پرانے زمانے کی بات ہے ہندوستان کے کسی شہر میں ایک حکیم صاحب ہوتے تھے جو طب اور جراحت یعنی میڈیسن اور سرجری کے ماہر تھے یہ وہ دور تھا جب مریض کی جراحت یا آپریشن بے ہوش کئے بغیر کیا جاتا تھا کیونکہ بے ہوش کرنے والی دوا Anesthesia ابھی ایجاد نہیں ہوئی تھی حکیم صاحب کے دو معاون تھے ایک کا نام رام ناتھ تھا جو نتھو کے نام سے پہچانا جاتا تھا جبکہ دوسرے کا نام خیر دین تھا جسے خیرا کہا جاتا تھا ۔حکیم صاحب کے گاہکوں میں نتھو خیرا کا امتزاج اتنا مشہور ہوا کہ بر صغیر میں شاید ایرا غیرا نتھو خیر ا محاورہ ان دو شاگردوں کا مرہون منت ہے۔ نتھو اور خیرا کی اصل ڈیوٹی جنگل میں جاکر جڑی بوٹیاں ڈھونڈنا اور حکیم صاحب کی ہدایت کے مطابق انہیں پیس کر دوا بنانے کی تھی حکیم صاحب کی نظر کمزور ہو چکی تھی لہٰذا جب وہ مریض کی جراحت کرتے تو نتھو خیرا میں سے ایک کی ڈیوٹی لگائی جاتی تھی کہ وہ حکیم صاحب کے کام کے دوران سہولت کاری کی خاطر لالٹین پکڑ کر کھڑا ہو جاتا تاکہ حکیم صاحب کو دیکھنے میں آسانی ہو۔ یہ لالٹین پکڑنا ایک ایسا استحقاق تھا جس کی بنیاد پر صحت یاب ہونے والے فریقین کے لواحقین سے خاصی بخشش مل جاتی تھی اس منافع بخش ڈیوٹی کیلئے نتھو خیرا دونوں کے درمیان مقابلے کی ایک قدرتی فضا قائم ہو چکی تھی جس نے دونوں کے درمیان پیشہ ورانہ رقابت کو جنم دیا۔ کیونکہ بخشش جو پہلے بن مانگے ملتی تھی نتھو خیرا نے آہستہ آہستہ اس کا تقاضا کرنا شروع کر دیا حکیم صاحب کو اضافی دھندے کی آمدنی کا علم تھا مگر انہوں نے خاموشی اختیار کر رکھی تھی ۔
آپریشن کے دوران لالٹین پکڑنے کی اہمیت دن بدن بڑھتی جا رہی تھی۔ اس پراپیگنڈے کا منفی
پہلو یہ تھا کہ اگر کوئی مریض جانبر نہ ہو سکتا یا آپریشن کا میاب نہ ہوتا تو نتھو اور خیرا میں سے جس نے لالٹین پکڑی ہوتی اس کا مخالف لواحقین کو کہتا کہ آپ کا مریض اس لئے مرا ہے کہ اس دن لالٹین میرے ہاتھ میں نہیں تھی اگر میں ہوتا تو اپنا لالٹین پکڑنے کا کام صحیح کرتا اور آپ کا مریض زندہ سلامت ہوتا۔ گویا زندگی بچانے اور علاج کا سارا دارومدار لالٹین ٹھہرا دیا جاتا۔
ایک لمحے کیلئے تصور کریں کہ ہم آج اس پرانے ہندوستان کے لکھنو کے اس شفا خانے میں جہاں آئی ایم ایف ہمارا آپریشن کر رہا ہے اور نتھو خیرا باری باری لالٹین پکڑرہے ہیں۔ پے در پے آپریشنوں کی ایک طویل داستان ہے حکیم وہی ہیں ان کے نسخے اور اوزار بھی وہی ہیں مگر ہر نئے آپریشن کے ٹائم لالٹین برداری کیلئے نتھو خیرا بدلتے رہتے ہیں۔ جب نتھو کے ہاتھ میں لالٹین ہوتی ہے تو خیر دین اس کا مذاق اڑا رہا ہوتا ہے اور جب خیر دین کی لالٹین پکڑنے کی باری آتی ہے تو رام ناتھ کو موقع مل جاتا ہے کہ وہ کہے کہ اس کی وجہ سے مریض کی جان چلی گئی ہے۔ نتھو خیرا کا یہ کھیل اب بھی جاری ہے یہ دونوں اپنے اپنے طور پر یہ سمجھتے میں اور عوام کو یہی تاثر دینے میں ہربار کا میاب رہتے ہیں کہ ان کے مخالف کے غلط لالٹین پکڑنے پر ملکی معیشت خراب ہوئی ہے۔
