لاوارث جامعات!

136

سرکاری جامعات میں وائس چانسلروں کی تعیناتی کے حوالے سے ایک اہم اطلاع میری نگاہ سے گزری ہے۔ خبر یہ ہے کہ گورنر پنجاب محمد بلیغ الرحمن نے نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کو ایک مراسلہ ارسال کیا ہے۔خط میں گورنر نے وزیر اعلیٰ پنجاب کو لکھا ہے کہ وہ محکمہ ہائر ایجوکیشن اور جامعات کے انتظامی محکموں کو ہدایت جاری کریں کہ سرکاری جامعات میں وائس چانسلرز، پرو وائس چانسلرز، ڈینز، رجسٹرارز، خزانچی اور کنٹرولر امتحانات کی آئندہ چھ ماہ کے اندر خالی ہونے والی سیٹوں پر بھرتی کا عمل شروع کیا جائے۔اس ضمن میں گورنر سیکریٹریٹ نے وائس چانسلر کی خالی اور مستقبل قریب میں خالی ہونے والی سیٹوں کی فہرست بھی شیئر کی ہے۔گورنر نے مراسلے میں لکھا ہے کہ اہم عہدوں پر بر وقت تعیناتی نہ ہونے کی وجہ سے جامعات میں انتظامی امور اور تعلیمی سرگرمیاں متاثر ہوتی ہیں۔
گورنر صوبے کی تمام جامعات کا چانسلر ہوتا ہے۔ اچھی بات ہے کہ گورنر پنجاب نے بطور چانسلر اس اہم مسئلے کی جانب توجہ دی ہے۔ اسے المیہ ہی کہیے کہ ہماری بہت سی جامعات کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔ ان جامعات میں کئی ماہ سے وائس چانسلر کا عہدہ خالی ہے ۔ ایسی یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر کا عارضی چارج اضافی طور پر کسی دوسری جامعہ کے وائس چانسلر یا کسی سینئر پروفیسر کو عطا کر دیا جاتا ہے۔ اور پھر اسی وقتی انتظام کاری کے تحت کام چلتا رہتا ہے۔ اندازہ کیجئے کہ جامعہ پنجاب، جسے پاکستان نہیں، برصغیر کی معروف اور قدیم ترین جامعہ ہونے کا اعزا ز حاصل ہے، وہ بھی پچھلے کئی مہینوں سے مستقل وائس چانسلر سے محروم ہے۔ اسی طرح اوکاڑہ یونیورسٹی، جھنگ یونیورسٹی سمیت کچھ دیگر جامعات بھی مستقل سربراہان کے بغیر کام کر رہی ہیں۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مستقل سربراہان سے محرو م ان جامعات کی حالت زار کیا ہوگی۔ کسی یونیورسٹی کو چلانا آسان کام نہیں ہے۔کسی جامعہ کے وائس چانسلر کوتعلیمی اور تحقیقی سرگرمیوں کے فروغ کے علاوہ دیگر مسائل سے بھی نمٹنا پڑتا ہے۔ اساتذہ کی بھرتیوں اور ترقی کے معاملات ، اہم عہدوں پر تعیناتیوں کے فیصلے، طالب علموں کے داخلے، فیس اور ہاسٹل کے مسائل بھی درپیش رہتے ہیں۔ایک مصیبت یہ ہے کہ بہت سی سرکاری یونیورسٹیاں اساتذہ اور طلباءسیاست کا گڑھ بن چکی ہیں۔وائس چانسلر کو اساتذہ اور طلباءتنظیموں کا دباو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ مسائل کے انبوہ کثیر کی موجودگی میں ایک مستقل وائس چانسلر بھی نہایت مشکل سے جامعہ کا نظام چلاتا ہے۔اس صورتحال میں محدود اختیارات کا حامل ایک جز وقتی وائس چانسلر بھلا کیونکر بروئے کار آسکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ مستقل سربراہ سے محروم جامعہ کے تعلیمی، تحقیقی اور انتظامی معاملات تاخیر کا شکار رہتے ہیں۔
