خوابوں کے سوداگر

11

ملک میں اصولی سیاست ہو رہی ہے؟ جواب نہیں کے سواکچھ اور نہیں ہو سکتاوطن میں خوابوں کی سوداگری عروج پرہے اِس آڑمیں ایسی ایسی شاطرانہ چالیں چلی جارہی ہیں جوقطعی طور پرملک و قوم کے مفاد کے منافی ہیں حکمرانوں نے آج ملک کو اِس حال تک پہنچا دیا ہے کہ تمام عالمی اِدارے ملکی معیشت بارے اچھاگمان ترک کر چکے ہیں اور ایسے خدشات ظاہر کرنے لگے ہیں کہ پاکستان کے پاس زرِ مبادلہ کے ذخائر اِتنے قلیل ہیں جو ایک ماہ کی درآمدات کے لیے بھی ناکافی ہیں لیکن اپوزیشن عام انتخابات کے لیے تو متحرک ہے لیکن عوامی بدحالی کے حوالے سے خاموش ہے حکومت اور اپوزیشن دونوں فرائض ادا کرنے کے بجائے صرف خواب فروخت کررہے ہیں ظاہر ہے یہ عوامی سیاست نہیں۔
تحریکِ انصاف جوتحریکِ عدمِ اعتماد کی کامیابی کے بعد قومی اسمبلی سے مستعفی ہو گئی تھی ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے استعفے الیکشن کمیشن کوبھی ارسال کردیے مگر الیکشن کمیشن نے ڈی نوٹیفائی کا عمل مکمل نہ کیا راجہ پرویز اشرف نے بھی سپیکر کا منصب سنبھالنے کے بعد موقف اختیار کیا کہ جب تک ہر ممبر انفرادی حیثیت میں پیش ہو کر اپنے استعفے کی تصدیق نہیں کرے گا وہ منظور نہیں کریں گے جس پر پی ٹی آئی سراپا احتجاج رہی اور استعفے منظورکرنے کا مطالبہ کرتی رہی مگر شنوائی نہ ہوسکی حکومت کہتی رہی کہ مستعفی اراکین واپس ایوان میں آکر ذمہ داراپوزیشن کا کردار ادا کریں جانے کِس سنجیدہ اور جہاندیدہ شخص نے عمران خان کو بتایا کہ آپ کی جماعت نے مستعفی ہو کرحکومت کو من مانی کرنے کی کُھلی چھوٹ دے دی ہے اوراگر راجہ ریاض ہی اپوزیشن لیڈر رہے تو اپنی مرضی کانگران سیٹ اَپ بناکر حکومتی اتحاد عام انتخابات کے نتائج کو اپنے حق میں کر سکتا ہے جس پر واپس اسمبلی جانے کا فیصلہ کیاگیا تاکہ اپوزیشن لیڈر اور اے پی سی کی چیئرمینی کا منصب لیکر حکومت کو ٹف ٹائم دیا جاسکے مگر بغیر سوچے سمجھے اظہارِ خیال کی عادت لے ڈوبی اِدھر عمران خان نے اسمبلیوں میں جاکر حکومت کے لیے مشکلات بڑھانے کا اعلان کیا اُدھرحکومت نے ذمہ دار اپوزیشن بننے کا خواب توڑ دیااور سپیکر نے حکومتی اشارے پرعمران خان کی نام لیوا تحریکِ انصاف کے ممبرانِ اسمبلی کے استعفے منظور کرتے ہوئے ایوان سے صفایا کر دیا حالانکہ کئی ممبران ِ اسمبلی استعفے واپس لینے کا عندیہ دے چکے اِن ممبران نے اِس حوالے سے سپیکر سے ملنے کی کوشش بھی کی لیکن باوجود کوشش کے ملاقات کا موقع نہ مل سکامزید یہ کہ وہی استعفے جو ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی طرف سے ارسال کرنے کے باوجودالیکشن کمیشن
نے ڈی نوٹیفائی نہ کیے وہی راجہ پرویز اشرف کی طرف سے ارسال کرتے ہی نہ صرف منظور کیے بلکہ فوری طورپر ڈی نوٹیفائی کرتے ہوئے نشستیں خالی قرار دے دیں عام تاثر یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن میں اگر انتخابی تیاریوں بارے سرگرمیاں عروج پر ہیں تو ساتھ ہی عمران خان کے خلاف دائر کیسزکا عام انتخابات سے قبل فیصلہ کرنے پرکام جاری ہے اور کم از کم نااہل کرنے کی سزا سنانا چاہتا ہے سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ قواعدو ضوابط کے مطابق ہے ؟ اِس کا حکومتی حلقوں کے سواکوئی بھی ہاں میں جواب نہیں دے سکتاانصاف نہیں یہ سب کچھ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہورہاہے جس کا مقصد عام انتخابات کے نتائج کو حکومتی اتحاد کے حق میں یقینی بنانا ہے عجلت و سرعت سے مستعفی ممبران کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے بعد الیکشن کمیشن کی طرف سے اب عمران خان کی نااہلی نوشتہ دیوار ہے ۔
