آج یہ کالم لکھتے ہوئے بہت تکلیف ہو رہی ہے کہ جب سے شعور سنبھالا ہے ہم ایک ہی بات سنتے چلے آئے ہیں کہ ملک کی معاشی صورتحال نہایت نازک ہے۔ملک نازک صورتحال سے گزر رہا ہے۔ملک پچھلے پچھتر سال سے نازک صورتحال میں ہی ہے مگر جو حکمرانی کے لیے آتا ہے اُس کی حالت نازک نہیں رہتی وہ تو خوب پھلتا پھولتا ہے ۔
اسفند یار ولی کے بقول ایک بار منسٹر جو بنے گا وہ اپنی سات نسلوں جتنا کما لیتا ہے۔اب اسی بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک آج اس صورتحال تک کیسے پہنچا۔سب سے اہم بات کہ جماعت کوئی بھی ہو آپ احتساب کے لیے کسی پہ بھی ہاتھ ڈالیں گے تو شور،احتجاج ،جمہوریت خطرے میں ملک کا دیوالیہ جیسے الفاظ کہہ کر آج تک جان چھڑاتے ہیں۔
باتیں سب کرتے ہیں مغرب کی مگر کام ایک بھی اُن جیسا نہیں۔ملک سے باہر جا کر یہ خود لائنوں میں بھی لگ جاتے ہیں مگر یہاں عوام کو آٹے کے لیے لائنوں میں لگواتے ہیں۔پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تو اُس نے بھی کوئی تیر نہیں مارا اُنہوں نے آکر مزید کاموں کو بگاڑ کر رکھ دیا۔
پی ٹی آئی کے ایسے کئی ایم پی اے اور ایم این ایز کو میں ذاتی طور پہ جانتی ہوں جن کی حالت الیکشن لڑنے والی تو دور کی بات ہے خود کے پیسوں سے اپنے سوٹ تک نہیں سلوا سکتے تھے آج وہ بڑی پراڈو میں گھوم رہے ہیں۔ان کا احتساب کون کرے گا؟
یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔گذشتہ دنوں نوجوانوں کے لیے قرضے کی سکیم کی افتتاحی تقرب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ نوجوانوں کو وسائل اورحالات مہیا کیے جائیںکہ وہ پاکستان کو اقوام عالم میں کھویا ہوا مقام دلانے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں گے۔بے شک نوجوانوں کی آبادی پاکستان کے لیے قیمتی سرمایہ ہیں۔
یاد رہے کیا ہم اب شہباز شریف کی بات پہ اعتبار کر سکتے ہیں؟یہ میں بات اس لیے کہہ رہی ہوں کہ اس سے پہلے بھی بہت کی سکیمیں نکلتی رہی ہیں جب بھی آئی ایم ایف سے قرض لیا گیا نئی سے نئی سکیم کو بھی ساتھ متعارف بھی کرایا گیا مگر بے سُدھ
رہیں ۔اس سے پہلے پی ٹی آئی نے اپنے اقتدار میں کامیاب نوجوان سکیم کو متعارف کرایا جس کے نتائج آپ سب کے سامنے ہیں کہ کتنے لوگ اس سے مستفید ہو سکے۔یہ پروگرام تو ان سیاستدانوں کے ارد گرد خوشامدی ،اشرافیہ،ہی مستفید ہوتے ہیں کیونکہ ہمیشہ سے یہ سیاست کی نذر ہی ہوجاتے ہیں۔
عوام تو بے چارے جن کو آٹا کنٹرول ریٹ پہ لینے کے لیے لائنوں میں لگنا پڑتا ہے وہ ان سکیموں سے کیسے مستفید ہونگے ۔اس سے پہلے لیپ ٹاپ سکیم،ےیلو کیپ سکیم،سستی روٹی سکیم ،بے نظیر انکم سپورٹ،احساس پروگرام اگر آج بھی ان سکیموں کا آڈٹ کرایا جائے تو بڑے پیمانے پہ کرپشن نظر آئیں گے۔ اب آئی ایم ایف شرائط مان کر منی بجٹ کی تیاری کی جارہی ہے ۔اس منی بجٹ کی تیاری کی جا رہی ہے جس میں گیس مہنگی،بجلی پہ سبسڈی ختم،پیٹرول پہ لیوی ٹیکس بڑھانے کا فیصلہ ،ان تمام اہداف کو پورا کرنے کے لیے آئی ایم ایف کو مکمل یقین دہانی کرائی گئی۔
