لڑکھڑاتی معیشت اور بڑھتی دہشت گردی!!

20

دہشت گردی کیا ہے؟ کیوں ہے؟ کب تک رہے گی ؟ یہ کس کو فائدہ پہنچاتی ہے ؟اور پاکستان میں اس کے اثرات اس قدر زیادہ کیوں ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو اکثر پاکستانیوں کے ذہنوں میں تو ہوں گے لیکن ان کے مناسب جواب نہیں ملتے ۔
ویسے تو دہشت گردی کی بے پناہ اقسام ہیں جیسے کہ کسی ہوائی جہاز کی ہائی جیکنگ، کسی فرد یا افراد کو اغواکرنا یا یرغمال بنانا یا پھرکسی عوامی مقام پر بم دھماکہ یا فائرنگ کرنا ( یہ دھماکہ نصب شدہ بم سے بھی ہو سکتا ہے ، کار بم سے بھی اور خود کش بھی) اس کے علاوہ مختلف قسم کی سیاسی دہشت گردی ایک نسبتاً نئی چیز ہے ۔
دہشت گردی یا ٹیررازم کی اصطلاح 1790 میں انقلاب فرانس کے دوران انقلابی قوتوں کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں کے نتیجہ میں وجود میں آئی اور اس کے بعدیہ مختلف شکلیں اختیار کرتی رہی اور نہ صرف علیحدگی پسند اور دہشتگرد تنظیمیں بلکہ حکومتیں اور مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتیں بھی سیاسی فوائد حاصل کرنے کے لیے اس کا استعمال کرتے رہے ۔
ہمارے ملک میں فوجی آمر ضیا الحق اور پرویز مشرف کے ادوار میں یہ سلسلہ پاکستان میں بھرپور انداز میں پھلا پھولا لیکن اس کے اثرات کا سلسلہ جمہوری ادوار میں بھی چلتا رہا۔اگرچہ پرویز مشرف دور میں شروع ہونے والی دہشت گردی پر 2013 میں شروع ہونے والی نواز شریف حکومت کے دوران کافی حد تک قابو پا لیا گیا تھا لیکن ہم نے دیکھا کہ گزشتہ کچھ ماہ میں اس نے دوبارہ سر اٹھا لیا ہے۔
یہاں یہ بات جواب طلب ہے کہ جب ملک میں دہشت گرد دوبارہ منظم ہونا شروع ہوئے اور انہوں نے اپنی تخریبی کارروائیوں کا دوبارہ آغاز کیا تھا تو عمران خان حکومت، اس کے بعد قائم ہونے والی پی ڈی ایم حکومت اور ہمارے سکیورٹی اداروں نے دہشت گردی کی اس نئی لہر کو ابتدائی سٹیج پر ہی سختی سے
کچل کیوں نہیں ڈالا۔یہ پالیسی کی کمزوری تھی یا پھر مناسب ایکشن لینے میں تاخیر۔وجہ جو بھی رہی ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ کہ ایسا نہ ہو سکنے کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمیں چھوٹے لیول کی متعدد کارروائیوں کے بعد پشاور میں گزشتہ ایک دہائی کے سب سے بڑے دھماکے جیسا سانحہ کو برداشت کرنا پڑا جس میں سو سے زائد پولیس اہلکار جاں بحق ہوئے۔
ؑؑٓواضح رہے کہ جب ہم ایک سو یا اس سے زیادہ کا عدد بتاتے ہیں تو اس مراد سو افراد نہیں بلکہ سو خاندان ہوتے ہیں۔جن کا کوئی اپنا یا پیارا چلا گیا یقینا اس کے لیے تو زندگی بھر کا صدمہ ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس قسم کا کوئی واقعہ رونما ہونے کے بعد بجائے اس کہ کہ اس قسم کی صورتحال اور کمزوری کا کوئی مستقل سد باب کیا جائے ہمارے سیاستدانوں بالخصوص حکومت میں شامل لوگوں کا وہی رٹے رٹائے بیانات دینے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔کوئی کہتا ہے کہ یہ بزدلانہ اقدام ہے تو کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ دہشت گردوں کو اس قسم کی کارروائیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔کوئی ان ’سمجھداروں ‘ سے پوچھے کہ کیا ان دہشت گردوں نے تم سے پوچھ کر کوئی کاروائی کرنی ہے جو تم اجازت نہیں دو گے۔
