نگران وزیراعلیٰ پنجاب اسلام علیکم

17

تحریک ِ انصاف نے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی کو ٹف ٹائم دینے کا اعلان کر دیا ہے اور حکومت نے فواد چودھری کی گرفتاری سے پاکستانی عوام کی اکثریت کو منہ توڑ جواب دے کر بتا دیا ہے کہ ان کا پالا کن لوگوں سے پڑا ہے۔ فواد چودھری کی گرفتاری سے پی ڈی ایم کے ان سیاسی رہنماؤں کو بھی پیغام دیا گیا ہے جو تحریک انصاف میں شامل ہونے کے لیے پر تول رہے ہیں۔ اگر محسن نقوی اور ان کی طرف کھڑے لوگوں کا نقطہ نظر دیکھا اور سنا جائے تو تصویر مختلف نظر آئے گی۔ پاکستان کی سیاست ہمیشہ حکمران یا بالادست طبقے اور محکوم طبقے کے درمیان جنگ کی شکل میں رہی ہے جس میں ابھی تک جیت بالادست طبقے ہی کی رہی ہے۔ ملک میں جب بھی کبھی کسی سیاسی لیڈر کو حقیقی عوامی تائید حاصل ہوئی اور اس نے اس ادراک کے باعث بالادست طبقے کو آنکھیں دکھانے کی کوشش کی یا ان کی پالیسیوں اور ایجنڈے سے باہر نکلنے کی کوشش کی تو اس کے نتیجے میں یا تو اسے مار دیا گیا یا جیل میں ڈال دیا گیا۔ عمران خان اور پاکستانی عوام ایک بار پھر انہیں حالات کا شکار نظر آتے ہیں۔ میرے منہ میں خاک عمران خان ابھی تک صرف اس وجہ سے زندہ ہے کہ وہ عوامی لیڈر ہونے کے باوجود رد ِ انقلاب ثابت ہوا ہے۔ اس نے ہمیشہ خونی انقلاب کی سیاست سے گریز کیا ہے۔ ملک اور عوام کو کسی ایسے راستے پر لیکر نہیں گیا جہاں سے واپس لوٹنا ممکن نہ رہے۔ وہ ہر بار اس مقام سے عوام سمیت تبدیلی تبدیلی کی تھاپ پر نعرے لگاتا واپس آیا ہے جس سے آگے حقیقی آزادی کی تاریخ لکھی جاتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک خود بالادست طبقے کو اس کی ضرورت ہے کیونکہ ملک اس وقت جس حال کو پہنچ چکا ہے اور عوام کے اندر نفرت اور غصے کا لاوا جس شدت سے بھڑکا ہوا ہے اگر عوام کے سیلاب کے آگے بند باندھنے والا کوئی نہ رہا تو محلات اور لاجز کو پہلے ہی ریلے میں ریت کی طرح بہہ جانے سے کوئی نہیں روک پائے گا۔ البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ بالادست طبقے کو جتنا زچ موجودہ عہد میں ہونا پڑ رہا ہے پہلے ایسے کبھی نہیں ہوا اور میرے نزدیک اس میں عمران خان کے بجائے خود عوام اور سوشل میڈیا کا کردار زیادہ ہے۔ جنرل یحییٰ، ایوب خان، ضیا الحق، مشرف اور اب ابھی قمر جاوید باجوہ تھوڑی بہت تبدیلی کیساتھ ایک جیسے ہی کردار تھے۔ ان کی سوچ وہی تھی جو انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کی، موجودہ نگران حکومت بھی ویسی ہی ہے جیسے نجم سیٹھی اور حسن عسکری والی تھی عوام کے دکھ اور ریاست پاکستان کی بے بسی بھی وہی ہے جو پہلے تھی۔ اس دفعہ اگر قرعہ اقتدار محسن نقوی کے نام نکل آیا ہے تو اس میں حیرت کیسی۔ جہاں تک محسن نقوی کے بارے میں میری رائے ہے مجھے نہیں لگتا کہ اس تقرری کے لیے محسن نقوی کی ذاتی خواہش ہو گی۔ محسن نقوی سامنے آ کے یا پبلک ہو کے کھیلنے والے کھلاڑی نہیں ہیں۔ ان کی زندگی بھر کی جدوجہد اور کامیابیوں اور ناکامیوں کے پیچھے ایک بے سہارا بچے کی کہانی ہے جو ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھتا رہا ہے۔
