اب تو یہ لفظ بولنے اور لکھنے کو دل ہی نہیں کرتا کہ ہمارا ملک ایک نازک صورتحال سے گزر رہا ہے۔وہ اس لیے کہ یہ لفظ شاید پچھلے75سال سے سُنتے چلے آرہے ہیں۔اس وقت عوام کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے ،غریب کو جان کے لالے پڑے ہیں۔آخر کون اس ملک کی کل سنوارے گا ؟
مسائل اس قدر گمبھیر ہوتے چلے جا رہے ہیں کہ اگر ہم ٹی وی چینل کو دیکھتے ہیں تو ہمیں خبریں عوامی مسائل اور اُن کے حل کی نہیں سُنائی دیتیں بلکہ کچھ اور ہی سُننے کو مل رہا ہے۔اب پچھلے دو روز سے جم کے سیاسی اکھاڑا لگ رہا ہے۔یہ خود کو سیاسی جماعتوں اور ملک کے حکمران کہلواتے ہیں۔
شاید آپ سب میری اس بات پہ اتفاق کریں کہ گھر کا سربراہ بھوک، پیاس، سردی، گرمی، برداشت کرتے ہوئے اپنی فیملی کو پُر سکون رکھتا ہے۔ مگر میرا سوال آپ سب سے ہے کیا یہ حکمران یا سربراہ کہلانے کا حق رکھتے ہیں؟
کہتے ہیں سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا مگر یہ تو اب گونگے،بہرے،اندھے،ہو چُکے ہیں۔یہ بات میں اس لیے کہہ رہی ہوںکہ ان سب میں سے کسی کو عوام کے مسائل اور دکھ دکھائی نہیں دے رہے۔کیونکہ ایک کے بعد ایک ڈرامہ منظر عام پہ آرہا ہے۔اب ایک نیا ایشو ڈسکس کے لیے مل گیا ہے وہ ہے فواد چوہدری کی گرفتاری،اُس پہ آرٹیکل درست ہے یا غلط،اُن کو جائز پکڑا گیا ہے ،یا کسی سیاسی عداوت کیوجہ سے پکڑا گیا ہے،تو کوئی پولیس کی یونیفارم پھاڑتا ہے اپنی سیاسی چمچہ گیری کو دکھانے کے لیے ،ان سب ڈرامے بازیوں سے عوام کو کچھ لینا دینا نہیں۔
میرے خیال سے ان پہ غلط شق بھی گمراہ کرنے کے لیے لگائی جاتی ہے تاکہ قوم کو گمراہ کا جاسکے اور ان کو چند روز تک چھوڑ دیا جائے۔ہتھکڑی
باندھ کے تو ایسے فخر کر رہے ہوتے ہیں کہ نہ جانے کون سا تیر ما دیا ہو۔میرا ایک سوال ہے عمران خان سے،کیا یہ تربیت کی اُنہوں نے اپنے کارکنان کی اس کا جواب دیں؟ عمران خان کو یاد دلانا چاہوں گی آپ بہت درس دیتے تھے ،شفافیت کا،اداروں کے احترام کا،احتساب کا، سب کے لیے قانون ایک سا ہو،اب ذرا اس واقعے پہ بھی لب کشائی کیجئے کہ یہ سب ڈرامہ کیا ہے؟
فواد چوہدری کو چاہیے تھاکہ وہ خود کو پیش کرتے احتساب کے کٹہرے میں آپ کی جماعت انصاف کا درس دیتی ہے۔
عمران خان قوم کو اکسا رہے ہیں کہ اگر میں پکڑا گیا تو سب باہر آجائے،عمران خان صاحب ظرف کا مظاہرہ کیجئے اور خود کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر مثال بنئے ،آپ کس طرف چل نکلے۔
دوسرا اہم سوال قوم کو اس بات کا بھی جواب چاہیے۔ آپ ہمیشہ سے پروٹوکول کے خلا ف تھے مگر آپ کے چند ہی لوگوں پہ اتنی زیادہ نفری کیوں؟ اس بات کا جواب دیں کیا یہ حکومتی خزانے پہ بوجھ نہیں؟