ان کی قیمتوں کے اضافے سے عوام جب بنیادی ضروریات پوری نہ کر سکی تو یقینا سٹریٹ کرائم ،چوری اور ڈکیتیوں میں اضافہ ہو گا اور ایسا دیکھنے اور سننے میں آبھی رہا ہے اگر ہم جان بوجھ کر ان دیکھا کر دیں تو وہ الگ بات ہے۔منی بجٹ کا مسودہ حتمی مراحل میں داخل ہو چُکا ہے۔
منی بجٹ میں بجلی ساڑھے 7روپے مزید مہنگی ،گیس کی قیمتوں میں 74فیصد اضافے کی تجویز،میٹھے مشروبات اور سیگرٹس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافے کی تجویز ،لگژری اشیاءپر اضافی ڈیوٹی عائد کرنے،اور 70ارب روپے کے لگ بھگ اشیاءپر دی جانے والی ٹیکس چھوٹ ختم۔اس کے علاوہ جوتوں کی صنعت الگ سے ڈسٹرب ہے کیونکہ را میٹریل ، جوتوں میں استعمال ہونے والے کیمیکل کے ریٹس بھی آسمان سے باتیں کر رہے ہیں جس سے جوتوں کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہونے کا اندیشہ ہے۔جوتوں کی صنعت پہ بروقت توجہ کی ضرورت ہے ۔اگر ایک ایک کرکے یوں ہی مسائل جنم لیتے رہے تو مستقبل قرین میں ڈر ہے کہ پاکستان کی پراڈکٹ کی قیمتیں کنٹرول سے باہر ہونے کی وجہ سے کوئی پراڈکٹ کو پوچھے گا نہیں ہماری ایکسپورٹ مزید خطرے میں آسکتی ہے۔ اب ان میں وہ تمام اشیاءشامل ہے جس سے روزمرہ کی چیزوں میں نہ کنٹر ول ہونے والی مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔اس سے پہلے عمران خان کو نوجوانوں کی بہت فکر تھی انہوں نے ذمہ داری کیسے نبھائی وہ آپ سب لوگ جانتے ہیں،اور اب شہباز شریف بھی نوجوانوں کے لیے بہت فکر مند دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستان کی تقریباً 65%آبادی 30سال سے کم عمر ہے،جبکہ 29%آبادی پندرہ سے 29سال کے درمیان ہیں۔ یو این ڈی پی کے مطابق آبادی میں نوجوانوں کا تناسب اس وقت بلند ترین سطح پر ہے۔2050تک ملکی آبادی میں نوجوانوں کا تناسب اسی طرح برقرار ہےگا۔آبادی کے تناسب کے لحاظ سے نوجوانوں کے لیے جو کہ ملک و قوم کی ترقی کا اہم حصہ ہے اُن کے لیے اہم پلان اور حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔اس وقت جو صورتحال ہے اس میں ہمارے نوجوانوں کے لیے بہتر تعلیم و تربیت کا فقدان بھی دکھائی دیتا ہے۔ہمارا نوجوان اس گلوبل ویلج میں مسابقت کے ہاتھوں مار کھا رہا ہے۔اس کے مقابلے میں خطے کے دیگر ممالک ،مثال کے طور پہ ،انڈیا اپنے نوجوانوں کو بہتر تعلیم و تربیت کے مواقع فراہم کر رہا ہے۔اس وقت اس وقت ہم ترقی یافتہ ممالک کی بات کرنے کے بجائے صرف بھارت ہی کی بات کریں تو بھارت نے پچھلے چار سال میں بہت سے ایسے اقدامات ،اور دوسے ممالک سے تعلقات قائم کرکے خود کو بہتری کی طرف لے گئے۔بھارت نے دبئی،سعودیہ،ایران، اور مسلم ممالک کے ساتھ نہ صرف تعلقات بہتر کیے بلکہ اپنے ملک میں انویسٹمنٹ بھی کرائی۔
آج بھارت آئی ٹی میں بھی ہم سے آگے ہیں مہنگائی بھی کنٹرول ہے اور ترقیاتی کاموں پہ دھیان اور چھوٹے بڑے بے شمار ڈیم بھی بنائے آج اگر کہا جائے کہ انڈیا ہم سے معاشی لحاظ سے بہتر ہے تو یہ غلط نہ ہو گا۔ آج انڈیا پاکستان کی حالت کو دکھا دکھا کے لطف اندوز ہو رہا ہے اب بھی اگر ہوش کے ناخن نہ لیے گئے یوں ہی جمہوریت،جمہوریت کھیلتے رہے تو مستقبل قریب میں حالت مزید بھیانک ہو سکتی ہے۔
تبصرے بند ہیں.