کیا قربانی صرف عوام دیں گے؟

19

ہمارے ایک دیرینہ دوست چوہدری صاحب کا شمار ان محب وطن پاکستانیوں میں کیا جا سکتا ہے جو ہر وقت ملکی حالات کی وجہ سے پریشانی کا شکار رہتے ہیں اور اگران کا بس چلے تو چند ہی روز میں معاشرے کو سو فیصد نہیں تو کم از کم نوے فیصد تو ضرور ہی سدھار دیں۔ چوہدری صاحب ہر سماجی برائی، کرپشن، ناانصافی اور عدم توازن پر کڑھتے رہتے ہیں اور اگر کوئی مجھ جیسا ان کے قابو آ جائے اسے زبردستی اپنے فلسفہ سے مستفید بھی فرماتے رہتے ہیں۔
ایک روز گاڑی میں ان کے ساتھ کہیں جا رہا تھا۔ راستے میں ٹریفک سگنل پر گاڑی روکنا پڑی۔ اس موقع پر مختلف اطراف سے متعدد پیشہ ور بھکاری حملہ آور ہوگئے۔ ان بھکاریوں سے توچوہدری صاحب بس معذرت ہی کی لیکن اس کے بعدبڑھتی ہوئی گداگری کو موضوع بحث بنا کر باقی تمام راستہ حکومت، ضلعی انتظامیہ، ٹریفک پولیس اور رفاعی اداروں صلواتیں سنا نے میں گزرا۔ چوہدری صاحب ملکی سیاست میں بھی خاصی دلچسپی رکھتے ہیں۔ عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کے تو کٹر مخالف ہیں لیکن چند روز پہلے تک پی ڈی ایم میں شامل تمام ہی جماعتوں خصوصاً نواز لیگ کے لیے دل میں خاصہ نرم گوشہ رکھتے تھے۔ گزشتہ ہفتے جب حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں پینتیس روپے فی لٹر کا اضافہ کیا تو اگلے ہی روز صبح صبح ہی چوہدری صاحب کا فون آ گیا۔ سلام دعا کے بعد کہنے لگے کہ سنا ہے کہ حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو انتہائی غصہ میں بولے کہ کہ یہ لوگ (پی ڈی ایم والے) اگر اس قابل نہیں تھے کہ حکومت سنبھال سکیں تو انہیں اس پنگے میں پڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟ کہنے لگے کہ،’یہ زرداری تو عمران حکومت کے لیے کہتا پھرتا تھا کہ اس گرانے کے لیے کسی کاوش یا سازش کی ضرورت نہیں، اس کی حکومت تو اپنے وزن سے خود ہی گر جائے گی۔ کوئی اس سے پوچھے کہ جس حکومت میں یہ خود بھی شامل ہے اب اسے کون بچائے گا‘؟
چوہدری صاحب جب سیاسی معاملات میں
جلال میں آ جائیں تو پھر انہیں روکنا یا قابو کرنا کوئی آسان بات نہیں ہوتی۔ ان کی آواز بلند ہو جاتی ہے اور وہ رکھ رکھاو اور تمیز تہذیب کو بالکل ہی بالائے تاک رکھ دیتے ہیں۔ بس اس روز بھی ایسا ہی ہوا۔بات پیٹرول کی قیمتوں سے ہوتی ہوئی جہازی سائز کی کابینہ، حکومت میں شامل لوگوں کی کرپشن، ان کے پروٹوکول اور ان کے بیرون ملک دوروں، امن واماں کی بدترین صورتحال،ناقابل برداشت مہنگائی اور بیروزگاری تک پہنچ گئی۔ پھر شہباز شریف،نواز شریف، مریم نواز آصف زرداری، اسحاق ڈار، مفتاح اسماعیل غرض جس پی ڈی ایم لیڈر کا نام بھی ان کے ذہن میں آتا گیا اسے وہ صلواتیں سناتے چلے گئے۔ کچھ وقت تو میں نے یہ سب برداشت کیا پھر ایک ضروری کام کا بہانہ بنا کر معذرت کی اور چوہدری صاحب کا فون بند کر دیا۔
چوہدری کا فون تو بند ہو گیا لیکن میں دیر تک سوچتا رہا کہ اگر چہ چوہدری کی سوچ جذباتی ہے لیکن بات تو وہ بالکل ٹھیک کر رہا تھا۔اور اب تو شائد میرے سمیت پاکستان کے ہر شہری کی سوچ یہی ہو چکی ہے۔
