اصولوں کی سیاست

18

فواد چوہدری کی گرفتاری سے لگتا ہے کہ نگران حکومت آ نہیں رہی بلکہ آ گئی ہے سیانے کہتے ہیںکہ لوہے کو لوہا کاٹتا ہے اس کا بڑا واضح اور سیدھا مطلب ہے کہ لوہے کی تلوار کے مقابلہ میں اگر آپ لکڑی کی تلوار لے کر نکلیں گے تو یقینا مات آپ کا مقذر بنے گی ۔ پاکستان کی سیاست میں اصولوں کی خواہش رکھنا اچھی بات ہے اور اگر اس پر عمل بھی ہو تو کیا کہنے لیکن تحریک انصاف کی حکومت میں ایوان صدر ، وزیر اعظم ہاﺅس ، گورنر ہاﺅسز اور وزرائے اعلیٰ ہاﺅسز کے یونیورسٹیز بننے کے بعد ، پیٹرول چالیس روپے لٹر اور اندرون اور بیرون ملک سے قرض نہ لینے ایسے اعلانات پر مکمل عملدرآمد کے بعد گذشتہ سال اس وقت کی حزب اختلاف کی جانب سے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر قومی سمبلی سے لے کر صدر مملکت تک جس احسن طریقہ سے آئین پر مکمل عمل درآمد کیا گیا اور جس پر بعد میں سپریم کورٹ نے بھی نہ صرف یہ کہ اپنی رائے دی بلکہ آدھی رات کو عدالتوں کے تالے کھولنے پڑے اس کے بعد پاکستان کی سیاست میں کسی کے لئے رتی بھر گنجائش ہی نہیں بچتی کہ وہ غیر اصولی سیاست کرناتو دور کی بات ہے اس کے متعلق سوچنے کی بھی حماقت کریں ۔ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کے ناموں کی بات آئی تواصولی سیاست کا پرچار کرنے والی تحریک انصاف کی جانب سے پی ڈی ایم کی طرف سے دیئے جانے والے ناموں کا مذاق اڑایا گیا اور کہا گیا کہ یہ نام نہیں دیئے بلکہ مذاق کیا گیا ہے تحریک انصاف نے جو نام دیئے ہیں ان پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا ۔ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے ہم بھی قائل ہو گئے کہ بات تو ٹھیک ہے لیکن جادو پھر جادو ہوتا ہے اس کی حقیقت کچھ نہیں ہوتی ۔ ہم نے جب غور کیا تو پتا چلا کہ اصل مذاق تو تحریک انصاف نے قوم سے کیا ہے کہ ناصر سعید کھوسہ نے وزیر اعلیٰ بننے سے ہی انکار کر دیا جبکہ نصیر خان کا نام دہری شہریت کی وجہ سے مسترد ہو جانا تھا تیسرا نام احمد نواز سکھیرا ابھی حاضر سرورس سرکاری ملازم ہیں اور ان کی ریٹائرمنٹ میں چند دن باقی جبکہ جو چوتھا نام نوید اکرم چیمہ کا دیا تو انھوں نے بھی نگران وزیر اعلیٰ بننے سے معذرت کر لی ۔ یہ حقیقت ہے ان ناموں کی جو تحریک انصاف ی جانب سے نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کے لئے دیئے گئے ۔
سوشل میڈیا پر نگران وزیر اعلیٰ کے متعلق کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے2016میں اپنے ایک فیصلے میں کہا تھا کہ نیب کے ساتھ پلی بار گین کرنے والا عوامی عہدہ نہیں رکھ سکتا تو اب یہ سپریم کورٹ کا امتحان ہے کہ وہ محسن نقوی کے متعلق کیا فیصلہ کرتی ہے ۔ ہمیں یہ پوسٹ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ اتنی بڑی حماقت کیسے ہو سکتی ہے لیکن خدا بھلا کرے مجیب الرحمن شامی اور کامران شاہد کا کہ جنھوں نے ٹی وی پر اپنے پروگرامز میں اس قصہ کا پوسٹ مارٹم کر دیا کہ محسن نقوی صاحب کے پاس تو کبھی عوامی عہدہ نہیں
