پکڑ دھکڑ اور ملکی مسائل

15

اس وقت مہنگائی 48 سالہ بلند ترین سطح پہ جا پہنچی کہ عام آدمی کے لیے اپنے بچوں کا پیٹ پالنا اور اپنے گھر کا چولہا جلانا ہی زندگی کا ایک چیلنج بن کر رہ گیا ہے۔اقتدار کی جماعت یعنی (ن) لیگ جب اپوزیشن میں تھی تو پارلیمنٹ کے ہر اجلاس میں وہ یہی دعویٰ کرتی تھی کہ اگر ہم گورنمنٹ میں آئے تو ہم سب کچھ ٹھیک کر دیں گے سارے بگڑے کام شاید پی ٹی آئی کے کیے دھرے ہیں۔ اگر میں اپنی رائے دوں تو میرا جواب نا میں ہوگا۔وہ اس لیے کہ اس ملک کو ان سب جمہوری ٹھیکیداروں نے مل جُل کے کھایا اور ملک کو دیوالیہ کی حالت میں لا کھڑا کیا۔اس وقت مہنگائی کی صورتحال پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ اور ڈالر کی اونچی پرواز میں بھلے ہو ایک اہم فیکٹر یہ بھی ہے جتنے بھی سرمایہ دار تھے خواہ کھانے والی اجناس ہوں یا پھر ضروریات زندگی کی جب اُن کو اندازہ ہوا کہ ڈالر اور پیٹرول کی قیمتوں کے اضافے سے اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا تو انہوں نے چیزیں سٹاک کر لیں، جو چیزیں سٹاک کیں وہ مارکیٹ میں شارٹ ہو گئیں، پھر اُن تمام چیزوں کی قیمتوں کو ریوائز کیا گیا۔ جہاں تک میں اپنے تجربے کی بات کروں تو ایسا پہلی بار نہیں ہوا،جب بھی ملک اس طرح کی صورتحال سے دوچار ہوتا ہے، اشرافیہ اور ذخیرہ اندوزوں کی چاندی ہو جاتی ہے اور وہ یونہی اپنے پیسے کو دگنا کر لیتے ہیں۔ اس وقت آئی ایم ایف ہی واحد راستہ حکومت کے پاس رہ گیا ہے اس ملک کی صورتحال تیزی سے بہتر ہو سکتی ہے کہ اگر چند فیملیزہی اپنا پیسہ پاکستان میں لے آئیں تو ہمیں نہ آئی ایم ایف کے پاس جانا نہیں پڑے گا، ہاں میرا، اشارہ اُنہی لوگوں کی جانب ہے جنہوں نے انگریزوں سے بھی مراعات لیں اور پھر اس ملک کو بھی دونوں ہاتھوں سے لوٹا اور اب عوام کے سامنے روز نئی مجبوری پیش کرتے ہیں۔ ابھی چند روز پہلے نواز شریف کی جانب سے بیان جاری ہوا جس کو رانا ثنا اللہ نے کہا کہ نواز شریف کو بہت تکلیف ہوئی ہے موجودہ مہنگائی ہونے کی تو ن لیگ کچھ سوچے اپنا پیسہ پاکستان میں لائے اور نوازشریف کی تکلیف کو دور کریں کیونکہ اگر عوام کی تکلیف کو یہ سمجھتے ہوتے تو آج یوں بے دردی سے ملک کا پیسہ لوٹ کر باہر کے ملکوں میں نہ لے جاتے۔ عوام روٹی کو ترس رہے ہیں بجائے اس کے کہ اُس کا کوئی حل نکالا جائے اور مہنگائی کو کنٹرول اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جائے مگر ایک الگ پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ کبھی فواد چودھری اور کبھی شیخ رشید اور کبھی عمران خان کے عدالتی نوٹس عوام کی ساری توجہ اس جانب موڑ دی ہے تاکہ خود جو چاہیں وہ کریں عوام کو ان کی پکڑ دھکڑ میں کوئی دلچسپی نہیں اگر ہے تو مہنگائی میں کمی میں ہے۔ اس جنوری سے مہنگائی 27.55%ہوگئی ہے جو 1975کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ سرکاری ادارے کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال اسی ماہ شرح مہنگائی 13%تھی۔ اس سے قبل مئی 1975میں افراط زر 27.8% ریکارڈ کی گئی، اگست 2022میں افراط زر کی شرح 27.25، دسمبر میں 24.5% رہی۔ اگر میں مزید فیکٹ کی بات کروں تو لسٹ طویل ہو جائے گی۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق 600 سے 800ارب روپے ٹیکس لگانے اور ٹیکس آمدن پاکستانی معیشت کے ایک فیصد تک بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے،آئی ایم ایف کا مطالبہ ہے کہ ٹیکس ہدف 8300 ارب تک مقرر کیا جائے جبکہ پاکستان 7470 روپے ٹیکس ہدف جمع کرنے کے لیے پُرعزم ہیں،آئی ایم ایف نے مزید کہا کہ سیلز ٹیکس کی مراعات مرحلہ وار ختم کیے جائیں، پٹرول پر فوری سیلز ٹیکس 17%عائد کیا جائے، ٹیکسٹائل سمیت دیگر برآمدی شعبے کو 110 ارب روپے کا استثنیٰ ختم کیا جائے، وفاقی حکومت نے آئی ایم ایف کی شرط کو قبول کرتے ہوئے بجلی مزید مہنگی کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے نظر ثانی شدہ سرکلر ڈیٹ مینجمنٹ پلان بھی آئی ایم ایف کو دے دیا، فیصلے کے مطابق بجلی کی قیمت میں آئندہ ماہ 3روپے فی یونٹ مزید اضافہ ہو گا، مگر آئی ایم ایف کا تقاضا 300یونٹ تک سبسڈی ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ اب بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرکے 200ارب روپے ریونیو حاصل کرنے کا پلان ہے،جس سے گردشی قرضوں میں 952ارب کو ایڈجسٹ کیا جائے گا،اس طرح گیس کی قیمت میں بھی اضافہ کرکے حاصل ہونے والا ریونیو سے گردشی قرضوں میں ایڈجسٹ کیا جائے گا۔اب ان تمام فیکٹ کی بات اگر ہم کریں تو وہ تمام بنیادی اشیا کی قیمتوں میں آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق اضافہ کرنے سے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے انسان کی زندگی ڈسٹرب ہوگی۔ حکومتی اراکین کے آئی ایم ایف کے وفد کے ساتھ مذاکرات آج بھی ہونگے جس میں ایک شرط یہ بھی حکومتی جانب سے رکھی جائے گی کہ تھوڑی نرمی کی جائے شرائط میں۔ مگر افسوس! اگر زرداری، لغاری، ٹوانے، دولتانے، شریف خاندان اگر یہی ملک کا لوٹا ہوا پیسہ واپس ملک میں لے آئیں یہاں انویسٹمنٹ کر لیں یا انڈسٹریاں لگا لیں تب بھی ہمیں آئی ایم ایف سے قرض کی ضرورت نہیں پڑے گی مگر یہ ایسا کریں گے نہیں انہوں نے حکومت یہاں کرنا ہوتی ہے اور پیسہ اور رہنا ان کا باہر ہے۔ جس رفتار سے مہنگائی عروج پہ ہے، پیٹرول، گیس، بجلی کی قیمتوں میں جس طرح اضافہ ہو رہا ہے اس سے ہماری ملک کے مسائل ہمیں آنے والے وقت میں مزید بڑھتے ہی دکھائی دے رہے ہیں۔آئی ایم ایف سے اس بار قرض لے کر بھی صورتحال گمبھیر ہے وقتی طور پہ ایک آدھ ماہ تو اس سے گزر سکتا ہے مگر ان شرائط اور یوں بجلی، گیس، پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے سے ہماری پراڈکٹ مہنگی ہو گی اور ایکسپورٹ کی ڈیمانڈ نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی جس کا یقینی طور پر معیشت اور ہماری انڈسٹری پہ منفی پڑے گا۔ جب ہماری ایکسپورٹ کم رہ جائے گی تو مارکیٹ میں ڈالر ایک بار پھر شارٹ ہو جائے گا مزید کوئی نیا آپشن اب ہمارے سیاستدانوں کے پاس باقی نہیں بچا۔ یہ وقت قومی زندگی کی کئی جہتوں کے حوالے سے اہم فیصلے کرنے کا ہے۔ غلطیاں سب سے ہوتی ہیں ان سے سیکھ کے درست فیصلے کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے اگر سیاسی جماعتیں آپس میں یوں ہی الجھتی رہیں گی تو مستقبل کی بہتری کے لیے اب بھی بہتر فیصلے نہیں ہو سکیں گے۔

تبصرے بند ہیں.