فواد چودھری ضمیر کا قیدی۔۔۔۔

14

بلآخر رجیم چینج سے صحافیوں کے بعد سیاسی مخالفین کی آزادی اظہار رائے بھی برداشت نہ ہو سکی اور ان کا نشانہ سابق وزیر اطلاعات اور دبنگ سیاستدان فواد چودھری بنے۔ وجہ الیکشن کمیشن پر تنقید اور انہیں ”منشی“ کہنا بنی۔ اس سے پہلے بول سے تعلق رکھنے والے صحافی شاہد اسلم اور اے آر وائی کے حماد یوسف رجیم چینج کا نشانہ بن چکے ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جب جب مسلم لیگ ن کی حکومت آئی ہے صحافیوں پر زمین تنگ ہی رہی۔ مجھ سمیت دی نیوز کے ساتھیوں ضیا اللہ نیازی، علی رضا اور ندیم علوی مرحوم پر بھی آج کے وزیر اعظم شہباز شریف نے دہشت گردی کے مقدمات درج کیے تھے جن کی سزا موت تھی۔ وہ تو ہوا یوں کہ مسلم لیگ ن کی حکومت ڈکٹیٹر مشرف نے آ کر ختم کی اور مدعی مقدمہ سب انسپکٹر پولیس نے دہشت گردی عدالت میں اس اعتراف کے ساتھ مقدمہ واپس لے لیا کہ اس نے سب کچھ حکومتی دباو¿ پر کیا تھا۔
رجیم چینج نے فواد چودھری کو تختہ مشق بنا کر اصل میں تحریک انصاف کی باقی قیادت کو پیغام بھیجا ہے کہ یہ سب کچھ ان کے ساتھ بھی ہو گا۔ لیکن سلام ہے فرخ حبیب، مسرت جمشید چیمہ، حماد اظہر و دیگر پر کہ انہوں
نے اپنے ساتھی فواد چودھری کا بھرپور دفاع کیا۔ گو کہ رجیم چینج کا اگلا ہدف فرخ حبیب اور مسرت جمشید چیمہ ہیں اور اول الذکر کے خلاف مقدمات بنا دیے گئے ہیں البتہ آخرالذکر کے بارے میں سنا ہے خاتون ہونے کے ناتے انہیں فی الحال نظر انداز کر دیا ہے لیکن ”زبان بندی“ کے اس پیغام کے ساتھ کہ ”انجام“ یاد رکھیں۔ گو کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اندر سے بھی فواد پر مقدمات کے حوالے سے آوازیں اٹھی ہیں لیکن ان پر بھی کان نہ دھرا گیا۔ فواد چودھری کی اہلیہ حبہ فواد سیاسی محاذ پر اپنے مجازی خدا کا مقدمہ جس طرح لڑ رہی ہیں قابل ستائش ہے۔
دوسری طرف گجرات کے چودھری پرویز الٰہی نے جس طرح فواد کی گرفتاری کا مذاق اڑایا وہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ احسان فراموشی اس کا وتیرہ ہے۔ رہی سہی کسر فواد کے حوالے سے اس کی آڈیو لیک نے پوری کر دی اس کے علاوہ پرویز الٰہی کی عمران خان کے حوالے سے مزید آڈیو لیکس جو میں نے سنی ہیں ان پر الاماں والحفیظ پڑھنے کو دل چاہتا ہے۔ یہ وہی پرویز الٰہی ہے جس نے عمران خان کی سابق آرمی چیف جنرل باجوہ پر تنقید پر عمران خان کی تضحیک کی تھی۔ سب سے بڑھ کر اس
وقت کے ڈکٹیٹر مشرف کو دس بار وردی میں منتخب کرانے کی چاپلوسی کی اخیر کر دی تھی اور جب مشرف پر بُرا وقت آیا تو تُو کون اور میں کون۔ اس سے اس کی ذہنی آلودگی کا پتہ چلتا ہے۔ عمران خان کو اب اس سے فاصلہ کر لینا چاہیے۔ اس کی خود غرضی دیکھیں فوراً فواد کے خلاف اپنے بیان پر معافی مانگ لی لیکن اس کی آڈیو لیکس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ حماد اظہر نے اس کے بارے میں ٹھیک کہا تھا کہ مانگے تانگے کے بندے لے کر جماعت بنا لیتا ہے اور پھر بلیک میل کر کے دس ایم پی ایز کے بل بوتے پر حکومت لے لیتا ہے۔ مسلم لیگ ن اسے پہلے ہی قبول کرنے کو تیار نہیں وقت آ گیا ہے کہ عمران خان اس سے جان چھڑا لے۔
رجیم چینج نے فواد چودھری پر الیکشن کمیشن کو دھمکیاں دینے کا الزام بھی لگایا ہے۔ لیکن کیا ”ذمہ داران“ بھول گئے کہ اسی رجیم چینج کے کرتا دھرتا اور
