبادلہ گاہ“ کے سوا کچھ نہیں ہے،نگران حکومت نے آتے ہی اور تو کچھ کیا نہیں تھوک کے حساب سے تبادلے کر کے ہمیں اس احساس میں مبتلا کر دیا نگران حکومت کا کام الیکشن کروانا نہیں تھوک کے حساب سے تبادلے کرناہوتا ہے۔ ایک افسر کا تبادلہ کیا گیا وہ اپنا تبادلہ کینسل کروانے کی درخواست لے کر اپنے سیکرٹری کے پاس پہنچا،اْنہوں نے فرمایا ”آپ کا تبادلہ کینسل نہیں ہو سکتا کیونکہ آپ کی اس عہدے پر تقرری سابق وزیر اعلیٰ نے کی تھی“ وہ افسر بولا ”سر آپ میری“سفارش“ مت دیکھیں میرا کام دیکھیں ”سیکرٹری صاحب مان نہیں رہے تھے،ماتحت افسر کی منت سماجت اور ہمت جب بالکل جواب دے گئی اْس نے سوال کیا“سر میری تقرری اگر سابق وزیر اعلیٰ نے کی تھی تو آپ کی اس عہدے پر تقرری بھی اْسی سابق وزیر اعلیٰ نے کی تھی،آپ کا تبادلہ اب تک کیوں نہیں ہوا؟“،اس کڑوے سچ پر سیکرٹری صاحب سیخ پاہو کر فرمانے لگے ”نکل جاؤ میرے دفتر سے ورنہ میں تمہیں ڈس مس کر دْوں گا“۔۔ اس موقع پر مجھے ایک بڑا دلچسپ واقعہ یاد آ رہا ہے،گورنمنٹ کالج کے ایک پرنسپل ہوتے تھے،اْن کا نام شاید فضا الرحمان تھا،وہ مکمل طور پر”فارغ البال“ یعنی پورے گنجے تھے،ایک بار ایک سٹوڈنٹ اپنے داخلہ انٹرویو کے لئے اْن کے پاس آیا،وہ فرمانے لگے ”آپ کا داخلہ نہیں ہو سکتا کیونکہ آپ کے بال بہت لمبے ہیں“ سٹوڈنٹ بولا ”سر آپ میرے بالوں کو نہ دیکھیں میرے نمبروں کو دیکھیں“،پرنسپل بولے ”نمبروں کو چھوڑو اور نکل جاؤ میرے دفتر سے،مجھے تمہارا ہئیر سٹائل پسند نہیں“ سٹوڈنٹ بے چارہ مسلسل منت سماجت کرتا رہا مگر پرنسپل اپنی اس بات پر اڑے رہے کہ مجھے تمہارا ہئیر سٹائل پسند نہیں،سٹوڈنٹ نے مایو س ہو کر اپنے کاغذ اْٹھائے اور پرنسپل آفس سے باہر نکلتے ہوئے پرنسپل کے گنجے سر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا ”سر اگر آپ کو میرا ہئیر سٹائل پسند نہیں تو مجھے بھی آپ کا ہئیر سٹائل پسند نہیں“۔۔ جب بھی مْلک میں نئے حکمران آتے ہیں فوری طور پر تبادلے شروع ہو جاتے ہیں،نئے حکمران اپنی پسند کے افسران کو مختلف اہم عہدوں پر تعینات کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں،اْن کے اس ”حق“ میں پاکستان بے چارہ ”ناحق“مارا جا رہا ہے،جتنی بڑی تعداد میں روزانہ تبادلے ہوتے ہیں اور جتنے اخراجات اْن پر ٹی اے ڈی اے کی صورت میں ہوتے ہیں مہنگائی اور جرائم پر قابو نہ پانے والے ہمارے حکمران اگر صرف ان تبادلوں پر ہی قابو پا لیں اس سے بچنے والی رقم سے پاکستان کا آدھا قرض تو ضرو چْکایا جا سکتا ہے۔۔ یہ ایک غیر ضروری مشق ہے جس کا کوئی فائدہ مْلک کو اور معاشرے کو نہیں ہو رہا،اْلٹا نقصان ہو رہا ہے،افسران کے بار بار تبادلوں کا کوئی جائز جواز ہمارے حکمرانوں کے پاس نہیں ہوتا،معاملہ صرف اْن کی ذاتی پسند و ناپسند اور مفادات کاہوتا ہے،کسی افسر کی تقرری یا تبادلے کے وقت اْس کی اہلیت نہیں دیکھی جاتی،بس یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ سیاسی حکمرانوں اور ”اصلی حکمرانوں“ کے ذاتی و مالی مفادات پورے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا نہیں؟،ہر شعبہ یہاں تنزلی کے آخری مقام پر کھڑا لڑکھڑا رہا ہے،جیسے پہلے ہم یہ کہتے تھے فلاں صحافی یا کالم نگار فلاں اخبار یا فلاں چینل کا ہے،اب کہتے ہیں فلاں صحافی یا کالم نگار فلاں جماعت کا ہے یا اسٹیبلشمنٹ کا ہے،اسی طرح ہمارے اکثر افسران بھی اب اپنے اداروں کے نہیں رہے سیاسی جماعتوں کے ہوگئے ہیں،وہ زمانے گئے
