سیاسی موسم کی تبدیلی کے اثرات

21

کہتے ہیں بدلتا ہوا موسم بہت خطرناک ہوتا ہے۔ اس میں اگر غیر معمولی احتیاط نہ برتی جائے تو کافی گڑبڑ ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔ بات بھی ٹھیک ہے انتہائی موسم میں تو ہم اس کی شدت کے حساب سے لباس اور دیگر معاملات میں اپنا انتظام کرتے ہیں لیکن بدلتے ہوئے موسم کا اندازہ ٹھیک طرح سے نہیں لگا پاتے کیونکہ یہ جیسا محسوس ہو رہا ہوتا ہے دراصل اس سے کچھ فرق ہوتا ہے۔ ہمارا جسم بھی ایک دم تبدیلی قبول نہیں کرتا اسی لیے مشاہدے میں آیا ہے کہ بدلتے ہوئے موسم میں صرف بے احتیاطی کی وجہ سے اکثر لوگ بیمار پڑ جاتے ہیں اور بعض اوقات تو یہ موسمی بیماریاں کافی پیچیدگی بھی اختیار کر لیتی ہیں۔
دیکھا جائے تو ہمارے ہاں کے سیاسی موسم کے معاملات بھی ماحولیاتی موسم کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ جب ایک موسم ہوتا ہے تو وہ پورے طور پر اپنے رنگ دکھاتا ہے لیکن جب تبدیلی کی ہوا چلتی ہے تو پرانی صورتحال یکسر تبدیل ہو جاتی ہے۔ہاں البتہ جو لوگ تبدیلی کی اثرات سے واقف ہیں وہ اس تبدیلی کے حوالہ سے اپنے حفاظتی انتظامات کر کے رکھتے ہیں۔
ہمارے ہاں سیاسی موسم کی موجودہ تبدیلی عمران خان حکومت کے خلاف پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد سے شروع ہوئی اور تا وقت جاری ہے۔ تازہ ترین پیش رفت میں اپنی قیادت کے حکم پراستعفے پیش کرنے والے پاکستان تحریک انساف کے اراکین قومی اسمبلی کے استعفوں کا قبول کیا جانا اور پاکستان تحریک انصاف کی ہی جانب سے پنجاب اور خیبر پختونخواہ اسمبلیاں تحلیل کیے جانے کے بعد نگران حکومتوں کی تشکیل ہے۔
جیسا کہ اب تک کی روائت ہے کہ نئی آنے والی حکومت ہمیشہ پچھلی حکومت پر الزام تراشیاں بھی
کرتی ہے اور اپنے کام کا آغاز بھی ان کے احتساب سے کرتی ہے۔(واضع رہے کہ آج تک اس قسم کے احتساب کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا)۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کو تو وقت کے ساتھ ساتھ اس قسم کی صورتحال اور احتساب کا سامنا کرنے کی کافی پریکٹس ہو چکی ہے اسی لیے ہم نے دیکھا کہ سال 2018 میں عمران خان حکومت قائم ہونے کے بعد ان کی اعلیٰ قیادت سمیت تقریباً تمام پارٹی کو احتساب کے نام پر بدترین سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا لیکن انہوں نے نہایت ثابت قدمی اور مستقل مزاجی سے اس صورتحال کا سامنا کیا۔
عمران خان صاحب اور ان کی پارٹی کو چونکہ کسی قسم کی گرم ہوا کا سامنا کرنے کا کوئی تجربہ ہی نہیں ہے اور جس قسم کا اس پارٹی کا ڈھانچہ ہے تو شاید ان میں اس بدلے ہولے موسم کا سامنا کرنے کا حوصلہ بھی کچھ کم ہی ہو۔ اگرچہ انہیں اب تک اس قسم کی صورتحال کا سامنا تو نہیں کرنا پڑا جو ان کی حکومت کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے کارکنوں اور قیادت کو درپیش تھی لیکن محسوس تو ایسا ہوتا ہے کہ چھوٹے موٹے مقدمات سے ہی ان کی ’کانپیں ٹانگنا‘ شروع ہو چکی ہیں۔
چند روز قبل ہم نے دیکھا کہ جس طرح پی ٹی آئی راہنما فرخ حبیب ایک شاہراہ پر ایک زیر حراست ملزم کو چھڑوانے کے لیے پولیس کے ساتھ دست وگریباں تھے ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس پارٹی کے لیے قانون کی کیا اہمیت ہے اور ان کے دلوں میں قانون کا کتنا احترام ہے۔ اس کے علاوہ جب بھی پارٹی چیئرمین کی گرفتاری کا امکان ہوتا ہے پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت کی ہدایت پر بنی گالا یا زمان پارک کے باہر نوجوانوں کے جتھے جمع کر لیے جاتے ہیں۔ اب کوئی ان اللہ کے بندوں سے پوچھے کہ اگر حکومت عمران خان کی سطح کے کسی لیڈر کی گرفتاری کا فیصلہ کرے گی تو ظاہر ہے کہ وہ سب سے پہلے تمام تر قانونی تقاضے پورے کرے گی او پھر یقینی طور پر اس کام کی انجام دہی کے لیے بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی حرکت میں آئیں گے۔ ویسے تو عمران خان صاحب کی باتوں اور رویوں سے ایسا ہی لگتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو کسی بھی قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں۔ ماضی میں بھی ہم نے دیکھا کہ وہ تو حصول اقتدار کی ہوس میں سول نافرمانی کا کال دینے تک سے نہیں چوکے۔
اس وقت یہ بات خود ان کے یا ان کے اردگرد موجود ان کے مشیروں کے سوچنے کی ہے کہ اگر ان کی گرفتاری کا فیصلہ ہو جاتا ہے تو نمبر ایک: کیا وہ کسی بھی جتھے کی مدد سے اس کو روک پائیں گے؟ اور نمبر دو: بالفرض وقتی طور پر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو بھی جائیں تو وہ کتنی دیر تک ریاست سے ٹکر لے کر بنی گالا یا زمان پارک میں چھپ کر بیٹھے رہ سکتے ہیں؟
عمران خان کو اب ایک بات اچھی طرح سے ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ماضی میں جس طرح ان کو فائدے اور سہولتیں مہیا کی گئیں اب ان کا دوہرایا جانا ناممکن ہے لہذا اگر وہ سیاست کرنے میں سنجیدہ ہیں اور ایک مرتبہ پھر سے کوئی اعلیٰ ترین عہدہ حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں تو انہیں کچھ باتوں کو مستقل طور پر پلے باندھ کر رکھنا ہو گا۔
1) انہیں دیگرپارٹیوں کے وجود اور ان قیادت کی حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا۔
2) انہیں ہر حالت میں ملک کے آئین، قانون اور اس کے اداروں کو تسلیم بھی کرنا ہو گا اور ان کا احترام بھی کرنا ہو گا۔
3) انہیں اس بات کو سمجھنا ہو گا کہ اب گالی گلوچ، دھمکیوں اور الزام تراشی کی سیاست نہیں چلے گی۔
4) انہیں اس حقیقت کو کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ بائی پاس اور شارٹ کٹ والا وقت اب گزر چکا ہے لہذا اب اگر وہ سیاست میں کچھ حاصل کرنا ہے تو اس کے حصول کا واحد طریقہ کارکردگی اور عوام کی حقیقی سپورٹ ہے۔

تبصرے بند ہیں.