رہا تو انھوں نے پلی بارگین کیسے کی ہو گی تو اصل بات یہ تھی کہ محسن نقوی نے اپنے ایک دوست کے 35لاکھ روپے ادھار دینے تھے۔ اس دوست نے نیب میں کیس کیا اور نیب کے حکم پر قرض کی رقم اس دوست کو واپس کر دی جس میں پلی بارگین والی کوئی بات ہی نہیں تھی ۔ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کے حوالے سے ہی ایک اور بات مختلف حلقوں کی جانب سے کہی جا رہی ہے کہ اب انھیں غیر جانبدار یعنی نیوٹرل بن کر دکھانا ہو گا ۔ جو لوگ یہ بات کر رہے ہیں انھیں اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ خان صاحب کا تو گذشتہ نو ماہ سے اسٹبلشمنٹ سے جھگڑا ہی یہی چل رہا ہے کہ وہ اسٹبلشمنٹ کو مسلسل تلقین کر رہے ہیں کہ خدا نے کسی کو نیوٹرل رہنے کا حکم نہیں دیا اور خان صاحب کی تسلی اس سے کم پر ہونی نہیں کہ جب تک نگران وزیر اعلیٰ وفاقی وزارءکے خلاف مقدمے قائم نہ کریں بلکہ اگر ان کا پنجاب میں داخلہ ہی بند کر دیں تو زیادہ بہتر ہو گا اور اگر ان میں سے کچھ کو خاص طور پر وزیر داخلہ ، وزیر خارجہ اور وزیر اعظم کو کوئی کیس بنا کر گرفتار کر لیا جائے تو انھیں نگران وزیر اعلیٰ کے نیوٹرل ہونے کا یقین آ جائے گا ۔ اگر یہ کام نہیں ہو سکتا تو پھر خان صاحب پر قاتلانہ حملہ کی انکوائری کے لئے بنائی جانے والی جے آئی ٹی اور اس کی ہونے والی انکوائری خان صاحب کی مرضی کے مطابق ہونی چاہئے نیز تحریک انصاف کے کسی حامی پر کوئی کیس نہیں بننا چاہئے اور اگر ہیں تو انھیں فی الفور ختم ہونا چاہئے اور خان صاحب کی احتجاج کی کال پر بیشک کوئی بندہ نکلے یا نہ نکلے لیکن انتخابات میں تحریک انصاف کو دوتہائی اکثریت نہ مل سکی تو نگران وزیر اعلیٰ کا غیر جانبدار ہونا سوشل میڈیا کی تاریخ میں ہمیشہ مشکوک سمجھا جائے گا اور جس طرح وزیر اعلیٰ پنجاب نے چیف سیکریٹری پنجاب سے آئی جی پنجاب تک کو تبدیل کیا ہے اور پروٹو کول لینے سے بھی انکار کر دیا ہے تو اس سے تو لگتا ہے کہ ان کا کچھ کرنے کا ارادہ ہے لیکن کیا کرتے ہیں اس کا پتا تو وقت آنے پر ہی چلے گا لیکن دیکھیں کہ کیسا اتفاق ہے کہ 2013میں نجم سیٹھی، 2018میں پروفیسر حسن عسکری اور اب2023میں محسن نقوی مسلسل تیسری مرتبہ پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کا منصب صحافی برادری کے حصہ میں آ رہا ہے ۔
لگ ایسے رہا ہے کہ وفاقی حکومت نے بھی اب طے کر لیا ہے کہ تحریک انصاف کی اصولی سیاست کا جواب اب اصولوں کی سیاست سے ہی دیا جائے گا ۔ پہلے تو کمال مہارت سے ہلہ شیری دے کر پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیوں کو تحلیل کروایا گیا اور یہ کوئی آسان کام نہیں تھا کہ پنجاب جہاں پر دوسروں کی تو بات چھوڑیں ملک کا وزیر داخلہ بھی عدالت سے اپنی حفاظتی ضمانت کروا کر داخل ہوتا تھا اور تین تحریک انصاف کے لیڈروں کی گاڑیاں اور چھ پولیس کی موبائلیں بیچ سڑک میں کھڑی کر کے ٹریفک بلاک کر کے سرکاری احتجاج کیا جاتا تھاوہاں سے حکومت ختم کروانا مذاق نہیں تھا ۔ اس کے بعد خان صاحب وفاق میں جس قسم کا سرپرائز دینا چاہتے تھے حکومت نے اس سے پہلے انھیں سرپرائز دے دیا اور کچھ اس طرح سرپرائز دیا کہ اسپیکر نے جب پہلے 35استعفے منظور کئے تو خود تحریک انصاف اور خان صاحب نے غصے میں آنکھیں لال اور لہجے بگاڑ کر میڈیا والوں کو بلا بلا کر کہا کہ نہ جی نہ اسپیکر یہ غلط کر رہے ہیں ہمارے تمام ارکان کے استعفے منظور کئے جائیں ۔ انھوں نے یہی سمجھا تھا کہ یہ2014ہے لیکن پھر جب مزید 35استعفے منظور ہوئے تو پڑتھو پڑ گئے کہ ” ہن کی کریے اے کی ہو گیا اے “ اس کے بعد اجتماعی یو ٹرن لیا گیا اور کہا گیا کہ خدا کا واسطہ اسپیکر صاحب یہ ظلم نہ کریں اور اب مزید ہمارے استغفے قبول نہ کریں لیکن اسپیکر نے اصولی سیاست کا پرچم بلند کرتے ہوئے مزید 43استعفے منظو ر کر کے بتا دیا کہ اگر آپ اصولی سیاست کر سکتے ہیں تو ہمیں بھی یہ سب آتا ہے لیکن ہم آپ کی طرح اصولی سیاست روز روز نہیں کرتے بلکہ کبھی کبھی لیکن بحالت مجبوری صرف وقت پر کرتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.