پاکستان میں جس طرح کی سیاست پروان چڑھ رہی ہے اور جس طرح سیاستدان دست وگریبان ہیں وہ کسی طورملک کیلئے اچھا شگون نہیں ہے،ایسے میں ایک ساری سیاست قیادت کوہوش کے ناخن لیتے ہوئے ملکی ترقی وخوشحالی اورریاست کی مضبوطی کیلئے ایک میز پرآناہوگا ،لیکن اگرسیاستدانو ں نے موجودہ خوفناک سیاسی ومعاشی حالات کے مطابق فیصلے نہ کئے توملک کوخدانخواستہ ناقابل تلافی نقصان ہونے کااندیشہ ہے ،کیونکہ ہمارے یہ سیاسی ومعاشی ماہرین چیخ چیخ کرکہہ رہے ،کاروباری طبقے پریشان ہیں،عوام پریشان ہے،مہنگا ئی سے ستائی عوام کی آہ وپکارسیاسی رہنماؤں کوپکاررہی ہے کہ کو ئی رہنما آئے اوراس خوفناک صورتحال سے ہمیں نکالے۔
سوچ طلب بات ہے کہ بگڑی اوربھیگی سیاست کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟؟کم سے کم تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سمیت ان کی جملہ قیادت سے اس بات کی توقع کرنا توبے معنی ساہوگیاہے کیونکہ ان کے دل ودماغ میں مسلم لیگ (ن)،پیپلزپارٹی اورجمعیت العلمائے اسلام (ف)سمیت دیگرمختلف سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ کے حوالے سے جوکچھ بھراہواہے ان سے خیرکی توقع مشکل ہے لیکن چونکہ پاکستان نے آگے بڑھناہے،پاکستان کوقوم نے یکجاہوکر اس کوآگے لے جاناہے،مگرعوام تقسیم ہوچکی ہے،ایک طرف حکومت اوراتحادی جماعتوں کابیانیہ ہے اوردوسری طرف 2018ءکے انتخابات کے ”آرٹی ایس زدہ “ نتائج کی صورت میں معرض موجود میںآنے والی سلیکیڈ حکومت کابیانیہ ہے کہ ان کے سوا ملک میں تمام چورڈاکوہیں،کوئی صادق امین نہیں ہے،اگروہ اقتدارمیں ہیں توپاک فوج زندہ باد ہے ،مگراقتدارنہیں توسالارفوج کوگالیاں دیں ،اداروں کوڈرائیں اوردھمکائیں،سیاسی افراتفری پیداکریں اوراس بے چینی میں صرف تحریک انصاف کواقتداردیدیاجائے لیکن غالبا عمران خان اوران کی غیردانشمند قیادت یہ بھول گئی ہے لہٰذا انہیں ہوش کے ناخن لینے چاہیں،اب بھی وقت ہے کہ قومی قیادت کے ساتھ ملکربیٹھیں ،ملک کے لئے بیٹھیں ،ریاست کی بہتری کیلئے بیٹھیں،ذاتی غصے اورعنادکوایک طرف رکھیں،کیونکہ یہ ملک کامعاملہ ہے کوئی گھریلومعاملہ نہیں کہ جس میں مرد کوطلاق کاحق حاصل ہوتووہ جب چاہے بیوی کوطلاق دے اورشادی کرے ،قومی مسائل کوبچوں کاکھیل نہ سمجھیں ،اپنے رویوںکاازسرنو جائزہ لیں۔
قومی سیاست میں دل وگردہ اگردیکھناہوتو سابق وزیراعظم محمدنوازشریف اور آصف علی زرداری کادیکھناچاہیے جن کی حکومت سیاسی وغیرسیاسی تنازعات پر متعد د بارختم کی گئی ،مگروہ میدان سیاست سے نہیں بھاگتے،بلکہ وہ میدان سیاست میں ڈٹے ہیں اورخودکوسیاست کے بڑے کھلاڑی ثابت کیا،ان بڑے کھلاڑیوں نے اسٹیبلشمنٹ کے چہیتے وزیراعظم کے چارشانے نہ صرف چت کئے بلکہ اس کے لئے آئندہ کی سیاست میں حالات ہی مشکل بنادیئے۔تحریک انصاف اوردیگرطاقتوں کی کوشش تھی کہ نوازشریف اورآصف علی زرداری کو مائنس کردیاجائے مگرمائنس کرتے کرتے مائنس کرنے والے خود مائنس ہوگئے اورآج ملکی سیاست میں دونوں بڑے کھلاڑیوں اوران کے بچوں (مریم نواز/بلاول بھٹوزرداری)کاڈنکاچل رہاہے
