ابھی تو صرف مریم نواز ہے!

78

سیاسی حوالے سے ہمیشہ لکھا اور کہا کہ جب سیاست کھلے گی تو مناظر بدل جائیں گے۔ جب مریم نواز بیرون ملک تھیں اور بلاول بھٹو بطور وزیر خارجہ وطن عزیز کو عالمی تنہائی سے نکال کر اقوام عالم میں قابل ذکر مقام دلانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف معیشت کی بحالی اور معاملات کی درستی میں لگے ہوئے ہیں وطن عزیز میں سیاست صرف عمران نیازی کر رہے تھے۔ معین اختر، ببو برال، امان اللہ اور عمر شریف نے سٹیج کی دنیا میں ون مین شو سے شہرت پائی۔ عمران نیازی بھی وطن عزیز کی سیاست میں ون مین شو ہی کے ماہر ہیں۔ کوئی مانے نہ مانے عمران نیازی سے زیادہ خبروں میں رہنے کا اور موضوع بحث ہونے کا فن کسی اور سیاست دان یا فنکار کو نہیں آتا۔ ہمیشہ کہتا ہوں کہ موصوف جھوٹ بولتے ہیں، جواب میں سچ آتا ہے تو پھر ایک موضوع بن جاتا ہے۔ زمینی حقیقت ہے، عمران نیازی 2013 میں اپنی مقبولیت کے عروج پر تھے اور انتخابات میں جو 2013 میں ہوئے تمام تر جتن کے باوجود تیسرے نمبر پر بھی نہ تھے۔ پھر 2013 کے بعد میاں نوازشریف کے یرغمال اقتدار میں بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ سے نجات ملی، معیشت بھی بہتر ہوئی۔ 2017 میں آئی ایم ایف کو آئندہ گڈبائی کی بات کی گئی۔ 2018 میں شہرہ آفاق دھاندلی زدہ انتخابات میں عمران نیازی کو سلیکٹ کر لیا گیا۔ جس کی تفصیلات اور ساری کہانی بلکہ سازش کی پرتیں کھلنے لگیں۔ گو کہ عوام کو پہلے دن سے خبر تھی کہ وطن عزیز میں کس سکرپٹ پر عمل ہو رہا ہے۔ مگر رائٹر، ڈائریکٹر، انوسٹرز اب ساری کہانی خود بیان کر رہے ہیں۔ نیازی صاحب کی امیج بلڈنگ، کردار سازی کی گئی جبکہ مخالفین کی کردار کشی کی گئی۔ فریال تالپور بیمار عورت کو رات 12 بجے ہسپتال سے جیل منتقل کیا گیا۔ مریم نواز کو قیدی والد کے سامنے جیل سے گرفتار کیا گیا۔ زرداری صاحب کو جیل میں ڈالا گیا، ن لیگ کو ہدف بنایا گیا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت جیلوں میں رکھی گئی اور 70 سالہ لڑکا اعلان کرتا رہا، میں پاکستان جا کر نوازشریف سے سہولتیں واپس لوں گا۔ بزرگ لڑکے کا مسئلہ یہ رہا کہ اندر کا پلے بوائے ایک لمحہ کے لیے قرار نہ پا سکا اور قوم و معاشرت برباد ہو گئی۔ لڑکے کے سابقہ اعلانات اور بھڑکیں تو آپ کے سامنے ہیں۔ اب آتے ہیں نئے منظر نامے کی طرف، بجائے اس کے کہ حکومت گرفتار کرے ابھی صرف مریم نواز آئی ہیں تو
لڑکے نے آنے والے دنوں کا اندازہ لگایا کہ اب اس کا کوئی چورن بکنے والا نہیں تو جیل بھرو تحریک کی بات کر دی۔ محترمہ مریم نواز نے ابھی ایک آدھ جلسہ کیا ہے تو لڑکا بزرگ بننے لگا ہے۔ ابھی تو میاں نوازشریف نے آنا ہے اور پھر بلاول بھٹو نے اپنی دھواں دار اننگ شروع کرنی ہے لہٰذا مقبولیت ہوا، ہوا چاہتی ہے۔ لڑکے نے ابھی اعلان کیا ہے جیل بھرو تحریک کا۔ مولانا ابو الکلام آزاد اور مہاتما گاندھی کی جیل بھرو تحریک تاریخ کا حصہ ہے۔ وہ خود جیل جاتے تھے۔ تاریخ میں جدوجہد کی لازوال مثالیں موجود ہیں۔ مگر جو لوگ سمجھتے ہیں 1992 کو پاکستان معرض وجود میں آیا تھا، اگر انہیں نہیں معلوم تو اپنے بڑوں سے پوچھ لیں۔ کہ جمہوری آزادیوں کی جدو جہد میں پیپلز پارٹی اور بعد ازاں اس کی اتحادی جماعتوں کے ورکروں کا کیا کردار رہا ہے۔ نیازی صاحب ویلنٹائن کے کردار کے ساتھ سیاسی جدو جہد نہیں ہو سکتی۔ موصوف ارطغرل ڈرامہ دیکھ کر ہی ہیرو بننے چلے حالانکہ ارطغرل کوئی تاریخی کردار تھا نہ ہی اس افسانے کے کردار کی مسلمان ہونے کی کوئی گواہی ہے۔ ڈرامے میں شیخ ابن عربی کے مکالمے ڈال کر اس کو امر کرنے کی کوشش کی گئی۔ نیازی صاحب فلموں سے بہت متاثر ہیں، ظہیرالدین بابر پر بھی فلم بنانے کا ارادہ بھی فرمایا۔ جن 5 لوگوں کا محترمہ مریم نواز عمران بلنڈر کا ذکر کرتی ہیں اور پراجیکٹ عمران کی بات ہوتی ہے۔ ان کو چاہئے تھا کہ حقیقی اقتدار کے بجائے عمران نیازی صاحب کو ایک میگا بجٹ کے ساتھ فلم میں حاکم کا کردار دیتے جس میں موصوف کبھی سپہ سالار، کبھی بادشاہ، کبھی وزیراعظم، کبھی اپوزیشن لیڈر کی ٹوپیاں بدل بدل کر کردار ادا کرتے جیسے بھارتی اداکار سنجیو کمار نے ایک فلم میں سات مختلف کردار ادا کیے تھے۔ فلم فلاپ ہو جاتی مگر وطن عزیز ناکام ریاست کے دھانے اور ڈیفالٹ کر جانے کے خطرے سے دوچار ہونے سے بچ جاتا۔ رانا ثنا اللہ کہتے ہیں 29 نومبر تک بھی عمران نیازی کو سہولت کاروں کی مدد حاصل تھی۔ جس کا مطلب ہے وفاق میں اقتدار یرغمال تھا۔جیل بھرو تحریک کے اعلان کے بعد سے مجھے نیازی صاحب کی پولیس اور گرفتاری سے بچنے کے لیے 10/11 فٹ اونچے گیٹ جوتیاں چھوڑ کر بھاگنے والی تصویر آنکھوں میں گھوم گئی۔ موصوف چند دن جیل میں رہے اور تیسرے دن ہی سادہ کاغذ پر دستخط کر کے، کہ جو مرضی لکھ لیں، رہائی پائی۔ جیل بھر تحریک کے لیے لیڈر کا سولی چڑھنا، خاتون لیڈر آکسفورڈ کی گریجوایٹ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا مردوں کی جیل میں رہنا، زرداری صاحب کا طویل جیل کاٹنا، بلاول بھٹو کی طرح نوخیزی میں والدہ کی میت اٹھانا، محترمہ مریم کی طرح باپ کی آنکھوں کے سامنے گرفتار ہونا، میاں نوازشریف کی طرح لندن چھوڑ کر جیل میں آنا، قیادتوں کا جیل کاٹنا ضروری ہے۔ موصوف کے بڑھک باز تو آنسوؤں کی سیل لگائے بیٹھے ہیں۔ ایم آر ڈی کی تحریک تھی، ہر شہر کے بڑے چوک سے پانچ پانچ لوگ اور ایک ایک آدمی رضا کارانہ گرفتاری دیا کرتا تھا۔ ایک دن گوجرانوالہ سیالکوٹی دروازہ سے کسی نے گرفتاری دینا تھی، گرمیوں کے 5 بجے کا وقت تھا، میں بھی ادھر تھا۔ سیکڑوں لوگ دیکھ رہے تھے گرفتاری دینے والے اچانک نمودار ہوتے، ایک نوجوان سر پر پگڑی باندھے نمودار ہوا، اس کے ہاتھ میں مشعل تھی۔ مجھے آج تک دکھ ہے، اس کو پولیس والوں نے کچھ زیادہ نہ کہا لیکن جنرل ضیا کے وزیر کے گماشتوں نے مکوں، ٹھڈوں سے اس کی خوب پٹائی کی۔ پولیس والوں نے ان گماشتوں سے چھڑایا اور وین میں بٹھا کر لے گئی۔ مجھے یاد ہے جناب پرویز صالح، جو ضیا دور میں 11 مرتبہ سے زیادہ جیل گھر میں قید اور شاہی قلعہ کاٹ چکے، کے گھر میں ایک بریف کیس ہر وقت جیل جانے کو تیار ہوتا۔ محترمہ نصرت بھٹو سر پر 22 ٹانکے لگوا چکی تھیں۔ محترمہ بی بی شہید اور محترمہ نصرت بھٹو پر متعدد بار تشدد ہوا۔ گوجرانوالہ میں پولیس نے سیدھی فائرنگ کر دی۔ نیازی صاحب جدو جہد لوہے کے چنے ہیں یہ کوئی کوئی چباتا ہے، امیوں اور باجیوں کے تعارف سے آنے والے کسی فون پر سیاسی جماعت جائن کرنے والے اور صرف زبان درازی کے ماہر علت المشائخ میں مبتلا شیخ رشید جیسے لوگ اس سفر کے زاد راہ نہیں ہو سکتے۔ آپ بذات خود جھوٹ کے سمندر کے تیراک ہیں۔ جیلوں میں جگہ کم پڑ گئی تو چڑیا گھر اور چوک چوراہوں میں جنگلے لگا دیئے جائیں، عوام کی تفریح کا سامان بھی ہو گا اور آپ کی نظریاتی تربیت بھی۔ ویسے آپ نے جو اپنے دور اقتدار میں کیا ہے اگر قانون کی حکمرانی ہو تو جیلیں خود بخود بھر جائیں گی۔ آپ محترمہ مریم نواز اور بلاول بھٹو کے ڈر سے خودبخود جیل نہ جائیں۔
یہ مانگ بھرو سجناں فلم نہیں، جیل بھرو تحریک کا اعلان کر بیٹھے ہیں نیازی صاحب۔

تبصرے بند ہیں.