پھر گرفتاریوں کا موسم

67

شہباز گل اور اعظم سواتی کے بعد فواد چوہدری گرفتار ہوئے، جس شام وہ رہا ہوئے اسی رات وفاقی وزیر شیخ رشید احمد، میرے صحافی دوست عمران ریاض خان اور چوہدری پرویز الٰہی کے لیگل ایڈوائزرعامر سعید راں گرفتار ہو گئے۔ اس سے پہلے چوہدری وجاہت حسین کی گرفتاری کے لئے پولیس کی بھاری نفری نے ان کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا اور ان سب سے پہلے چوہدری پرویز الٰہی کے ملازمین ان کے لئے شراب لانے کے الزام میں گرفتار کر لئے گئے۔ شیخ رشید احمد کی گرفتاری کی جو خبریں دی گئیں ان کے مطابق وہ نشے میں تھے اور ان سے بھی شراب کی بوتلیں اور اسلحہ برآمد کیا گیا۔ میں اپنی ذاتی اور صحافتی حیثیت میں ان گرفتاریوں کی مذمت کرتا ہوں اور بغیر کسی ابہام کے کہتا ہوں کہ گرفتاریوں کی مہم جو بھی چلا رہا ہے وہ پی ڈی ایم اور حکومت کا دوست نہیں ہے، ان گرفتاریوں سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ شدید سیاسی نقصان ہونے کا اندیشہ ہے۔ یہ میرا مشورہ اسی طرح کا ہے جس طرح میں نے پنجاب اسمبلی میں پولیس گردی کی مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ آپ نے بغیر کسی فائدے کے اپنے منہ پر ہمیشہ کے لئے کالک مل لی ہے۔ حمزہ شہباز اس کے بعد بھی وزیراعلیٰ نہیں رہے مگر وہ واقعہ اپنی جگہ پر موجود ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا۔
چلیں ، باری باری ان گرفتاریوں کو ڈسکس کر لیتے ہیں۔ شہباز گل اور اعظم سواتی کی گرفتاری الفاظ کی دہشت گردی پر ہوئی۔ میں خود اس دہشت گردی کا شکار رہتا ہوں مگر یہ بات درست ہے کہ افراد اور اداروں میں فرق ہوتا ہے۔ افراد برداشت کرلیتے ہیں مگر ادارے برداشت نہیں کرتے۔ شہباز گل اور اعظم سواتی نے جو زبان استعمال کی وہ قابل دست اندازی تھی۔ یہ بھی درست ہے کہ ان دونوں افراد کے خلاف کارروائی نے بہت ساروں کو ان کی زبانیں درست کرنے پر آمادہ کیا۔ شہباز گل نے گذشتہ روز ایک ٹوئیٹ کی جس میں انہوں نے مریم نواز کے لئے ( طنزا ہی سہی) مریم باجی کا لفظ استعمال کیا مگر مجھے تنقید، مخالفت اورطنز کا یہ انداز اچھا لگا۔ ہم سب کو تنقید اورمخالفت کا حق حاصل ہے مگر اس میں گالی اور بدبونہیں ہونی چاہئے۔ فواد چوہدری کی گرفتاری بھی ایک ادارے کو دھمکیاں دینے کے حوالے سے تھی۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کے ساتھ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کا ذکر کرتے ہوئے ان کے خاندان تک پہنچنے کی بات کی تھی۔ فواد چوہدری پاکستان کی ایک مقبول جماعت اور ایک مقبول رہنما کے ترجمان ہیں۔ا نہیں اپنی گفتگو میں دوسروں سے کہیں زیادہ احتیاط کرنی چاہئے مگر مجھے ایک سیاسی تجزیہ کار کے طور پر کہنا ہے کہ ان تمام گرفتاریوں نے گرفتار ہونے والوں کو سیاسی فائدہ دیا۔ یہ جانی مانی حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی میڈیا اور سوشل میڈیا کا بہترین استعمال کرنا جانتی ہے ۔ شہباز گل اور اعظم سواتی نے کامیابی سے تاثر دیا کہ ان پر تشدد کیا گیا ہے اور دوسری طرف فواد چوہدری کو کبھی سفید اور کبھی کالے کپڑوں میں لپٹ کر پیش کرنے نے بھی بہت برا تاثر دیا۔ فواد چوہدری یہ ثابت کرنے میں بھی کامیاب رہے کہ انہیں اپنی بیٹیوں تک سے بھی نہیں ملنے دیا حالانکہ جب وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ فوٹوئیں بنوا رہے تھے تو وہ اپنی بیٹیوں سے بھی مل سکتے تھے ۔