بلا شبہ کسی جامعہ میں وائس چانسلر کی تعیناتی ایک نہایت اہم معاملہ ہوتا ہے۔ لیکن کیا کیجئے کہ ہماری حکومتوں کی توجہ سیاسی اور قومی معاملات پر مبذول رہتی ہے۔سیاسی بے یقینی ، احتجاجی سیاست اور قومی مسائل میں گھری حکومتوں کو جامعات کی طرف توجہ دینے کا وقت کم کم ہی نصیب ہوتا ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے ہم حکومتوں کا یہی چلن دیکھ رہے ہیں۔جب پنجاب میں شہباز شریف وزیر اعلیٰ تھے، تب وزیر اعلیٰ کے تمام تر تحرک کے باوجود وائس چانسلر صاحبان کی تقرری کا معاملہ التواءکا شکار رہا کرتا تھا۔ایسا بھی ہو اکہ وائس چانسلروں کو انٹرویو کے لئے بلایا گیا ، لیکن پھر انٹرویو منسوخ ہو گیا۔ یا گھنٹوں انتظار کروانے کے بعد چند منٹ کی ملاقات کر کے معاملہ سمیٹ دیا گیا۔ عمران خان کے دور حکومت میں تو خیر سارا شعبہ تعلیم ہی بجٹ کٹوتی اور فنڈز کی کمی کی وجہ سے مشکلات کا شکار رہا۔ اس زمانے میں بھی جامعات کے سربراہان کی بروقت تعیناتیاں نہیں کی گئیں ۔دیگر صوبوں کے حالات کار بھی اس سے مختلف نہیں ہیں۔ ڈاکٹر مختار احمد نے چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن کا عہدہ سنبھالا تو ارباب اختیار کی توجہ اس حساس معاملے کی طرف مبذول کروائی۔ انہوں نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہیٰ اور گورنر بلیغ الرحمن سے اس سلسلے میں بات کی۔ ڈاکٹر مختار نے انہیں تجویز دی کہ جامعات میں ہونے والی تعیناتیاں بر وقت ہونی چاہیے۔ بصورت دیگر بہت نقصان ہوتا ہے۔
بہرحال اچھی بات ہے کہ گورنر بلیغ الرحمن کو اس بات کا احساس ہوا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ اب جامعات کو جز وقتی بنیادوں پر چلانے کے بجائے، مستقل تعیناتیوں کا عمل شروع کیا جائے گا۔ انٹرویوز کے بعد معاملہ لٹکانے کے بجائے، فوری طور پر تعیناتیوں کے حکم نامے جاری ہوں گے۔لیکن یہ کام بھی ہرگز آسان نہیں ہے۔یہ عمل شروع ہو گا تو تنقیدی آوازیں اٹھنے لگیں گی۔کچھ لوگ اعتراض اٹھائیں گے کہ نگران حکومت کا کام فقط الیکشن کا انعقاد ہے۔ وہ الیکشن کروائے اور گھر جائے۔ تعیناتیاں کی جاتی ہیں، تو ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ ان عہدوںکے کچھ امیدوار کورٹ کچہری کا رخ کریں ۔ دہائی دیں کہ نگران حکومت نے غیر آئینی کا م کیا ہے۔ حالانکہ ہمارے ہمسایہ ملک انڈیا میں انتخابات کے لئے بھی نگران حکومت کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔برسر اقتدار حکومت کی موجودگی میں تمام معاملات ایک خود کار نظام کے تحت چلتے رہتے ہیں۔لیکن ہمارا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ انہی رویوں کی وجہ سے ہمارے بہت سے اہم معاملات پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پاتے۔
وائس چانسلروں کی تعیناتی کے معاملے میں ابھی ایک اور رکاوٹ درپیش ہے۔ وائس چانسلر کی تعیناتی سرچ کمیٹی کرتی ہے۔ ہماری سرچ کمیٹیاں بھی تنازعات کی زد میں رہتی ہیں۔ شفقت محمود ایک اہم سرچ کمیٹی کے سربراہ ہیں۔بلاشبہ شفقت محمود پڑھے لکھے آدمی ہیں۔ سابق بیوکریٹ ہیں۔ تاہم سب جانتے ہیں کہ وہ تحریک انصاف کے اہم رکن ہیں۔ لہذا ان کی جانبداری پر بھی انگلیاں اٹھتی رہتی ہیں۔ یہ اطلاعات بھی سننے کو مل رہی ہیں کہ نئی سرچ کمیٹیوں کی تشکیل کا فیصلہ زیر غور ہے۔اللہ کرئے کہ اب یہ معاملہ آگے بڑھے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی گورنر کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے جامعات کے وائس چانسلروں اور دیگر عہدیداروں کی تعیناتی کا عمل شرو ع کریں اور اس کام کو جلد از جلد انجام تک پہنچائیں۔ جس طرح سیاسی بے یقینی ملک کے لئے نقصان دہ ہے، بالکل اسی طرح سے سربراہان سے محروم جامعات میں بھی بے یقینی کی کیفیت طاری رہتی ہے۔ جامعات سے بے یقینی کا خاتمہ نہایت ضروری ہے، تاکہ تعلیمی اور تحقیقی سرگرمیاں خوش اسلوبی سے جاری رہ سکیں۔

تبصرے بند ہیں.