پی ڈی ایم کی اعلیٰ قیادت سے چوہدری کا یہ سوال بھی انتہائی معقول ہے کہ جس وقت انہوں نے بھرپور کوشش اور ہر قسم کی کاوش اور سازش کر کے حکومت حاصل کی تھی اس وقت ملک کے معاشی حالات کوئی ڈھکی چھپی بات تو نہیں تھے۔ انہیں اپنی صلاحیتوں کا بھی بخوبی اندازہ تھا۔ تو پھر ایسی کیامصیبت پڑی تھی کہ ایک چلتی ہوئی حکومت جس کی معیاد پوری ہونے میں چند ماہ ہی باقی تھے کے خلاف تحریک عدم اعتماد لا کر اپنے گلے میں مصیبت ڈال لی۔ پھر اگرحکومت لینے کا فیصلہ کر ہی لیا تھا تو تھوڑی بہت قربانی خود بھی دے دیتے(جانے کیوں جب بھی قربانی دینے کی بات آتی ہے تو ہر حکومت غریب عوام کی جانب ہی کیوں دیکھتی ہے؟)لیکن بدقسمتی سے ہمیں ایسا بھی کچھ نظر نہیں آتا۔
ہمارے ملک میں طبقاتی تقسیم اس قدروسیع ہے کہ مہنگائی اور بیروزگاری کے اثرات صرف غریب یا متوسط طبقہ تک ہی محدود رہتے ہیں۔ جتنی مرضی مہنگائی ہو جائے امیروں کے لیے بنے ہوئے بڑے بڑے شاپنگ مالز اسی طرح آبادرہتے ہیں، کروڑوں روپے مالیت کی گاڑیاں بھی اسی طرح سڑکوں پر بھاگتی پھرتی ہیں، مہنگے ترین ہوٹلوں کے باہر اسی طرح گاڑیوں کی قطاریں لگی رہتی ہیں اور امریکہ، برطانیہ یا یورپ کا سفر کرنے والوں کی تعداد اس قدر زیادہ رہتی ہے کہ آسانی سے ٹکٹ تک دستیاب نہیں ہوتے۔غرض اگر یہ کہا جائے کہ مہنگائی کے اثرات صرف اور ٖصرف غریب آدمی پر ہیں، امیر آدمی کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑا تویہ بالکل بھی غلط نہ ہو گا۔
اگر بات کی جائے حکومت میں شامل عناصر کی تو بدترین معاشی صورتحال کے باوجود نہ توان کی سرکاری مال پر عیاشیوں میں کوئی کمی آئی ہے اور نہ ہی پرٹوکول میں، انقلاب اور غریب پروری کی بات کرنے والی حکومت کی کابینہ کا سائز اتنابڑا ہے کہ پچھلے ریکارڈ بھی ٹوٹ گئے ہیں۔اس سب پر مزید ستم یہ ہے کہ یہ مراعات یافتہ طبقہ اپنے اللے تللے کسی بھی طور کم کرنے کے لیے تیار نہیں اور شائد موجودہ حکومت میں بھی اتنی جرات بھی نہیں ہے کہ وہ اس بحران کا کچھ بوجھ مراعات یافتہ اور صاحب حیثیت طبقہ پر منتقل کر سکے۔
گزشتہ چند ماہ میں حالات نے جو رنگ اختیار کر لیا ہے اس میں تو لگتا ہے کہ شائد عمران خان کا یہ بیانیہ ہی درست تھا کہ ان پی ڈی ایم والوں کے پاس نہ کوئی سیاسی ایجنڈا ہے اور نہ ہی کوئی معاشی پروگرام یہ تو بس اپنے کیس ختم کروانے آئے ہیں۔ویسے تو خان صاحب کی زیادہ تر باتیں غلط ہی ثابت ہوتی ہیں یا پھر وہ ان پر یو ٹرن لے لیتے ہیں لیکن ان کی اس بات کی سو فیصد تصدیق کی جا سکتی ہے۔
موجودہ حکومت نے چند ہی ماہ میں عوام کے لیے جو صورتحال بنا دی ہے اس سے ایک بات کا تو واضع اشارہ ملتا ہے کہ یہ لوگ عنقریب الیکشن کروانے کے بالکل بھی موڈ میں نہیں۔ یعنی عوام کا امتحان ابھی جاری رہے گا۔ لیکن انہیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ بالخصوص ہمارے ملک میں صورتحال بدلتے ہوئے زیادہ دیر بھی نہیں لگا کرتی اگر کسی بھی طورحالات بدلے اور الیکشن کروانے پڑ گئے تو انہیں اپنی سیاسی حیثیت کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ عوام کا ردعمل اور غیض وغضب کیا چیز ہوتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.