یہ خیال قوی ترہوتا جارہاہے کہ فیصلوں سے قبل تحریکِ انصاف اثرات و مُضمرات پر غور نہیں کرتی اورمشاورت کے بجائے جذبات میں فیصلے کیے جاتے ہیں جس کااُسے نقصان ہورہا ہے عمران خان وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے معزول ہونے کے بعد فوری عام انتخابات کاخواب دیکھتے رہے جذبات میں ایک سے زائد ایسے فیصلے کیے جن کا موجودہ حکومت کونقصان کے بجائے اُلٹافائدہ ہوا مثال کے طورپر حکومت کو گھر بھیج کروہ فوری طور پر عام انتخابات کے خواہاں تھے مگر جب بات نہ بنی تو پنجاب اور کے پی کے میں بہترین کام کرتی اپنی ہی جماعت کی صوبائی حکومتوں کو گھر بھیج دیا یہ ایسا فیصلہ ہے جو ہوش کے بجائے جوش کا شاخسانہ معلوم ہوتاہے اِس غلط فیصلے سے مرکزی حکومت دو صوبائی حکومتوں کے بوجھ سے آزاد ہو ئی اور اِس پوزیشن میں آگئی ہے کہ اب جو اُس کا من چاہے کام کر سکتی ہے ایسا کیوں ہوا؟ ظاہر ہے وجہ عمران خان کی ضدی اور جھگڑالو طبیعت ہے جس کا نقصان اُٹھانے کے لیے پی ٹی آئی تیاررہے اب بھی اگر خواب غفلت سے نہیں جاگتی توانتخابی نتائج بارے زیادہ خوش گمان نہ رہے۔
قومی اسمبلی میں اگر پی ٹی آئی کا وجود ختم نہ ہوتا تو راجہ ریاض جیسے شخص کو ہر حکومتی فیصلے کی تائید کا موقع نہ ملتا علاوہ ازیں نیب قوانین اور انتخابی قواعد وضوابط میں ترامیم اتنی آسانی سے منظور نہ ہو پاتیں ڈالر کی تاریخی اُڑان کے باوجودحکومت کیوں مطمئن ہے؟ وجہ عیاں ہے دوصوبائی اسمبلیاں ٹوٹنے کے بعد وہ پی ٹی آئی کے خوف سے آزاد ہوگئی ہے اگر کے پی کے اور پنجاب کی حکومتیں موجود ہوتیں توموجودہ گرفتاریاں اورمقدمے بنانے کے لیے حکومت کو جرا¿ت نہ ہوتی اگرمرکزی حکومت دھونس کا مظاہرہ کرتی تو دوصوبائی حکومتیں راہ روکنے کے لیے موجود ہوتیں نیز پی ٹی آئی کو اپنے منشور پر عمل کرانے کاموقع حاصل رہتا۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ عمران خان اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد تہیہ کر چکے ہیں کہ اگر وہ حکومت میں نہیں رہتے تو اپنی جماعت یا اتحادی جماعت کے کسی بندے کو بھی اقتدارمیں نہیں رہنے دینا یہی سوچ عمران خان کے لیے مشکلات بڑھارہی ہے چلیں عمران خان پُرانے سیاستدان نہیں بلکہ ناتجربہ کارہے ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اُن کے ساتھی بھی یاتو اچھا مشورہ دیتے یاپھرکنویں میں چھلانگ لگانے پر اُکساتے محسوس ہوتے ہیں یا شایدممکن ہے وہ فیصلوں سے قبل کسی سے مشاورت ہی نہیں کرتے جو بھی ہے غلط ہے اسی بناپر ملکی سیاست میں فضول گرما گرمی اور تناﺅ ہے اِس میں شائبہ نہیں کہ عمران خان ملک کے مقبول ترین رہنما ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ یہ مقبولیت اب اُن کے غلط فیصلوں سے زوال پذیر ہے ۔
حکومتی اتحاد تو اسی میں خوش ہے کہ اُس نے عمران خان کی حکومت ختم کردی لیکن کیا ملکی مسائل حل کرنے میں بھی کامیاب ہے ؟ اِس کا ہاں میں جواب دینا قطعی طور پر غلط ہو گاآج پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں 215اور250ہے ڈالر کی قیمت 270کے لگ بھگ ہو چکی فی کلوآٹے کی قیمت 150کے قریب ہے ملک کو بجلی اور گیس کے بدترین بحران کا سامنا ہے غریب لوگوں کوماہانہ جوبارہ ہزار ہ مالی مدد ملتی تھی وہ بھی موجودہ حکومت نے دوہزار کر دی ہے ایک طرف ملک میں کاروبار اور صنعتیں بند ہو رہیں مگر حکومت نے سود بڑھا کر سترہ فیصد کر دیا ہے دراصل حکومت کے عوام کو دکھائے خوابوں کا حقیقت سے دورکا بھی واسطہ نہیں موجودہ حکومتی اتحاد عام آدمی کے مسائل حل کرنے میں بُری طرح ناکام ہے مہنگائی اور بے روزگاری کا الگ ریکارڈ بن چکا عوام کو بہتری کے خواب دکھاتے دکھاتے حکومتی اتحاد نے اپنے لیے آسانیاں پیداکرلی ہیں نہ صرف بدعنوانی کے اکثر کیس ختم کرالیے بلکہ نیب کوبھی بے بس کر دیا ہے یہ ایسے فیصلے ہیں جن سے عوام میں حکومتی مقبولیت کم ہوئی ہے اسی بنا پر حکمران اتحادعام انتخابات میں جانے سے گریزاں ہے اور چاہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ مدت کے لیے اقتدار میں رہنے کاکوئی بہانہ حاصل رہے ظاہر ہے ایسا ہونا زیادہ دیرممکن نہیں آج نہیں تو کل عام انتخابات
کی طرف جانا ہے مگر کارکردگی کے نام پراُس کے پاس کچھ نہیں عوام کو یقین ہے کہ سیاست کے بجائے ریاست بچانے کے دعویدارحکمران عوامی نہیں ذاتی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں اسی لیے عوام کی بہتری کے حوالے سے کوئی کام نہیں کر رہے دراصل حکومت اور اپوزیشن دونوں خوابوں کے سوداگر ہیں اُنھیں عوام سے کوئی غرض نہیں بس ایسے خواب دکھارہے ہیں جن کی زمینی حقائق سے دورکا بھی واسطہ نہیں۔

تبصرے بند ہیں.