خود رانا ثنا اللہ فوجی قیادت کو نام لے لے کر، الیکشن کمیشن اور بیورو کریسی اور ان کے اہل خانہ کو کیا کیا دھمکیاں نہیں دیتے تھے؟ لگتا ہے اسلام آباد کے ریڈ زون میں اضافے کی طرح رجیم چینج نے کسی بھی تنقید سے مبرا ”حساس اور مقدس“ اداروں کی فہرست میں الیکشن کمیشن کا بھی اضافہ کر دیا ہے۔ اس سے قبل یہ اعزاز مسلح افواج کے پاس تھا اور ہونا بھی چاہیے کیونکہ فوج ہماری سرحدوں کی محافظ ہے۔ لیکن فواد چودھری پر الیکشن کمیشن کے حوالے سے تنقیدی بیان پر بغاوت کا پرچہ درج کر دیا گیا جو کہ گھٹیا روش ہے اور عدالت میں پیشی کے دوران فواد کے ساتھ جو شرمناک سلوک روا رکھا جا رہا ہے وہ بھی قابل مذمت ہے۔ ماضی کو دیکھا جائے تو یقینا رجیم چینج کا یہ عمل بھی ایک دن مکافات عمل کی طرح واپس آئے گا۔ لیکن میں اس انتقام در انتقام کا حامی نہیں ہوں اور ہمیں کہیں نہ کہیں آ کر اس رویہ کو ترک کرنا چاہیے۔ آج نہیں تو کل فواد کی رہائی اور مقدمہ سے باعزت بری ہونا یقینی ہے لیکن جو سلوک روا رکھا گیا ہے وہ بھلایا نہیں جا سکتا۔ گو کہ کچھ مسلم لیگی حضرات فواد سے روا رکھے جانے والے سلوک کو ایک ادارے کی جانب سے جوڑ رہے ہیں جو کہ یقینا لغو الزام ہے اور ”آپریشن فواد“ کی کمانڈ براہ راست وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے ہاتھ میں تھی۔ جب رانا ثنا اللہ پر ہیروئن ڈالی گئی تھی تب بھی انہی کالموں میں، میں نے اس کی مذمت کی تھی۔ افسوس کہ آج رانا ثنا اللہ وہی کچھ اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف کر رہے ہیں جو کہ قابل مذمت ہے۔ ایک اور لیگی نے یہ درفنتنی چھوڑی تھی کہ جب تک مریم نواز کی واپسی بخیر و خوبی نہیں ہو جاتی فواد کی رہائی ممکن نہیں کیونکہ مسلم لیگ کی طرف سے اس کے استقبال میں خلل کا خدشہ تھا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس سے پھسپھسا استقبال آج تک نہیں دیکھا گیا۔ مریم نواز کی خواہش پر پٹرولیم مصنوعات میں اضافے کو ایک دن موخر بھی کیا گیا لیکن پھر بھی لوگوں کو ایئرپورٹ لانے پر ناکامی ہوئی۔ یاد رہے کہ اسحاق ڈار ایک دن پہلے تک کہتے رہے کہ عوام پٹرولیم مصنوعات کے اضافے پر کان نہ دھریں اور اگلے ہی دن 35 روپے لیٹر اضافے کا اعلان کر کے حکومت کا منہ کالا کر لیا۔ مریم نواز کے کمزور استقبال کی ایک وجہ اسے مسلم لیگ ن کا چیف آرگنائزر اور 65 سالہ خاوند کیپٹن صفدر کو یوتھ ونگ کا سربراہ بنانا بھی تھا۔ اس حوالے سے مسلم لیگ نواز کے اندر پہلے ہی شدید اختلافات بھی تھے جس کی ایک وجہ لاہور مسلم لیگ ن کی موجودہ تنظیم بھی ہے۔ اندرونی اختلافات کے باعث کروڑوں روپے خرچ کے بعد بھی مریم نواز کا استقبال تاریخی تو کیا مثالی بھی نہ بن سکا اور خواجہ سعد کا حلقہ ہوتے ہوئے بھی لوگ ایئر پورٹ نہ پہنچے۔ اس پر عظمیٰ زاہد بخاری کی جلسہ گاہ میں مریم نواز کی موجودگی میں اس حوالے سے لاہور کی تنظیم کے استقبالیہ کے انتظامات پر شدید تنقید بھی معنی خیز تھی۔ کہتے ہیں عظمیٰ بخاری کو خود کو سٹیج اور مریم نواز سے دور رکھے جانے کا غصہ تھا۔ لیکن بتانے والے بتاتے ہیں کہ لاہور کی قیادت کو عظمیٰ بخاری کو مریم نواز اور سٹیج سے دور رکھنے کی ہدایات مریم اورنگ زیب نے دی تھیں۔ اب مریم نواز پنجاب کے طوفانی دوروں کا ارادہ رکھتی ہیں، دیکھتے ہیں انہیں کس حد تک کامیابی ملتی ہے۔
آخر میں ضمیر کے قیدی فواد چودھری کے بارے میں یہ ضرور کہوں گا کہ رجیم چینج کی طرف سے ان کی گرفتاری سے ان کا قد بڑھا ہے جبکہ ان کے مخالفین ناٹے ثابت ہوئے ہیں۔
قارئین کالم بارے اپنی رائے 03004741474 پر وٹس ایپ کر سکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.