مریم نوازکی سیاسی زندگی بھی بڑی نشیب وفراز سے بھری ہوئی ہے،اگرچہ سابق وزیراعظم محمدنوازشریف کی سیاسی جانشین مریم نوازہیں لیکن جن مشکلات سے سرخروہوکروہ میدان سیاست میںہیں بہت کم ایسا ہوتاہے ، سیاسی اعتبارسے مریم نوازبھی بالخصوص1999ءمیں اپنے والدکے ساتھ ایوان اقتدارسے طیارہ سازش کیس میں سزائے موت کی سزا اورپھر اقتدارسے معزولی ،نااہلی کی سزا،جیلوں سے نیب کے عقوبت خانوں تک کی عینی شاہد ہیں،ان کے دل میں بڑے رازہیں،شریف خاندان اورپارٹی رہنماو¿ں سے زیادتیوں کے زخم ہیں ،ان کی والدہ محترمہ جن حالات میں خالق حقیقی سے جاملیں ان کا وہ زخم ہردم تازہ ہے،لیکن خوش نصیب بیٹی ہیں جنہوں نے خاندان کیلئے عوامی جدوجہد کاراستہ اپنایا ،اورآج اپنی جدوجہد کے بل بوتے پر پارٹی کی چیف آرگنائزرہیں کیونکہ مریم نوازنے والد،چچا(وزیراعظم شہبازشریف)،بھائی حمزہ شہبازاورپارٹی کے دیگررہنماؤں کیخلاف سیاسی انتقام کے خلاف عوام جدوجہدکرکے اپنالوہامنوایااورعوام میں وہ پذیررائی حاصل کی جوایک وقت میں محترمہ بے نظیربھٹونے حاصل کی ،محترمہ بے نظیربھٹونے اپنے والدسابق وزیراعظم ذوالفقاربھٹوکی گرفتاری سے پھانسی تک جن حالات کامقابلہ کیا اورکس طرح وہ میدان سیاست میں کامیاب ہوئیں وہ ہماری سیاسی تاریخ کااہم حصہ ہے اب ان کے صاحبزادے بلا ول بھٹو زرداری بھٹوکی نظریاتی سیاست کے امین ہیں،مریم نوازساڑھے تین ماہ کے بعد بطورچیف آرگنائزرمسلم لیگ (ن ) دوپہرتین بجے دوبئی سے لاہورپہنچ رہی ہیں،ن لیگ کے کارکن ان کاشانداراستقبال کریںگے ،ایئرپورٹ پررات سے ہی میلہ کاسامان ہے،پارٹی کی تنظیم سازی کے حوالے سے ان کالاہورکی صدارت کیلئے ملک سیف الملوک کھرکھرکاانتخاب بہترین فیصلہ ثابت ہوا،جنہوں نے لاہورکے کارکنوں میں جوش ولولہ کی ایک نئی روح پھونک دی ہے،گذشتہ چارروزسے لاہورکے مختلف حلقوں میں ارکان اسمبلی نے کارکنوں کوموبلائزکرکے لاہورکے سیاسی محاذ کوگرمادیاہے،سیف الملوک کھوکھر،خواجہ برادران ، ایازصادق ،خواجہ عمران نذیر، ملک ریاض، بلال یاسین ،چوہدری شہباز، غزالی سلیم بٹ اوردیگرارکا ن اسمبلی متحرک ہوچکے ہیں،مریم نوازکی واپسی سے سیاسی طورپراب نہ صرف لاہور بلکہ ملک بھرمیں سیاسی دمادم مست قلندرہوگا،سابق وزیراعظم عمران خان کے لاہورمیں طویل قیام سے اب براہ راست مقابلہ جاتی عمرہ اورزمان پارک میں ہوگا۔مریم نوازکی تنظیمی سپورٹ ان کے چچا وزیراعظم شہباز شریف کریںگے جوخودایک منجھے ہوئے سیاسی کھلاڑی ہیں،مریم نوازنہ صرف ضمنی بلکہ عام انتخابات میں انتخابی مہم کی نگران ہوںگی ،پارٹی کوری آرگنائزکریں گی ،ایک اچھی اورتجربہ کارٹیم میدان میں لاکر ایک نئی سیاسی روح بھی پھونکیں گی۔
لیکن ایک چیزجس کاانہیں عوام کوجواب دیناہوگا وہ مہنگائی ہے ،کیونکہ جب سے انہوں نے سلیکٹیڈ کوگھربھیجاہے تب سے مہنگائی تھمنے کانام نہیں لے رہی،چلیں مفتاح اسماعیل توفیل ہوگیایا کیا گیامگراسحق ڈارکیوں فیل ہوگئے؟؟؟ مسلم لیگ ن (اتحادی حکومت)نے مختصردورانئے کی حکومت لیکرعوام الناس کو کیادیا؟؟؟ سلیکٹیڈ حکومت کا معاشی گند کابوجھ مسلم لیگ ن نے کیوں اٹھایا؟؟؟ باقی ویلکم بیک ،ویلکم بیک
Next Post
تبصرے بند ہیں.