اسے پتہ نہیں کہ وقت، حالات اور تقدیر انسان کے ساتھ کس کس طرح کھیلتے ہیں۔ سی این این کی نوکری، پاکستان واپسی، چودھری خاندان میں شادی، امریکی عمال سے تعلق، آصف زرداری سے قریبی تعلقات اور اب نگران وزیراعلیٰ۔ طاقتور حلقوں میں سے قریبی روابط کے باوجود عوام دوست مزاج اور سادہ طبیعت رکھنے والے محسن نقوی نے خود کو اب تک جس لو پروفائل میں رکھا اور ہمیشہ دوستی کی لکیر کو بڑھایا صرف ایک اقدام سے دو دنوں میں ہر خاص و عام کے سامنے کُھل گئے۔ ان
کی زندگی کے وہ گوشے بھی سامنے آ گئے جو بہت کم لوگوں کے علم میں تھے۔ ہر طرف سے تابڑ توڑ حملے اگرچہ غیر متوقع نہیں لیکن حملے تو حملے ہی ہوتے ہیں۔ دوستی کی لکیر کو ہمیشہ لمبا رکھنے والے صحافی کی دشمنی کی لکیر لمحوں میں اتنی طویل ہو جائے گی خود محسن نقوی نے کبھی نہیں سوچا ہو گا۔ اب آنے والے دنوں مہینوں میں حسب سابق اور حسب ِ توقع الزامات کی پنڈاریاں کھلتی رہیں گی اور نگران وزیر اعلیٰ پر برستی رہیں گی۔ عمران خان نے محسن نقوی کے رجیم چینج آپریشن میں متحرک رہنے کا الزام عائد کر کے اس کی بڑی خطرناک ابتدا کر دی ہے اور شیخ رشید نے تو اخلاقی حدیں بھی پار کر ڈالی ہیں۔ آصف زرداری اور ن لیگ سے وابستگی بھی اس وقت عوامی سطح پر سیاسی بلنڈر ہی سمجھی جا رہی ہے جس کی سامنے کی وجہ پچھلے دس ماہ میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ اور پی ڈی ایم کی حکومتی کارکردگی ہے۔ پاکستانی عوام پر ظلم کے جو پہاڑ اقتصادی بحران اور مہنگائی نے توڑے ہیں اس نے لوگوں کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج کر کے رکھ دی ہے۔ اب جس طرح پنجاب پولیس کے ذریعے فواد چودھری کی گرفتاری ہوئی ہے بغاوت کے مقدمے میں یعنی گویا کسی سرکاری افسر کو منشی کہنا پاکستان کے خلاف بغاوت سمجھا گیا ہے ایسے حالات میں پنجاب جیسے صوبے کا نگران وزیر اعلیٰ بن جانا اور وہ بھی الیکشن کمیشن کی رکمنڈیشن پر شاید پیپلز پارٹی کے لیے تو کسی نہ کسی طرح فائدے کا باعث ہو لیکن صحافی محسن نقوی کے لیے سراسر خسارے کا سودا ہے۔ اب اگر الیکشن نہیں ہوتے تو بھی عوامی جذبات کا سامنا اور اگر ہو جاتے ہیں تو جو بھی ہار گیا اس کی طرف سے بندوقوں کا رخ بھی نگران وزیراعلیٰ کی طرف ہی ہو گا۔ گویا رضیہ غنڈوں میں پھنس جانے کے مصداق نگران وزیراعلیٰ پنجاب کی پوزیشن چاروں طرف سے مشکل میں ہے۔ اور ابھی تو فلم شروع ہوئی ہے۔ ہر آنے والا دن گزرے ہوئے دن سے زیادہ کٹھن دکھائی دے رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں ملکی سیاست کی تاریخ گواہ ہے کہ آئینی اور قانونی پیچیدگیاں ایسے پھندے ثابت ہوتے رہے ہیں جن کے آٹے دال کا بھاؤ اس وقت سامنے آتا ہے جب اقتدار نہیں رہتا۔ کوئی بھی اقتدار ہمیشہ رہنے والا نہیں ہوتا سوائے اللہ کے اقتدار کے۔ مجھے لگتا ہے آج نہیں تو کل محسن نقوی مڑ کے دیکھیں گے ضرور کہ مجھے دھکا کس نے دیا تھا۔

تبصرے بند ہیں.