جناب ڈاکٹر عثمان انور آئی جی اور وزیر اعلیٰ پنجاب

43

وطن عزیز حکمرانی کے نئے دور میں داخل ہوا چاہتا ہے، ہمارے ہاں رواج ہے کہ صلاحیتوں کے اعتراف اور خدمات کے اقرار میں کافی بخیل واقع ہوئے ہیں۔ نئے آئی جی پنجاب کے متعلق تفصیلات خبروں میں آ چکی ہیں۔ جناب ڈاکٹر عثمان انور پنجاب، سندھ اور اسلام آباد پولیس میں بھی اہم عہدوں پر رہ چکے ہیں۔ اب وہ پنجاب پولیس کے سربراہ کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب سے میری سرسری سی ملاقات ہے جس میں ان سے گفتگو کے دوران بہت کچھ سیکھنے کو ملا اس وجہ سے کہ محض ایک پولیس آفیسر ہونا اور بات ہے لیکن ایک ادب دوست، زیرک، سب سے بڑھ کر غریب پرور اور انسان دوست ہونا ایسی صفات ہیں جن میں انسان کا اختیار نہیں۔ اس حوالے سے میری جن چند لوگوں ملاقات رہی ہے ان میں اگر میں حساسیت کے حوالے سے بات کروں تو ڈاکٹر صاحب حساسیت میں مبتلا شخصیت ہیں، یہ پہلے آئی جی پنجاب ہیں جن کے متعلق میں نے کسی اوباش، ڈرامے گیر، گھٹنے کو ہاتھ لگا کر ملنے والے چرب زبان، بازاری، حتیٰ کہ ایم پی اے، ایم این اے یا کسی بھی شعبے کے شخص حتیٰ کہ کسی صحافی کو بھی دعویٰ کرتے نہیں سنا یا دیکھا کہ ڈاکٹر صاحب سے اس کی یاد اللہ ہے یا کوئی حاکم یہ کہے کہ ڈاکٹر صاحب اپنا آدمی ہے اور نہ ہی ڈاکٹر صاحب اپنے فرائض منصبی میں کسی کو اپنا آدمی کہتے ہیں۔ شعبدہ بازوں، ڈرامہ بازوں کا دور تمام ہوا۔ وطن عزیز کے صوبہ پنجاب میں ڈاکٹر صاحب جیسے آفیسر کو پولیس کی کمان دینا یقینا 12 کروڑ عوام کے ساتھ حکمرانوں کی مہربانی تصور ہو گا، ایک با ہوش، قانون پسند، عہدے کو ذمہ داری سمجھنے والے اور مظلوم کو اولاد سمجھنے والے آئی جی کی تعیناتی بہت خوش آئند ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا میں نے ایک ویڈیو کلپ دیکھا تھا جس میں انہوں نے کہا کہ بدمعاش بدمعاشی نہیں کر سکیں گے۔ ڈاکٹر صاحب کی نظر میں بدمعاش ہر وہ شخص ہے جس نے جرم کیا وہ چاہے کسی بھی گروہ، جماعت اور حیثیت میں ہو گا۔ ڈاکٹر صاحب اس کو قانون اور عدالت کا کٹہرا ضرور دکھائیں گے۔ جیسے جناب عرفان قادر کے لیے بے دھڑک کہہ سکتا ہوں کہ وہ ایک دیانت دار، ذہین، جرا¿ت مند، اعلیٰ
اوصاف کے مالک قانون دان ہیں۔ ان کے عہدے ان کے مزاج، فطرت اور بہترین کردار پر اثر انداز نہیں ہو سکے۔ اگلے دن کسٹم ڈے جس میں ممنوعہ اشیا کو ضائع کیا جاتا ہے، یہ الگ بات کہ حیدرآباد کلکٹریٹ میں ممنوعہ اشیا ضائع کرنے کے حوالے سے خبر یہ بھی آئی کہ دراصل اشیا بازار میں فروخت کر دی گئیں اور بار دانہ جلا دیا گیا۔ ہر محکمہ میں کچھ لوگ ہوتے ہیں جو محکمہ کی شان اور ستون ہوا کرتے ہیں جو کسی آرگنائزیشن کو ڈوبنے سے بچائے رکھتے ہیں۔ کسٹم کے حوالے سے جناب محمد صادق ڈائریکٹر جنرل آئی پی آر ای (IPRE) ایک صوفی منش انسان ہیں۔ صرف کسٹم ایکٹ ہی نہیں آئین اور دیگر قوانین پر دسترس رکھتے ہیں۔ دیگر بہترین اور دیانت دار لوگوں میں کلکٹر کسٹم محترمہ طیبہ کیانی جن کو میں ان کے نام کی تشریح کہتا ہوں۔ یہی بات محمد صادق صاحب کے لیے رہی، محترمہ قرة العین ڈوگر کلکٹر کسٹم محکمہ کا اثاثہ ہیں۔ محترمہ نورین احمد تارڑ ڈائریکٹر پی سی اے، کلکٹر کسٹم کراچی محمد محسن رفیق، دیانت دار ہی نہیں بہادر اور قانون کی حکمرانی کی علامت بھی ہیں، بہت سے نام ہیں۔ اسی طرح آئی جی پنجاب کا عہدہ جناب ڈاکٹر عثمان انور کے مزاج، کردار پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ یہ ان افسروں میں سے نہیں جن کا مزاج قانون بن جاتا بلکہ ان کا مزاج قانون کے تابع ہو گا۔ قانون کی حکمرانی کے دعویدار بھی ہیں اور علامت بھی۔ اعلیٰ تعلیم، وسیع تجربہ بہت لوگوں کے پاس ہوتا ہے لیکن حساسیت میں مبتلا دل کسی کسی سینے میں دھڑکتا ہے۔ کردار کی آج بھی بہت عزت و توقیر ہے۔ اگلے دن کسی کام سے تھانہ ڈیفنس سی لاہور جانا پڑ گیا، کام تو ایسا نہ تھا کہ مجھے SHO صاحب سے ملنا پڑتا مگر ہماری معاشرت کا المیہ ہے کہ جب تک اوپر تک یعنی دفتر کے انچارج تک بات نہ کریں نیچے والا عملہ سائل کو گاہک ہی سمجھتا ہے۔ میں تھانے کے اندر داخل ہوا تو مجھے ماحول میں کافی سکون سا نظر آیا۔ SHO صاحب سے ملا، جناب رضوان لطیف اکیلے بیٹھے ہوئے تھے۔ کلین ٹیبل آدمی، ہر فائل، ڈاک، ڈائری رپورٹ دستخط کر کے آگے بڑھاتے گئے اور ہر فائل، ڈائری اور رپورٹ ان کو ازبر تھی ان کے مزاج، عاجزی اور دیانتداری کی وجہ سے میری ان سے 10/15 منٹ گپ رہی۔ یہ میں نے پہلا SHO دیکھا جن کو بغیر کسی دباو¿، بوجھ اور خوف کے انجام دہی میں محو پایا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب جناب سید محسن رضا نقوی کا ذکر زیادہ اور شروع میں ہوتا مگر میں ان کے متعلق آخر پر آیا کہ وہ ایک متحرک زندگی گزارنے والی سیلف میڈ شخصیت ہیں۔ ان کے متعلق میں اپنے بھتیجے ابوزر معظم بٹ اور سید رضوان نقوی (صحافی) کے ذریعے جان پایا جو ان کے چینل میںکام کر چکے ہیں۔ نقوی صاحب رمضان میں پنجاب کارڈیالوجی لاہور مریضوں اور لواحقین کو کھانا، بستر مہیا کرتے ہیں۔ وہ سخی طبیعت انسان ہیں لوگوں کی چھپ کر مدد کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے چینلز کے لوگوں کو سہولتوں کے ساتھ عمرے کرائے۔ اعلیٰ اوصاف، اخلاق اور ماتحت پروری کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ امید رکھنی چاہئے کہ سید محسن رضا نقوی پنجاب کے عوام کا اپنے دور میں اسی طرح خیال رکھیں جیسا ان کی تعلیمات ہیں اور جیسا ان کا مزاج ہے میری باتوں سے مبالغہ لگے تو منظور وٹو، پرویز الٰہی، بزدار کے ساتھ ان کا موازنہ کر لیں۔ فیصلہ آپ پر چھوڑتے ہیں جناب ڈاکٹر عثمان انور، نگران وزیراعلیٰ پنجاب کی عوام کو مبارک ہو۔ سیاسی حوالے سے یہی کہوں گا کہ چودھری پرویز الٰہی نے فواد چودھری کے متعلق بیان دے کر اپنے گناہوں کے ازالے کی کوشش کی۔ اسلام آباد پولیس کو شاید حکم تھا کہ چودھری فواد کے منہ میں کپڑا دینا ہے۔ انہوں نے چہرے پہ کپڑا ڈال دیا۔ ویسے پہلے وقتوں میں یہ محاورہ تھا کہ فلاںپر کپڑا ڈال کر ”کٹ“ پھینٹی لگائی جائے مگر یہ سلسلے بند ہونے چاہئیں۔ بھلے نیازی صاحب اور ان کے ہم نوا بزرگ بیمار فریال تالپور کو زرداری صاحب کی بہن ہونے کے جرم میں رات بارہ بجے ہسپتال سے جیل منتقل کریں۔ رانا ثنا اللہ پر جھوٹا مقدمہ قائم کریں، مریم نواز کا دروازہ توڑ کر اندر گھس جائیں، بیمار نوازشریف قیدی کی بیٹی مریم کو جیل میں ان کی آنکھوں کے سامنے گرفتار نہ کریں۔ ساری اپوزیشن کو گالیاں دیں، جھوٹے مقدمات بنائیں مگر موجودہ حکمران اتحاد کو چاہئے کہ ان کی شراب کو شہد ہی سمجھیں، ان کی گالی اور جرائم پر گرفت نہ کریں کیونکہ قانون اور اخلاقیات کی پابند حکومتیں ہوا کرتی ہیں نیازی جیسے مسلط شدہ لوگ نہیں۔

تبصرے بند ہیں.