مجھے شیخ رشید احمد کی گرفتاری بارے بھی کہنا ہے کہ اس وقت لال حویلی کامعاملہ اٹھانا، اسے سیل کرنا اور انہیں گرفتار کرنا سیاسی انتقام ہی کہلائے گا، اس کے سوا کچھ نہیں۔ یہی معاملہ چوہدری پرویز الٰہی کے ساتھ ہے۔ وہ اپنی ساری زندگی کی پرو اسٹیبلشمنٹ سیاست کے بعد اپنے بیٹے مونس الہی کے کہنے پر پی ٹی آئی کے ساتھ ڈٹے ہوئے ہیں۔ وہ پنجاب کے ایک سے زائد مرتبہ وزیراعلیٰ رہے ہیں۔ اگر آپ کے پاس ان کے خلاف کسی کرپشن کے ٹھوس ثبوت اور شواہد موجود نہیں ہیں تو یہ شراب لانے لے جانے جیسی باتیں بچگانہ ہیں۔ اس سے کہیں زیادہ ٹھوس مقدمہ اینٹی کرپشن نے محمد خان بھٹی اور مونس الٰہی کے خلاف قائم کیا ہے جس میں ان پر صرف ایک محکمے سے پچاس کروڑ روپے رشوت لینے کا ملزم قرار دیا گیا ہے مگر یہاں بھی ایک سوال ہے کہ یہی اینٹی کرپشن نگران حکومت قائم ہونے سے پہلے پی ٹی آئی والوں کو پچاس، پچاس برس پرانے مقدمات میں کلین چٹ دے رہا تھا اور رانا ثناءاللہ خان سمیت نواز لیگیوں کو مقدمات میں ملوث کر رہا تھا۔ اس کی ہر حکومت کے ساتھ کایا پلٹ کیوں ہوجاتی ہے؟
عمران ریاض خان میرے بہت اچھے دوست نہ سہی مگر میرے صحافی دوست ضرور ہیں۔ہمارا برسوں سے تعلق ہے۔ مجھے ان کے بہت سارے نظریات اور خیالات سے اختلاف ہے مگر یہی اختلاف تو جمہوریت اور دانش کا حسن ہے۔ صحافیوں کو ان کے موقف کی بنیاد پر گرفتار کرنا آئین، قانون اور سماج کی تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ عمران ریاض خان کے دلائل اگر غلط ہیں تو آپ اپنے درست دلائل سے ان کا مقابلہ کیجئے مگر ان کا مقابلہ پولیس اور ایف آئی اے کی بندوقوں سے ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔میں صحافت میں جانبداری اور غیر جانبداری کی بحث سے باہر آ چکا ہوں۔ میں نے دیکھا ہے کہ کوئی بھی بڑا اور نامور صحافی کبھی غیر جانبدار نہیں رہ سکتا۔ چاہے وہ مولانا ظفر علی خان اور حمید نظامی ہی کیوں نہ ہوں۔ جب آپ رائے رکھتے ہیں تو آپ جانبدار ہوجاتے ہیں۔ جب ایک عام دکاندار، سرکاری ملازم اور گھریلو خواتین رائے رکھ سکتی ہیں تو ایک صحافی کیوں نہ رکھے جس کے پاس فرسٹ ہینڈ انفارمیشن ہوتی ہے۔ صحافیوں کی گرفتاریاں بھی تاریخ کے صفحات پر رقم ہوجاتی ہیں۔ کیا بھٹو صاحب کے دور میں صحافیوں کو جیلوں میں پہنچانے اور ضیاءالحق کے دور میں انہیں کوڑے مارنے کی کالک آج تک ختم ہوئی، نہیں ہوئی، وہ موجود ہے او رموجود رہے گی۔ میری نظر میں ارشد شریف کا قتل بھی ہماری صحافتی تاریخ کے چہرے پر کلنک کا ٹیکا ہے، یہ جس نے بھی کیا، اس نے پاکستان کا منہ کالا کیا۔
میںنے ہمیشہ شریف فیملی کے گھروں پر پولیس چھاپوں، ان کی سیاسی مقدمات میں گرفتاریوں ، حراستی مراکز میں تذلیل کی مذمت کی ہے۔ میں آج بھی کہتا ہوں کہ نوے ، نوے روز کے ریمانڈ ظالمانہ تھے اورنیب کے قوانین میں تمام نہیں مگر بہت ساری تبدیلیاں بالکل درست کی گئی ہیں۔ نواز شریف سے مریم نواز، خواجہ سعد رفیق سے رانا ثنا اللہ تک سب سیاسی قیدی ہی تھے لیکن آج جس طرح گرفتاریوں کا موسم لایا گیا ہے وہ بھی تعریف کے قابل تو کیا دفاع کے قابل بھی نہیں ہے۔ ایک ایسا فقرہ بھی سن لیجئے جو بہت ساروں کی نظر میں قابل اعترا ض ہوسکتا ہے کہ آپ کمزور مقدمات اور کمزور بیانئیے کے ساتھ یہ گرفتاریاں کر کے دراصل انہیں ہیرو بنا رہے ہیں اور دوسری طرف بڑھتی ہوئی مہنگائی آپ کوولن بنا رہی ہے۔ آپ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آپ مہنگائی سے گرفتاریوں تک کچھ بھی ’ جسٹی فائی‘ نہیں کر پا رہے ۔

تبصرے بند ہیں.