جب افسروں کے بارے میں کہا جاتا وہ ڈی ایم جی کا ہے وہ کسٹمز،انکم ٹیکس،فارن یا پولیس سروس کا ہے،اب سب ”سروس شْوز“ کے ہیں،یہی حال عدلیہ کا ہے،پاکستان کی بدقسمتی ہے اس وقت کوئی ادارہ ایسا نہیں جس کے بارے میں پورے وثوق سے کہا جا سکے وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں صحیح طریقے سے ادا کر رہا ہے،خصوصاً بیوروکریسی کی جو تباہی پچھلے کچھ برسوں میں ہوئی اْس کا ازالہ اگلے سو برسوں میں شاید ممکن نہیں ہوگا،اس تباہی کا ذمہ دار کوئی اور نہیں اعلیٰ افسران خود ہیں،اور شرمناک بات یہ ہے اْنہیں اس کا کوئی ملال بھی نہیں ہے،منیر نیازی کا ایک شعر اْن پر بڑا فٹ بیٹھتا ہے
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
پچھلے پانچ برسوں میں آئی جی اور چیف سیکرٹری عہدے کے کتنے اعلیٰ افسران تبدیل ہوئے؟ اْن کی تعداد خود حکمرانوں کو شاید معلوم نہیں ہوگی،اْن میں بے شمار افسران ایسے تھے جنہیں مکمل آزادی کے ساتھ اپنے عہدے کی معیاد اگر پوری کرنے دی گئی ہوتی اپنے شعبوں میں مثبت تبدیلیوں کے وہ انقلاب برپا کر دیتے،ان بہترین افسروں کو ہمارے سیاسی و اصلی حکمرانوں نے اپنے ذاتی و سیاسی مفادات پر قْربان کر دیا،مجھے اس بات کا ہمیشہ ملال رہے گا فیصل شاہکار جیسے شاندار پولیس افسر سے بھی ہمارے بدبخت حکمران کوئی فائدہ نہیں اْٹھا سکے،وہ اب یو این او میں پولیس ایڈوائزر ہیں،اْن کی بے پناہ صلاحیتوں سے اب وہی فائدہ اْٹھا رہے ہیں جو رنگ و نسل اور ذاتی اغراض سے بالاترہو کر کسی انسان کی صلاحیتوں کی قدر کرنا جانتے ہیں،ابھی حال ہی میں عامر ذوالفقار کی تقرری بطور آئی جی پنجاب ہوئی تھی،اْنہیں بھی چند ہی روز بعد ہٹا دیا گیا،جس قسم کا ”سیاسی دنگل“ آگے ہونے کا خدشہ لگا ہے ممکن ہے اْنہوں نے خود ہی اس گندگی کا حصہ بننے سے انکار کر دیاہو،اب ڈاکٹر عثمان انور کو لایا گیا ہے،اللہ کرے اْنہیں کچھ اچھے کام کرنے کی مہلت مل جائے۔۔ کوئی افسر ریاست کے مفادات قْربان کر کے محض حکمرانوں کی غلامی کو اپنا اعزاز بنا کر عہدہ بچا سکتا ہے عزت نہیں بچا سکتا،المیہ یہ ہے ہماری بیوروکریسی میں عہدے بچانے والوں کی تعداد عزت بچانے والوں کی تعداد سے کئی گْنا بڑھ گئی ہے۔۔ ایک افسر کا مکمل ریکارڈ میرے موبائل فون میں موجود ہے کہ کس طرح خان صاحب کی”تبدیلی“کا حصہ بننے کے لئے وہ بے چین تھا،اْس دور میں اپنی فیلڈ پوسٹنگ کے لئے کیا کیا پاپڑ اْس نے نہیں بیلے،کس کس کے در پر وہ نہیں جْھکا،پی ٹی آئی کے کئی راہنماؤں کی جْوتیاں تک چاٹنے کے لئے وہ تیار تھا،جب کہیں سے خیر نہ پڑی،اچھی پوسٹنگ کی کہیں سے بھیک نہ ملی تو نون لیگیوں کو یہ یقین دہانی کروا کر اچھی پوسٹنگ حاصل کر لی کہ وہ تو جنم جنم سے اْن ہی کا تھا،آئندہ بھی اْنہی کا رہے گا،وقت بدلتے دیر نہیں لگتی دوبارہ خان صاحب کی حکومت بننے کا کوئی”خطرہ“محسوسہا زمان پارک یا بنی گالہ میں سب سے پہلے ماتھا ٹیکنے والا افسر یہی ہوگا،ایک اور اعلیٰ افسر نے میری موجودگی میں اْس وقت کے وزیراعظم خان صاحب سے کہا‘”آپ کا یہ احسان ہم زندگی بھر یاد رکھیں گے آپ نے فرعون اور کرپٹ شریف برادران سے قوم کو ہمیشہ کے ہمیشہ لئے نجات دلا دی“۔۔ وہ افسر اب شریف برادران کی دوبارہ آنکھ کا تارا بن چْکا ہے،ایسے کئی شواہد کئی واقعات ہیں جن کی بنیاد پر پورے یقین پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے اس مْلک کی تباہی میں دوسرا بڑا ہاتھ ہماری منافق بیوروکریسی کا ہے،پہلا ہاتھ کس کا ہے؟ یہ بتانے کی ضرورت ہی اب محسوس نہیں ہوتی۔

تبصرے بند ہیں.