تحریک انصاف نے ڈالر کو 112 سے 178 روپے پر پہنچایا ن لیگ حکومت نے کہا اب لالٹین ہم پکڑتے ہیں تو ڈالر 178 سے اب 270 روپے تک جاچکا ہے یہاں پر اسحق ڈار کا ذکر ضر دری ہے جو اپنی ہی پارٹی کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو کہا کرتے تھے کہ آئی ایم ایف کو میں جانتا ہوں کہ ان سے کیسے ڈیل کرنا ہے مگر جب لالٹین ان کے اپنے ہاتھ میں آئی تو تاریخ میں ایک دن میں ڈالر کی قیمت میں 24 روپے کا یکمشت اضافہ کا کریڈٹ اسحق ڈار کو جاتا ہے اس وقت ن لیگ کے اندر کی حالت یہ ہے کہ اسحق ڈار پر جتنی تنقید مفتاح اسماعیل کر رہے ہیں اتنی تو شاید اپوزیشن بھی نہ کرتی ہو۔
میڈیا پر فواد چوہدری کی گرفتاری کے علاوہ اور کوئی خبر نہیں ہے۔ فرینکلن روز ویلٹ نے کہا تھا کہ سیاست میں کچھ بھی حادثاتی طور پر نہیں ہوتا اور اگر آپ کو ایسا نظر آئے تو یقین کریں کہ یہ بھی ایک منصوبہ بندی کے تحت ہی ایسا پلان کیا گیا ہے کہ یہ حادثہ نظر آئے۔ اس کے بعد فواد چوہدری کی گرفتاری پر میڈیا کا رد عمل سمجھا جا سکتا ہے کہ اس کا مقصد معیشت کے محاذ پر ہونے والے بلنڈر پر پردہ ڈالنا ہے۔
میاں نواز شریف کے واپس نہ آنے کی وجہ سے ان کی پارٹی کی حکومتی اور سیاسی کارکردگی دونوں کو نقصان پہنچا ہے۔ ان کی واپسی میں ہونے والی بار بار کی تاخیر کی وجوہات سمجھ نہیں آرہی اس سے ان کی اپنی پارٹی پر گرفت کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ پارٹی کی اقتدار پر گرفت بھی متاثر ہوئی ہے اور اس وقت حالت یہ ہے کہ PDM کے اتحادی وزیرا عظم کو انتخابات کا کہہ رہے ہیں مگر وزیر اعظم کو خطرہ ہے کہ ان کی جماعت پنجاب میں الیکشن جیتنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اس لئے ٹال مٹول سے کام لیا جارہا ہے جبکہ آصف زرداری تاخیر کے حق میں نہیں ہیں۔
خیبر پختونخوا اور پنجاب کے صوبائی انتخابات اور قومی اسمبلی میں 112 سیٹوں پر ضمنی انتخابات مذاق نہیں ہے مگر ن لیگ ان پر آمادہ نظر نہیں آتی اب مردم شماری کو بنیاد بنا کر تاخیر کا جواز بنایا جارہا ہے حالانکہ 90 روز کے اندر انتخابات ایک آئینی ضرورت ہے جبکہ مردم شماری ایک انتظامی معاملہ ہے ان دونوں میں ٹکراﺅ کی صورت میں آئینی ضرورت زیادہ اہمیت رکھتی ہے دیکھنا یہ ہے کہ جب یہ کیس عدالت میں جائے گا تو عدالتیں کیا فیصلہ کرتی ہیں ۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.