دنیا میں لگ بھگ 207 ممالک ہیں۔ ان میں سے ایک ملک ایسا بھی ہے جو رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑے ملک روس سے دس گنا چھوٹا ہے۔ لیکن اس کا نہری نظام روس سے تین گنا بڑا ہے۔ یہ ملک مٹر کی پیداوار کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر، خوبانی، کپاس اور گنے کی پیداوار میں دنیا بھر میں چوتھے نمبر پر ہے۔ پیاز اور دودھ کی پیداوار میں پانچویں نمبر پر ہے۔ یہ ملک دنیا میں چھٹے نمبر پر کھجور اور ساتویں نمبر پر آم پیدا کرتا ہے۔ یہ ملک دنیا کا بہترین چاول پیدا کرتا ہے اور آٹھواں بڑا ملک ہے۔ گندم پیدا کرنے والا ساتواں ، میٹھے اور رسیلے کنو پیدا کرنے والا دسواں بڑا ملک ہے۔ اس ملک میں کوئلے کے ذخائر چوتھے اور تانبے کے ذخائر چھٹے نمبر پر ہیں۔ یہ ایشیا میں گیس کے ساتویں بڑے ذخائر رکھتا ہے۔ یہ ملک فوجی اعتبار سے دنیا کا ساتواں طاقتور ملک ہے۔ یہ دنیا کا واحد اسلامی ملک ہے جو دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہے۔ اس کے باوجود یہ ملک اپنے قیام سے اب تک غربت ، بے روزگاری اور جہالت سے جان نہیں چھڑا سکا۔ کیونکہ یہ ملک نااہلوں ، نالائقوں ، ملک فروشوں ، لوٹوں اور لٹیروں میں نمبر ون ہے۔ اب آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ میں پاکستان کی بات کر رہا ہوں۔ پاکستا ن کا شما ر اپنے وسائل اور افرادی قوت کے اعتبار سے دنیا کے ٹاپ 10 ممالک میں ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان معاشی اعتبار سے کمزور ، غریب اور بیرونی ممالک کا دست نگر کیوں ہے ؟ دنیا کے بہترین وسائل ہونے کے باوجود پاکستان کی جی ڈی پی 42 ویں اور فی کس آمدنی 177ویں نمبر پر کیوں ہے ؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہاں کی کرپٹ اشرافیہ ہے۔ جس نے 75 برسوں میں اس ملک کو لوٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آج ہمارے بیورو کریٹ ، سیاستدان ، جنرلز اور جج ریٹائرمنٹ کے بعد کسی ترقی یافتہ ملک سیٹل ہو جاتے ہیں۔ جہاں ان کی اولادیں اور لوٹی ہوئی دولت کے بنک اکاؤنٹس پہلے سے ہی موجود ہوتے ہیں۔ اسی لئے دنیا اب یہ سمجھ چکی ہے کہ چند خاندانوں، ان کے وفادار بیوروکریٹوں اور نظام کی دیگر طاقتوں سے معاملات طے کر لئے جائیں تو اس ملک کو جس طرح چاہے نوچیں کوئی نہیں پوچھے گا۔ یہ لوگ اپنے ایک پاؤ گوشت کی خاطر پورا اونٹ ذبح کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ یہاں شریف اور ایماندار آدمی کا راستہ روکا جاتا ہے۔ جو شخص بھی ایمانداری سے کام کرنے کی کوشش کرے
گا اسے کام نہیں کرنے دیا ، کھڈے لائن لگا دیا جائے گا۔ پاکستان کرپشن کے اعتبار سے دنیا بھر میں 140 واں بدترین ملک بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فارن انوسٹر یہاں آنے سے ڈرتا ہے۔ اگر کوئی بھولے بھٹکے سے آبھی جائے تو ہمارے بابو ایسی گھمن گھیریوں میں ڈالتے ہیں کہ وہ چکرا کر رہ جاتا ہے۔ البتہ اگر انھیں کوئی ہڈی ڈال دے تو پھر اس کی فائلوں کے پہیے لگا دیتے ہیں۔ اس لئے تمام تر پر کشش وسائل کے باوجود پاکستان انوسٹمنٹ فرینڈلی ملک نہیں بن سکا۔ پاکستا ن کے حکمرانوں کو کرپشن کے ذریعے مال بنانے سے فرصت ملے تو یہ ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کا سوچیں۔ مجھے سنگاپو ر جیسے بیابان اور پتھریلے ملک کی ترقی ہمیشہ مسحور کرتی ہے۔ جدید سنگا پور کے بانی لی کوآن جنرل ضیا الحق کے دور سے پاکستان آتے رہے ہیں اور انھیں پاکستان بے حد پسند تھا ۔ پاکستان کے چند ایک پڑھے لکھے سیاستدانوں میں سے مشاہد حسین سید کو بھی لی کوآن بہت پسند ہیں۔ یہ چاہتے تھے کہ پاکستان کو بھی سنگا پور کی طرح صنعتی اور جدید کاروباری خطوط پر استوار کیا جائے۔ 1998 میں وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے سنگا پور کا دورہ کیا۔ ان دنوں سنگا پور کا ائر پورٹ دنیا کا مصروف ترین ائر پورٹ ڈکلیئر کیا گیا تھا۔ سنگاپو ر کی جدید بندرگاہ دنیا کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لئے ایشیا کا گیٹ وے کا کام کررہی تھی۔ نواز شریف نے لی کوآ ن کو دورہ پاکستان کی دعوت دی۔ لی کوآن 1999 میں پاکستان تشریف لائے۔ انھیں کراچی میں استقبالیہ دیا گیا۔ ان دنوں ممنون حسین سندھ کے گورنر تھے۔ لی کوآن سے ملاقات کے دوران کابینہ کے ایک وزیر نے پوچھا کہ ہم کراچی پورٹ کو سنگا پور کی طرح کیسے جدید بنا سکتے ہیں۔ یہ ایک سنجیدہ سوال تھا۔ لیکن لی کوآن نے زبردست قہقہہ لگایا اور دیر تک ہنستے رہے۔ حالانکہ یہ بات سفارتی پروٹوکول کے خلاف تھی۔ لی کوآن نے ٹشوپیپر سے آنکھوں کا پانی صاف کیا۔ سوال کرنے والے وزیر کی جانب دیکھ کر حیران کن انکشاف کر ڈالا۔ انھوں نے بتا یا کہ ہمیں سنگاپور پورٹ پاکستان کے ایک سابق ایڈمرل سعید نے ڈویلپ کر کے دی ہے۔ بلکہ یہ سوال تو مجھے آپ لوگوں سے پوچھنا چاہیئے کہ آپ کراچی ائر پورٹ کیوں نہ ڈویلپ کر سکے۔ یہ حاضرین کے لئے شرمندگی کا مقام تھا۔ لیکن شرمندگی کے اس احساس کو پانے کے لئے قومی غیرت کا ہونا بہت ضروری ہے۔ افسوس ہمارے حکمران یہ احساس گنوا چکے ہیں۔ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔ ایسے ایسے جوہر قابل ہیں جو قدر نہ ہونے کے باعث ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں۔ میں ذاتی طور پر ایسے سینکڑوں پاکستانیوں کو جانتا ہوں جو صرف اس وجہ سے ملک چھوڑ کر چلے گئے کہ انھیں یہاں ایمانداری سے آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کا موقع نہیں مل رہا تھا۔ لیکن جیسے ہی انھیں بہتر نظام میں کام کرنے کا موقع ملا انھوں نے ان ملکوں کی تقدیر بدل دی۔ اس ملک میں ٹیلنٹ کو کیڑوں مکوڑوں کی طرح ٹریٹ کیا جا تاہے۔ عام پاکستانی صرف ٹیکس ، بجلی کے بل اور قربانیاں دینے کے لئے ہے۔ یہ اشرافیہ اسے حق دینا تو دور کی بات انسان بھی نہیں سمجھتی۔ ہمارا اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کرپشن کو برا نہیں سمجھا جاتا۔ آپ جس بھی دفتر میں چلے جائیں۔ رشوت دیئے بغیر کام کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔ اب تو ہر کام کا ریٹ مقرر ہے۔ وزیر وں ، مشیروں ، افسروں نے میٹنگ پوائنٹ بنا رکھے ہیں۔ آپ اگر پاسپورٹ بنوانے چلے جائیں۔ آپ نے گاڑی رجسٹر کرانی ہے۔ آپ نے بجلی کا میٹر لگوانا ہے ۔ تو اس دفتر کے باہر کھلے عام ایجنٹ گھومتے ملیں گے۔ وہ آپ کو کام کا ریٹ بتائیں گے۔ اگر آپ ان کے ساتھ مک لیں تو یہ آپ کا کام چٹکیوں میں کرا دیں گے۔ورنہ آپ مہینوں دفتر کے چکر لگاتے رہیں گے اور آپ کی فائل پر بے سروپا اعتراضات لگتے رہیں گے۔یہ کرپشن اور کرپٹ سوچ پاکستان کو دیمک کی طرح چاٹ گئی ہے۔ اس وقت ملک جس بحران سے گزر رہا ہے ۔ ہمیں اس کا صحیح طرح ادراک ہی نہیں۔ حالت یہ ہے اب دنیا پاکستان کو امداد دینے کے لئے تیار نہیں ہے ۔ سعودی عرب جس نے ہر اچھے برے وقت میں ہمارا ساتھ دیا۔ اس نے بھی صاف انکار کر دیا۔ سب کا ایک ہی اعتراض ہے کہ ہم اپنا گورننس سسٹم ٹھیک کریں۔ ملک سے کرپشن کو ختم کریں۔ ہم کب تک دنیا کے سامنے اپنا دست سوال دراز رکھیں گے ؟ ہمیں اپنے پاو¿ں پر کھڑا ہونے کے لئے کر پشن ، بے ایمانی اور دھوکے جیسے الفاظ اپنی ڈکشنری سے کھرچنے ہوں گے۔ ورنہ ملک ڈیفالٹ ہونے کے دہانے پر آچکا ہے۔ کراچی پورٹ پر پیٹرول کے کارگو موجود ہیں لیکن سٹیٹ بنک کے پاس ایل سیز کھولنے کی رقم کا بندوبست ہی نہیں ہے۔ ملک پٹرول کی قلت اور بد ترین لوڈ شیڈنگ کا شکار ہونے جا رہا ہے۔ لیکن ہماری سیاسی اشرافیہ اقتدار کی لڑائی میں مصروف ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ہر صورت اقتدار چاہتے ہیں۔ اس لڑائی میں ملک داؤ پر لگ چکا ہے۔ بس ایک قدم آگے سری لنکا ہے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.