پشاور دھماکے کے بعد ابتدائی طور پر خیال کیا جا رہا تھا کہ یہ کارروائی تحریک طالبان پاکستان کی ہے لیکن بعد ازاں ہمارے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے وضاحت کی کہ یہ کارروائی انہیں کے ایک منحرف دھڑے خراسانی نے کی ہے اور انہوں نے اس واقعہ کی ذمہ داری بھی قبول کر لی ہے۔ موجودہ حالات میں شائد یہ اتنا اہم نہیں کہ ذمہ کس نے قبول کی ہے، اس سے بہت زیادہ اہم یہ ہے کہ کس نے اپنی ذمہ داری ٹھیک سے ادا نہیں کی جو اتنا بڑا سانحہ رونما ہو گیا اور مزید یہ کہ کیا اقدامات کیے جا رہے ہیں کہ آئندہ اس قسم کے اقدامات نہ ہوں۔
عوام کو بھی اب سیاستدانوں کی روائتی چکر بازی کو سمجھنا چاہیے ۔ جب بھی کوئی بڑا واقعہ رونما ہوتا ہے یہ لوگ فوراً ہی ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ ایک تو اصل معاملہ کی سنگینی سے توجہ ہٹ جاتی ہے اور دوسرا ذمہ داری کا تعین ہی نہیں ہو پاتا۔آج بھی ایک دوسرے پر الزام لگانے والے سیاستدان ہر وقت کسی نہ کسی طور حکومت میں شامل ہوتے ہیں انہیں ، جیسا کہ یہ دعوے کرتے ہیں، اگر عوام کی اتنی ہی پروا ہوتی تو یہ ان کی بہبود اور تحفظ کے مناسب انتظامات کرتے ، نا کہ ان کو مہنگائی اور دہشت گردی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا۔
اس وقت ملک کی صورتحال یہ ہے کہ ایک طرف معاشی بدحالی نے حکومتی کارکردگی کا پول کھول دیا ہے تو دوسری طرف ایک مرتبہ پھر سے سر اٹھاتی ہوئی دہشتگردی نے ان کی انتظامی صلاحیتوں کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ ملکی حالات یقینی طور پر اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اب یہ معاملات الزام تراشیوں یا پھر کاسمیٹک قسم کے عارضی حل پیش کرنے سے ٹھیک ہونے والے نہیں۔ بات کسی ایک پارٹی یا پھر کسی سیاسی اتحاد کے بس کی بھی نہیں اس کے لیے تمام سیاسی پارٹیوں اور اداروں کو مل کر بیٹھنا ہو گا اور مسئلہ کا حل نکالنے کی کوشش کرنا ہو گی۔
اگر سمجھا جائے توبڑھتی ہوئی دہشت گردی ایک الارم ہے جس پر تما م سیاسی قیادت اور سکیورٹی اداروں کو فوری اور مکمل توجہ دینا ہو گی۔ اگر ان سیاسی پارٹیوں( خاص طور پر عمران خان صاحب کیونکہ وہ ہر وقت میں نہ مانو کی فیز میں رہتے ہیں ) کو وطن سے تھوڑی بھی محبت ہے یا وہ واقعی اس کے حالات میں بہتری لانے کی خواہش دل میں رکھتے ہیں تو پھر ان سب کو میثاق معیشت بھی کرنا ہو گا اور امن وامان کی صورتحال پر بھی کوئی مستقل اور جامع پالیسی بھی بنانا ہو گی کیونکہ اگر تکنیکی اعتبار سے دیکھا جائے تو کمزور اور لڑکھڑاتی ہوئی معیشت اور دہشت گردی کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور یہ قدم قدم پر ایک دوسرے کو فائدہ پہنچا رہے ہیں اور اگر ہم حالات میں واقعی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو دونوں کو بیک وقت کنٹرول میں لانا ہوگا۔

تبصرے بند ہیں.