آپ کے تو میڈیا ہیڈ نے بھی پورا پورا پروٹوکول لے رکھا تھا۔اگر (ن)لیگ ،پی پی پی ،احتساب کے لیے پیش ہو سکتی ہے پھر آپ کی جماعت اور آپ کیوں نہیں؟
ایک اور اہم بات جس کا ذکر میں اپنے اس کالم میں کرنا چاہوں گی کہ پنجاب کے بعد اب کے پی کے کے خزانے پہ بھی وار ہو رہے ہیں۔ایک آڈیو لیک منظر عام پہ آئی ہے کہ علی امین گنڈا پور نے پوچھا کہ تمھیں پیسوں کا کہا تھا تو اُن کو جوابا پیغام ملا کہ آپ کے اکاﺅنٹ میں 16کروڑ لگوا دئیے گئے ہیں ،مگر فنڈ کی مد میں وہ مزید پیسوں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
خان صاحب آپ بھی قوم کو جواب دیں جو فنڈ کی مد میں پیسہ خوردبُرد کیا گیا ہے اُس کا جواب کون دے گا؟اب یہ نہیں چلے گا کہ ہر آنے والی جماعت پچھلی حکومتوں کو قصور وار ٹھہرائے گی اب احتساب سب کا ہونا چاہیے۔پھر ہی ملک درستی کی طرف آئے گا۔ ملکی معیشت کی صورتحال کو بیان کرنے کے لیے کونسے الفاظ کا ہم انتخاب کریں اب تو سمجھ سے بالا تر ہے بات ۔ایک وقت تھا جب افغانستان کی کرنسی کو تول کے لیا جاتا تھا آج افسوس ہو رہا ہے دل میں ایک وسوسہ کہ خدا ہمارے ملک کو اس صورتحال سے بچائے رکھے۔
ہر بار آئی ایم ایف کے آگے ہاتھ پھیلانا ہی اصل حل نہیں ہے یہاں قرض لے کر ادھر اُدھر خرچ کر دیا جاتا ہے ۔حل تو یہ ہے کہ قرض سے ملک میں زیادہ سے زیادہ انڈسٹری لگائی جائے جس سے تین فائدے ہونگے ایک پیسہ یوٹیلائز ہوگا معیشت بڑھے گی ، دوسرا مہنگائی کو بھی کنٹرول کر سکیں گے ، تیسرا بے روزگاری میں بھی کمی آئے گی۔
مگر یہاں ہر بار قرض لے کر پیسہ سیاستدان اپنی شاہ خرچیوں پہ خرچ کر دیتے ہیں اور ملکی ،عوامی،معاشی حالت پہلے سے بھی زیادہ تباہ ہو کر رہ جاتی ہے۔
ڈالر کا سرکاری ریٹ 360روپے ہے،جبکہ اوپن مارکیٹ ریٹ 380یا 385 روپے میں ابھی مل رہا ہے۔
دن بہ دن روپے کی گراوٹ اسقدر بڑھ رہی ہے کہ اگر فوری طور پہ حکومتی سطح پہ بہتر پلان نہ کیا گیاتو حالت مزید ابتر ہونے کا اندیشہ ہے۔
اگر ڈالرکی قیمت 300روپے تک پہنچ جاتی ہے تو قرض کا لیول مزید ملٹی پلائی ہو گا۔ملکی معاشی صورتحال دن بہ دن ابتر صورتحال اختیار کرتی چلی جا رہی ہے اگر ہم اپنی انڈسٹری پہ توجہ نہ دیں گے تو ہم کبھی ان قرضوں کے چنگل سے نہ نکل پائیں گے مختلف سکیمیں اور کامیاب نوجوان پروگرام کرنے کے بجائے انڈسٹری لگائی جائے کیونکہ ماضی میں بھی اس قسم کی سکیمیں سیاست کی نذر ہی ہوتی آئیں ہیں لہٰذا وہ حکمت عملی اختیار کی جائے جس سے ہم روپے کی مزید گراوٹ کو روک سکیں۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.